دو اہم شخصیات کے قتل میں واضح طور پر افغانستان ملوث

افغانستان ایک عرصہ سے خانہ جنگی کا شکار ہے بلکہ یوں کہیے کی یہ ملک بہت ہی کم امن کی حالت میں رہتا ہے اور ان سب حالات میں اس کے لوگوں کے مزاج اور حکمرانوں کی نا اہلیت سب کا ہاتھ ہے لیکن وہ اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراکر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو سنبھال نہیں پا رہے۔افغانستان درحقیقت اپنے محسن پاکستان کے اوپر الزامات لگا کر جس کم ظرفی کا ثبوت دے رہا ہے اس کی مثال کم ہی ملے گی وہی پاکستان جس نے دہائیوں تک اس کے لاکھوں باشندوں کو اپنی سر زمین پر پناہ دی لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ یہ اسی پاکستان کے دشمن بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے ساتھ مل کر اس کے خلاف سازشوں کے جال بُنتا ہے۔وہ یہ حقیقت بُھلائے ہوئے ہے کہ پاکستان سے اُس کے جو رشتے اور رابطے ہیں وہ بھارت سے ہزار سال کی کوشش سے بھی استوار نہیں ہو سکتے ۔بھارت افغانستان میں جو منصوبے چلا بھی رہا ہے اُس کا مقصد افغانیوں کی مدد نہیں بلکہ اپنے مفادات ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے قریب شمال میں رہنے کا ایک بہانہ بھی ہے تا کہ وہ اپنے مکروہ عزائم پورے کرے۔دکھ اس بات کا ہے کہ افغانستان پوری طرح بھارت کے شکنجے میں ہے اور پاکستان میں دہشت اور خرابی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔پاکستان میں آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ ہوااور اسے بَری کر دیا گیا تو توقع کے عین مطابق اس پر ایک طبقے کی طرف سے شدید اور متشدد احتجاج ہوااور اس وقت میں جب پوری قوم، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی توجہ اس معاملے کی طرف تھی تو دریں اثناء یہ افسوس ناک خبر سامنے آئی کہ مذہبی اور سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کو قتل کر دیا گیا ہے یہ وقوعہ ان کے گھر میں اُن کے بیڈ روم میں ہوا۔ اس قتل پر افغانستان میں جشن منائے گئے، واٹس ایپ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو اس بات کا ثبوت ہے جس میں کچھ افغان نوجوان رقص کر رہے ہیں اور پیروں کے نیچے پاکستان کا نقشہ اور مولانا کی تصویر ہے یہ اُسی افغانستان میں ہو رہا ہے جس کو ہمیشہ پاکستان سے مالی، افرادی،تکنیکی اور اخلاقی مدد ملتی رہی اور یہ سب صرف اور صرف مذہب اور پڑوسی کا رشتہ ہونے کی بنیاد پر ہوتا رہا۔مولانا سمیع الحق سے موافقت یا مخالفت سے قطع نظر ہر مکتبہء فکر سے ان کے قتل کی مذمت کی گئی، ہر پاکستانی کو اس بات کا دکھ ہوالیکن افغانستان کی حکو مت اور اس حکومت کی حامیوں نے اس قتل پر غیر انسانی حرکت کرتے ہوئے جشن منایا اور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے جنرل عبدالرزاق کی ہلاکت کا بدلہ لیا ہے یعنی جُرم کا اقرار اور اعتراف کر لیا گیاجبکہ پاکستان کی طرف سے اس حملے کی شدید مذمت کی گئی تھی جس میں جنرل عبدالرزاق اور دوسرے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔مولانا سمیع الحق کے قتل کی تحقیقات کے نتائج جب آئیں گے تو حقائق تو تب معلوم ہونگے تا ہم افغانستان میں خوشی منانے کا انداز سب نے دیکھالیکن سلسلہ یہاں رُکا نہیں اور پاکستان کے دارلحکومت سے ایک اعلیٰ پولیس افسر کو اغوا کر کے افغانستان لے جاکر شہید کر دیا گیا۔ یہ تو ایک اور مسئلہ ہے کہ آخر ایک پولیس افسر کو اٹھارہ سو کیمروں کی موجودگی میں چیک پوسٹوں سے گزار کرانسانی آنکھوں سے بچاکر کس طرح اہم ترین شہر سے اٹھا لیا گیا اور باہر بھی نکال لیا گیا۔ پھر افغانستان سے خبر آئی اور ساتھ ہی ان کے قتل کی تصاویر جاری کی گئی بہر حال یہ سب جیسے بھی ہوا یہ بات تو طے شدہ ہے کہ یہ سب کچھ افغان حکومت اور وہاں موجود پاکستان دشمنوں کی ملی بھگت ہے ۔