فیض احمد فیضؔ ادب کی دنیا کا ایک عظیم نام، تابشؔ دہلوی
کا کہنا تھا کہ ’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے‘۔ الحمد اﷲ مجھے
یہ سعادت حاصل ہے کہ میں نے اردو ادب کی اس عظیم شخصیت کو نہ صرف دیکھا
بلکہ بہت قریب سے دیکھا۔ فیض ؔ صاحب بلاشبہ پاکستان کے اُن چند معدودِچند
شاعروں اور ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے دنیائے ادب میں پاکستان کو بلند
مقام دیا۔فیضؔ کو 1963ء میں روس کی جانب سے’ لینن امن انعام‘ سے نوازا گیا،
عالمی ایوارڈ وصو ل کرنے کی تقریب میں فیض نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے
ہوئے کہا تھا’’ امن کی جدوجہد اور آزادی کی جدوجہد کی سرحدیں آپس میں مِل
جاتی ہیں‘ اس لیے امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی
قبیلے کے لوگ‘ ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں‘‘۔فیض ؔ کو چار مرتبہ ادب کے نوبل
انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
فیض ؔ 13 فروری1911 ء میں پاکستان کے شہر سیالکوٹ ، ڈسٹرک نارووال کے نزدیک
ایک گاؤں کالا قادر(فیض نگر)میں پیدا ہوئے۔ 20نومبر1984ء کو لاہورمیں وفات
پائی۔ ان کی دنیاوی زندگی کا دورانیہ 73 سال ، 7ماہ اور 7دن رہا ۔فیضؔ اور
اقبالؔ ہم شہر تھے یعنی دونوں کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، دونوں کی شاعری کا
رنگ بھی ایک تھا البتہ دونوں کے اسلوب مختلف تھے ۔ اس کی وضاحت فیضؔ نے
تسلیم الہٰی زلفیؔ سے ایک سوال کے جواب میں کی۔فیضؔ کاکہا کہنا تھا کہ ان
کی شاعری میں اقبالؔ کا رنگ ہے البتہ اقبالؔ کا اسلوب الگ ہے اور میرا طرز
بیان دوسرا لیکن جہاں تک انسان دوستی ، انسان کی عظمت، عدل و انصاف ،
استحصال کا خاتمہ ، ظلم و جبر کے خلاف احتجاج ، یہ سب اقبالؔ ہی کی تعلیمات
کا اثر ہے‘۔فیض، ؔ غالبؔ سے بھی متاثر تھے، غالبؔ کی عظمت کا اعتراف اقبالؔ
جیسے بلند پایہ شاعر نے بھی کیا اور غالبؔ کو جرمن شاعر ’گوئٹے‘کا ہم منصب
قرار دیا۔ فیضؔ پر کارل مارکس کے اثرات بھی تھے وہ مارکسی خیالات رکھتے
تھے۔فیض جنوبی ایشیا کی ترقی پسند ادبی تحریک کے بانی ارکان میں سے تھے اور
ترقی پسندخیالات کے حامی تھے جن کا وہ کھلے الفاظ میں اظہار بھی کیا کرتے
تھے۔ وہ اپنے خیالات او ر نظریات پر سختی سے عمل پیرا رہے لیکن اپنے خیالات
زبردستی کسی پر تھوپنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ایک زمانے میں جلا وطنی کی
زندگی بھی گزاری، ایک دور ایسا بھی تھاکہ لوگ فیضؔ کے اشعار بر ملا بڑھتے
ہوئے ڈرا کرتے تھے اور پھر یہ دور بھی آیا کہ مشاعروں، ریڈیواور ٹیلی ویژن
پر فیض ہی فیض ہوا کرتے تھے، متعدد گلوکاروں کو فیض کا کلا م گانے سے ہی
شہرت ملی۔ اقبال بانو، مہندہ حسن اور دیگر گانے والوں نے فیضؔ کا کلام گایا
جس سے انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اقبال بانوں کی گائی ہوئی فیض
کی غزل’ہم بھی دیکھیں گے ،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ، وہ دن کہ جس کا
وعدہ ہے، جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے، جب ظلم و ستم کے کوہ گراں۔ روئی کی طرح
اڑ جائیں گے‘۔اسی طرح مہدی حسن کی گائی ہوئی فیضؔ کی غزل’ گلوں میں رنگ
بھرے بادنو نہار چلے، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘، بہت مشہور ہوئی۔
حالات کیسے بھی رہے، حکمراں کیسے بھی آئے فیضؔ اپنے نظریات سے ٹس سے مس
نہیں ہوئے۔یہ خوبی فیضؔ کو بڑا شاعر بناتی ہے۔ فیضؔ کی شاعر ی کے بارے میں
بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا ۔ اردو زبان
کو غالبؔ ، اقبالؔ اور فیضؔ پر فخر ہے۔فیض ؔ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ
لوگوں سے جلد تعلقات بنانے یا مکس اپ ہونے والوں میں سے نہ تھے بلکہ وہ بہت
لیے دیئے رہا کرتے تھے۔ یہ ان کی شاعری کی ایک صفت تھی۔ ان کی شاعری میں
جذباتیت کا بھی احساس پایا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھئے
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
فیضؔ ایک بڑا شاعر ہی نہ تھا بلکہ وہ ایک ماہر تعلیم ، منتظم بھی تھے، وہ
آٹھ سال (1964-1972ء) حاجی عبد اﷲ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل رہے۔ مجھے یہ
اعزاز حاصل ہے کہ میں اس وقت جب فیضؔ اس کالج کے پرنسپل تھے تو میں اس کالج
کا طالب علم تھا،یہ زمانہ تھا ( 1968-1970ء)کا ۔ ایم اے کرنے کے بعد 1974ء
میں میرا تبادلہ اسی کالج میں ہوگیا اور23 سالوں (1997-1974ء) اس کالج میں
خدمات انجام دیں۔1972ء میں حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کوقومی تحویل میں
لے لیا تو فیضؔ صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کرناگوارا نہ سمجھا اور کالج
کی پرنسپل شپ سے سبکدوش ہوگئے لیکن وہ جب بھی کراچی میں ہوتے کالج ضرور آیا
کرتے، اس طرح مجھے فیضؔ صاحب کو نذدیک سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ یہ
کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ فیض صاحب نے ملازمت اختیارکی تھی ،آپ نے اپنے
کیرئیر کا آغاز ہی استاد کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسر سے 1935ء میں
کیا تھا،آپ برطانوی ہند میں فوج میں لیفٹینٹ کرنل کے اعلیٰ عہد ہ پر بھی
پہنچے ، اس وقت جب آپ نے محسوس کیا کہ انگریز اندرونِ خانہ پاکستان کے قیام
کی مخالفت کررہا ہے تو آپ نے فوج کی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا اور روزنامہ
’پاکستان ٹائمز‘ کی ادارت سنبھال لی۔ وہ روزنامہ امروز کے ایڈیٹر بھی رہے ۔گویا
فیضؔ شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ فوجی بھی تھے، صحافی بھی، استاد بھی ، اعلیٰ
منتظم اور ما ہر تعلیم بھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے اور بااصول انسان
تھے۔فیض احمد فیضؔ کا ایک خو بصو رت شعر
پھر نظر میں پُھول مہکے ، دل میں پھِر شمعیں جلیں
پھِر تصّور نے لِیا اُس بزم میں جانے کا نام
قیام پاکستان کے دوسرے سال ہی فیضؔ ایک سازش کا حصہ بن گئے ، ’راولپنڈی
سازش کیس‘ فیضؔ ، سید سجاد ظہیر ، میجر جنرل اکبر خان اور دیگر کو گرفتار
کر لیا گیا۔ اس وقت فیضؔ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے ، سجاد ظہیر پاکستان
کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ یہ کیس پاکستان کی تاریخ میں بہت
اہمیت رکھتا ہے۔فیض صاحب اس کے بعد بھی گرفتار کیے گئے۔’زندہ نامہ‘ فیض کا
مجموعہ کلام اسی دور کی یاد گار ہے۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں ہم نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں نے
اور پھر یہ بھی کہا
ہم پرورشِ لوح و قلم کر تے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سووہ اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
فیض ؔ نے کراچی کی غریب بستی لیاری میں کالج کا سربراہ بننا کیوں پسند کیا،
اس بات کا جواب فیض صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو ایک انٹر ویو میں دیا،
یہ انٹر ویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض کی تخلیقی شخصیت:
