بِیس برس کی بالی عمریا میں سیالکوٹی منڈے کو اپنے سے
دوگنی عمر کی امریکن گوری سے محبت ہو گئی ۔ سال بھر تک سائبر سگائی چلنے کے
بعد گوری خود چل کر پیا دیس پہنچ گئی ، ہمارے بالک کی بنڑی بن گئی ۔ اور
گھنی ساری خلقت جل بھن کر خاک بھی ہوئی کیونکہ ان نامرادوں نے جب بھی کوئی
میم پٹانے کی کوشش کی اندر سے ماما نکل آیا ۔ یہاں بھی پتہ نہیں کیا معاملہ
نکلا نکاح کے بعد بچے کے منہ پر بارہ بجے ہوئے تھے ۔
خیر اس بیاہ کا دیس میں خوب ڈھنڈورا پٹا جیسے ایسا کوئی پہلی بار ہؤا ہو ۔
اس طرح کی محبتیں اور شادیاں تو پہلے بھی ہوتی رہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ
اب گھر بیٹھے ہو جاتی ہیں شوشل میڈیا کی برکت سے ۔ پہلے ایسا کرنے کے لئے
ماں کا زیور اور باپ کی دوکان یا زمیں بِکوا کر مرد مجاہد امریکہ یا یورپ
پہنچتے تھے ۔ کچھ تو غیر قانونی طریقوں سے اور کچھ وزٹ یا سٹوڈنٹ ویزے پر ۔
پھر اس کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی ثابت قدمی سے دیار غیر میں ڈٹے رہتے
تھے اور یہاں غیر قانونی رہائشی کی حیثیت کسی دھوبی کے کتے کی سی ہوتی ہے ۔
انہیں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی بہت کم تنخواہ پر انتہائی محنت و مشقت
آمیز کام بھی چوروں کی طرح چھپ کر کرتے ہیں ۔ گاڑی نہیں چلا سکتے جہاں پبلک
ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی وہاں سواری لینے کے لئے انہیں کسی مقامی یا قانونی
ہموطن کی خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں ۔ اس کی بے اعتنائی اور سردمہری کو خندہ
پیشانی سے برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ پھر ان ذلتوں اور مشقتوں سے دلبرداشتہ ہو
کر نجات کا واحد راستہ وطن واپسی نہیں بلکہ کسی مقامی اور زیادہ تر مطلقہ
خاتون سے شادی ہی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ کیونکہ موصوف اپنی ساری کشتیاں
جلا کر بلکہ سر پہ کفن باندھ کر آئے ہیں اور اب سوچتے ہیں کہ کس منہ سے
واپس جائیں ۔ اور دراصل خود بھی جانا ہی نہیں چاہتے ورنہ یہ دو نمبری کر کے
یہاں آتے ہی کیوں؟
پھر بات عام طور پر عاشقی معشوقی سے ہی شروع ہوتی ہے اور کہیں رقم کے بدلے
محض کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتی ہے مگر ایسا کم ہوتا ہے ۔ مگر امتحان
ختم نہیں ہوتا اب اپنا مطلب پورا ہونے تک اس گوری شہزوری سے ہر ناگوار ترین
صورتحال میں بھی بنا کر ہی رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنی ساری انا اور عزت نفس
کو پس پشت ڈال کر کسی کتے ہی کی طرح اس کے آگے پیچھے دُم ہلانا پڑتا ہے ۔
ہر لمحہ طلاق کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے ڈی پورٹ ہو جانے کا دھڑکا دل کو
دہلائے دیتا ہے ۔ پھر جب گوری کٹوری کے طفیل دیار غیر کی شہریت حاصل ہو
جاتی ہے تو اسے لات مار کر کھسکنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے مگر کچھ لوگ اس
رشتے کو تا دیر بھی نبھاتے ہیں ۔ زندگی بھر ساتھ نبھنے کی مثالیں مشکل سے
ہی ملتی ہیں ان میں بھی دونوں فریق یا کم از کم کسی ایک فریق کی یہ دوسری
شادی ہوتی ہے ۔
آخر کیوں ہمارے نوجوان کسی بھی قیمت پر دیار مغرب پہنچنے کے خبط میں مبتلا
ہیں؟ اس کے لئے وہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالتے ہیں ، آئے روز غیر قانونی
طور سے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کرنے والوں کے انجام کے بارے میں دردناک
خبریں آتی رہتی ہیں ۔ اور صرف امریکی یا یورپی نیشنلٹی حاصل کرنے کے لئے
نوخیز نوجوان اپنی ماں جتنی عمر کی عورت سے بھی شادی پر راضی ہو جاتے ہیں
جبکہ وہ دادی نانی بھی بن چکی ہوتی ہے ۔ اس اقدام کو محبت کا نام دینا بہت
بڑی منافقت ہے ۔ ایسی ہی محبت اپنی کسی بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ کزن سے
کیوں نہیں ہوتی ؟ اس کے لئے کیوں کوئی رنڈوا یا کھڑوس بڈھا عین مناسب معلوم
ہو رہا ہوتا ہے ۔ بھئی سیدھے سیدھے اعتراف کرو کہ فیوچر تو بس امریکہ یا
یورپ کا داماد بن کے ہی برائٹ دکھائی پڑتا ہے ۔ یہاں ڈالر درختوں پر لگتے
ہیں بس ایکبار پہنچ گئے تو توڑ توڑ کر بوریوں میں بھرنا اور گھر پر بھیجنا
شروع ۔ |