طاہر داوڑ ایک محب وطن اور بہادر پولیس افسر تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ ایک فعال افسر کی حیثیت سے سرگرم رہے۔ان کے اوپر اس سے پہلے بھی حملے کئے گئے جن میں وہ بال بال بچے ،2007 میں جب وہ بنوں کینٹ تھانے میں تعینات تھے تو تھانے پر حملے میں شدید زخمی ہوئے جہاں سے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور لایا گیا ایک بار پھر2009 میں وہ ایک خود کش حملے میں زخمی ہوئے تھے اوراب 26 اکتوبر کووہ اسلام آبادسے لا پتہ ہوئے تو13نومبرکو افغانستان کے صوبے ننگرہار سے ان کی لاش برآمد ہوئی۔اُن کی شہادت کی خبر کی تصدیق ہوئی اور اُن کا جسد خاکی پاکستان کے حوالے کرنے کی بات آئی تو افغان حکومت نے ایک بار پھر اپنی پاکستان دشمنی پر مہر یوں ثبت کی کہ ان کو حکومتی نمائندوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی لاش پختون تحفظ مومنٹ کے محسن داوڑ کے حوالے کی۔پی ٹی ایم کی پاکستان اور پاک فوج دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اگرچہ اِن کے حامی منظور پشتین کی حمایت کرتے ہوئے بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ وہ قانون اور آئین کی بات کرتا ہے لیکن اس بات کو وہ گول کر جاتے ہیں کہ وہ آزاد پختونستان کا نعرہ بھی لگاتا ہے اور پاک فوج کی تذلیل بھی کرتا ہے اور اسے مجرم گردانتا ہے۔طاہر داوڑ کا جسدِ خاکی وصول کرتے ہوئے بھی پی ٹی ایم کے یہ حامی ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کا ملک دشمن نعرہ لگاتے رہے جس پر شہید ایس پی کے رشتہ داروں نے اعتراض بھی کیا اور انہیں منع بھی کیا کہ انہیں نہ پاکستان سے کوئی شکایت ہے نہ پاک فوج سے اور نہ ہی طاہر داوڑ کو کوئی ایسی شکایت تھی بلکہ ان کی پختہ رائے تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے دراصل بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک کا ہاتھ ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایک ویڈیو میں نظر آتے ہیں جس میں وہ ایک جلسے کے دوران احتجاج کرنے والے پی ٹی ایم کے نوجوانوں کو سمجھا رہے ہیں اور یہی ان کی حب الوطنی تھی جو اُن لوگوں کو نہیں بھائی جن کو وہ پاکستان میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیتے تھے اور ان کو شہید کر دیا گیا۔افغانستان اس وقت بھارت کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے ، ایک کٹھ پتلی ہے جو بھارت کی ڈگڈگی پر ناچتا ہے لیکن آخر کب تک ایسا ہو گا اب اس کو بھی ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنی پہچان کرا لینی چاہیے حالات کا ادراک بھی کر نا چاہیے اور خطے میں رہنے کا ڈھنگ بھی سیکھنا چاہیے وہ اپنا ملک سنبھال لے تو بہت ہے نہ کہ دوسرے ممالک میں فساد پھیلائے دوست دشمن کی پہچان کرے پاکستان میں اسے چند ایک پشتین اور کچھ کارندے تو مل جائیں گے لیکن یہاں طاہر داوڑ بے شمار ہیں جو اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔

حالیہ دو اہم شخصیات کے قتل میں واضح طور پر افغانستان ملوث ہے اور جس کے لیے شبہ یہ ہے کہ اس نے منصوبہ بندی میں مدد اور ہدایات بھارت سے لی ہونگی کیونکہ اس میں سب سے زیادہ فائدہ اُسی کو ہو رہا ہے کہ علاقے میں اس کے مقابلے پر موجود ایک ملک یعنی پاکستان کمزور ہو رہا ہے لیکن افغانستان کو اب سوچ لینا چاہیے اور یاد بھی کر لینا چاہیے کہ اس کے رشتوں کے ڈور کہاں بندھی ہوئی ہے اور تاریخ میں ہمیشہ کس نے اُس کی مدد کی ہے اور یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے سے ایک طاقتور ملک سے اَڑ رہا ہے جس کے نتائج اس کے حق میں بہت اچھے نہیں ہونگے اور اگر برادر اسلامی ملک کا خیال نہ ہوتا تو اب تک اُس کو بہت اچھی طرح احساس دلایا جا چکا ہوتا کہ وہ جو کر رہا ہے اس کی قیمت بہت بھاری ہے۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552477 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.