تنقیدی مطالعہ‘‘میں شامل ہے۔سوال کیا گیا کہ ’آپ نے اس ادارے کی سربراہی
کیوں قبول کی تھی‘؟فیض صاحب کا کہنا تھا’’جس علاقے میں حاجی عبد اﷲ ہارون
کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ
تھیں، اس علاقہ میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر،گاڑی چلانے والے اور
مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کوکا لج نہیں بھجوا سکتے تھے، یہ علاقہ بُرے لوگوں
کا مرکز تھا یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا، اکثر غلط راہ
پر بچپن ہی سے پڑ جا تے تھے، یہاں عبد اﷲ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا جو
ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا،باقی کچھ نہیں تھا،ان کے (حاجی عبد اﷲ
ہارون )جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس
ادارے سے دلچسپی تھی۔لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ
کام سنبھال لیں۔ ہم نے جاکر علاقہ دیکھا، بہت ہی پسماندہ علاقہ تھا، یہاں
انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم ،
کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی،ماہی گیروں کی سب
سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائیریکٹر بنا لیا، ہم نے طے
کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب
اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی
جاتی تھی‘‘۔
فیضؔ خوش پوش انسان تھے، زیادہ تر سوٹ پہنا کرتے، سگریٹ پینا ان کا محبوب
مشغلہ تھا، ایک مر تبہ آپ کالج تشریف لائے، آپ نے اپنے منفرد انداز میں
اساتذہ اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کالج سے اپنی وابستگی پر روشنی ڈالی،
آپ نے کہا’ ’اس کالج سے میرا جو تعلق رہا ہے اس وجہ سے میں اپنے آپ کو یہاں
اجنبی یا مہمان تصور نہیں کرتا، آپ نے اس کالج سے اپنی وابستگی کا واقعہ
بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’لیڈی نصرت ہارون مرحوم نے ہم سے کہا کہ لیاری میں
جو کالج قائم ہوا ہے اس کی سرپرستی آپ حاصل کرلیں چناں چہ ہم لیاری میں آئے
اور اس کالج کے علاوہ یہاں کے مکینوں کا جائزہ لیا مجھے یہاں عجیب سی مخلوق
نظر آئی ہم نے فوراً حامی بھر لی، اس طرح ہمارا اس ادارے سے تعلق قائم
ہوگیا۔پھر اساتذہ اور ساتھیوں کی ایک اچھی جماعت مل گئی اس طرح یہ کالج بہت
جلدڈگری کالج بن گیا۔اس کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی
ہوئی۔ آپ نے کہا کہ ’’لیاری جیسی بستی میں علم کو عام کرنے کی سخت ضرورت
تھی۔اس کے لیے ہم نے کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب ہوئے‘‘۔اس سوال
کے جواب میں کہ ’’فیض صاحب آپ عبد اﷲ ہاران کالج سے الگ کیوں ہوئے‘‘؟ آپ کا
جو اب تھا کہ یہ ادارہ قومی تحویل میں لیا جا نے والا تھا اور مجھے گھر بھی
واپس آنا تھا، کراچی میں کالج بن گیا، اسپتال بن گیا، اتنا کچھ بن گیا اب
آگے دوسرے لوگ چلائیں‘
مقامِ فیضؔ ، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
فیض ؔ اپنی فوکس ویگن میں کالج آیا کرتے تھے، ان کا ڈرائیور ایک دبلا پتلا
نوجوان تھا، اُسے ہم نے ہمیشہ صاف ستھر ا، خوش پوش دیکھا، اس مانے میں تنگ
پتلون ، نوک دار جوتوں کا رواج تھا جسے عرف عام میں’ ٹیڈی فیشن‘ کہا جاتا
تھا، یہ ڈرائیور ٹیڈی لباس اور جوتوں میں ہوا کرتا تھا، زلفیں بڑی بڑی،
سامنے سے وحید مرادبنارہتا تھا۔ ا س کی خوش پوشی اور اسمارٹ رہنا اس بات کی
غمازی کرتا تھا کہ فیضؔ صاحب کو اپنے ڈرائیور کا یہ انداز دلبر انہ بھی
پسند تھا، وہ خود بھی خوش پوش تھے اور خوش پوشی کو پسند کیا کرتے تھے ۔فیضؔ
کا شعر
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
فیضؔ ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیض
صاحب سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی
پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟’’ فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی
میں دو پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار
پانچ پاروں کے حفظ کے بعد میں نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ مجھے ساری عمر اس
کا ملال رہا۔دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا‘‘۔یہ
بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض ؔ عربی جانتے ہی نہ تھے بلکہ عربی میں
ایم اے تھے۔فیضؔ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور چند پارے حفظ بھی کر چکے
تھے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیض ؔ کیسا تھا۔ یہ
بات آغاناصر نے اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں‘ جو اخبار اردو کی جلد28
شمارہ 2، 2011ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔
فیض ؔ نے شہر کراچی میں رہتے ہوئے کئی ادبی، ثقافتی ، تعلیمی اور سماجی
تنظیموں کی سرپرستی بھی کی ۔ کراچی میں ادارہ یاد گار غالب ؔ ،فیض احمد
فیضؔ نے مرزا ظفر الحسن سے قائم کروا یا تھا۔ فیض صاحب تو اس ادارے کی
سرپرستی کیا کرتے تھے، مرزا ظفر الحسن کی زندگی کا مقصدِ حیات یہ ادارہ
تھا۔ ادارہ یاد گار غالب کے قیام کی روداد مرزا ظفر الحسن نے اپنے ایک
مضمون ’’فیضؔ ایلس اور میں‘‘ میں اس طرح بیان کی کہ ’’جنوری 1968ء کے پہلے
ہفتے میں سبط حسن نے ٹیلی فون پر کہا فیضؔ نے تمہیں بلا یا ہے۔ میں نے سبب
پوچھا توکہا میرا اندازہ ہے کہ تم نے غالب کے پرزے اڑانے کی جو کوشش کی تھی
اس کی کوئی سزا دینا چاہتے ہیں۔اس جملے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔
دوسرے دن سبط کے گھر پہنچا جو سڑک پار فیضؔ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ہم دونوں
فیضؔ کے گھر گئے جہاں انہوں نے کہا فروری 1968ء میں پاکستان ، ہندوستان اور
دوسرے ملکوں میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی جانے والی ہے۔ ہمارا بھی
ارادہ ہے کہ کراچی میں کچھ کام کریں۔ آپ ایک انجمن بنائیں اور شروع
کردیں،اس کے بعد کہا’ البتہ ایک بات یاد رکھیے ویسے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں
گے مگر از خود کوئی کام نہیں کریں گے۔ آپ جو کام ہمارے سپرد کریں، کریں
گے‘۔اس کے بعد اضافہ کیا ’دوسروں کے متعلق سمجھ لیجیے کہ وعدے سب کریں گے
پورا کوئی نہیں کرے گا‘۔ اس پر سبط حسن نے کہا ’’ہم تو وعدہ بھی نہیں کرتے۔
سارا کام تم ہی کو کرنا ہوگا‘‘۔ فیضؔ نے آخری جملہ کہا’’با لکل تنہا‘‘۔یہ
میرے لیے کوئی چیلنج نہیں اعزاز تھا۔ کیوں کہ فیضؔ جیسی شخصیت کو مجھ پر
اعتماد کہ میں انجمن بنا سکتا ہوں، صد سالہ برسی کا انتظام کرسکتا ہوں اور
سب کچھ اکیلے۔ اس وقت نام طے کیا ’’بزمِ غالبؔ ‘‘اور پانچ سات منٹ ٹھہر کر
آگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس ملاقات سے پہلے یا اس کے بعد سبط اورفیضؔ میں
میری بابت کیا گفتگوہوئی۔ نہ میں نے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔بزمِ غالبؔ کے
قیام اور نام کا اعلان اخباروں میں چھپوادیا دو چار دن بعد بزم کے پیڈ
بنوانے انجمن پریس گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کی ایک انجمن دس پندرہ
برس سے قائم ہے۔ اس خیال سے کہ نام پر کیوں کسی سے جھگڑا مول لیں اور وہ
بھی ابتدائی دنوں میں اپنے طور پر طے کیا کہ بزم غالبؔ کی بجائے ’’ادارۂ
یاد گارِ غالبؔ ‘‘نام رکھوں۔ فیضؔ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اب
نام کی تبدیلی کا اعلان اخباروں میں شائع کردیا ۔جیب میں دھیلہ نہ دمڑی
ادارۂ یاد گارِ غالبؔ قائم ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد فیض ؔ کے بتائے ہوئے چند
لوگوں کو ٹیلی فون کیا کہ فلاں اتوار کو صبح فیضؔ کے گھر جمع ہوں ادارے کی
بابت کچھ گفتگو ہوگی۔ وہ سب آئے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ فیضؔ ادارے کے صدر
ہوں۔ سبط نے یا شاید فیضؔ نے میرانام لے کر کہا یہ اس کے معتمد ہ عمومی
ہوں۔ اس کے بعد مجلس عاملہ تشکیل دی گئی جتنے مدعوئین اتنے ہی عہدے دار اور
اراکین بلکہ بعض جو نہیں آئے تھے انھیں بھی رکن عاملہ بنا لیا گیا ۔کوئی
خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ جاتے وقت سبط حسن نے پھر کہا تم نے ہمیں رکن تو بنا یا
ہے کام ہم دمڑی کا نہیں کریں گے۔ سید اپنے قول کاسچا نکلا‘‘۔مرزا ظفر الحسن
نے ادارے کی لائبریری کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے لکھا کہ ’’عمارت کس
طرح بنی، کس طرح ہاتھ سے نکل گئی ایک طویل کہا نی ہے۔ یہاں اتنا اشارہ
کردوں کہ عمارت کو منہدم ہونے سے فیضؔ نے بچایا۔ اگر ان کانام اور شخصیت
درمیان میں نہ ہوتی تو آج غالب لائبریری کی جگہ اس عمارت کا ملبہ
ہوتا‘‘۔ادرہ یاد گار غالبؔ اور غالبؔ لائبریری اب بھی ناظم آباد نمبر 2میں
گورنمنٹ کالج فار مین کے احاطے کے کارنر پر قائم ہے ۔ کچھ عرصہ اس کی نچلی
منزل میں بنک قائم ہوگیا تھا لیکن اب مکمل عمارت ادارہ یاد گار غالب ؔ کی
ملکیت ہے۔
فیضؔ پیپلز پارٹی کے اولین دورِ حکومت میں وزیر اعظم کے تعلیم و ثقافت کے
امور کے مشیر بھی رہے۔ جلد اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے،1977ء میں فیض ؔ پہلے
ماسکو گئے اور کچھ عرصہ قیام کیا پھر بیروت چلے گئے اورچار سال ایفرو
ایشیائی انجمن کے سہ ماہی مجلے ’لوٹس‘ کے مدیر اعلیٰ رہے۔ان کی شریک سفر
ایلس ،فیضؔ کی سیکریٹری تھیں۔بیروت میں لوٹس سے وابستگی یاسر عرفات کا
انتخاب تھا وہ چار برس بیروت میں رہے ۔ 1978ء سے 1982ء کے درمیان فیضؔ
تواتر کے ساتھ دہلی، ماسکو، شام، عراق، مصر، الجزائر، جاپان امریکہ اور
کنیڈا بلائے جاتے رہے۔ پاکستان سے محبت اور کشش انہیں اپنے وطن میں لے آئی۔
اب فیضؔ شاید تھک چکے تھے ، انہیں آرام کرنا تھا لیکن زندگی نے انہیں آرام
کرنے کی مہلت نہ دی ۔ تسلیم الہٰی زلفی نے اپنی کتاب ’فیض احمد فیضؔ بیروت
میں‘‘لکھا ہے کہ بیروت میں قیام کے بعد فیضؔ کا تقرر کلکتہ یونیورسٹی میں
اقبال چیئ پر وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ہوچکا تھا لیکن انہوں نے واپس
چانسلر سے معزرت کر لی اور واپس پاکستان چلے آئے، در حقیقت وہ مٹی جس سے ان
کی تخلیق ہوئی تھی اس نے واپس اپنی جگہ پہنچنا تھا اور اُسی مٹی نے فیضؔ کو
20نومبر1984ء کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا اور فیضؔ وہاں چلے گئے جہاں سے
کوئی واپس نہیں آتا۔ وہاں جانے والوں کی یادیں باقی رہ جاتی ہے ،فیضؔ بھی
ہماری یادوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے حقیقت ہے کہ فیض ؔ جیسا حسن
وسچائی کا شاعر مشکل سے پیدا ہوتا ہے
تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کر نے لگتے ہیں |