بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک ایک چھوٹے
سے قصبے کا نام ہے۔ نو کنڈی سے 70کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان اور ایران
کے سرحدی علاقے میں واقع اس قصبے میں اربوں ڈالرز کی قیمتی دھاتیں دریافت
ہوئی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ریکوڈک ایک قدیم اّتش فشاں کا نام تھا۔ مقامی
زبان میں ریکوڈک ایک صحرائی چوٹی کو بھی کہا جاتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق
ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 260بلین ڈالر سے زائد ہے۔
بلوچستان کے سنگلاخ اور بنجر پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے معدنی دولت سے مالا
مال کر رکھا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی استحکام کی کمی، تالع
آزما حکمرانوں کی آمد رفت اور قومی مفاد کی جگہ ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے
عمل نے بلوچستان کی معدنی دولت سے نہ تو قومی اور نہ ہی صوبائی سطح پر
فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا ہے۔ بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کان”ریکوڈک“
کے متعلق صورتحال اب پر اسرار حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ
اس مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں مصروف عمل چلی
اور کینیڈا کی مشترکہ کمپنی ٹیتھن کاپر کمپنی (ٹی سی سی) اپنی وضاحتیں جاری
کر رہی ہے۔ تیسری طرف ایک امریکی کمپنی بھی ٹی سی سی کے خلاف بیان جاری کر
رہی ہے۔ درحقیقت بلوچستان میں ریکوڈک کی کان کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کے
متعلق خبریں شائع ہونے کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو
یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اہم قومی معاملات میں ہونے والی بے اعتنائی اور
کرپشن کو اجاگر کیا ہے۔ امریکی کمپنی کے صدر اور CEOنے ٹی سی سی اور اس کے
مالکان پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپریم کورٹ آف
پاکستان سے رجوع کر کے ریکوڈک کیس میں فریق بننے کی استدعا بھی کی ہے۔
امریکی کمپنی نے یہ استدعا پاکستان کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مفاد کی خاطر کی
ہے اور ریکو ڈیک ٹھیکیدار کمپنی کے ”کارنامے“ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں۔
ٹی سی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ ریکوڈک کے معدنی ذخائر کی مقدار5.9ارب ٹن ہے۔
جس میں اوسطاً 0.5فیصد کاپر اور0.3فی صد فی ٹن سونا ہو گا جسے پراسس کیا
جائے گا تا کہ 56سال کے عرصے میں قابل ادائیگی شکل میں22ارب پاﺅنڈ دس ملین
ٹن کاپر اور 13ملین اونس سونا پیدا کیا جا سکے گا۔ لیکن یہ معلومات ان
معلومات کے بر عکس ہیں جو کینیڈا کی بیرک گولڈ نے فراہم کی ہیں۔2008 میں
کیے جانے والے سروے میں بتایا گیا تھا کہ ریکوڈک میں ذخائر کی مقدار ظاہر
کئے جانے والے اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ تین سو
کلو میٹر طویل چاغی کی اس بیلٹ میں ایسے48 ذخائر ہیں ماہرین کے مطابق کاپر
کے تین ذخائر ریکوڈک میں سینڈک، تنجیل اور H-8 کے مقام پر اس بیلٹ میں
موجود ہیں۔ ریکوڈک کے کاپر اور گولڈ کے ذخائر فزیبلٹی کے مطابق عمدہ کوالٹی
کے ہیں۔ دنیا بھر میں 150بڑی اور 3000چھوٹی مائنگ کمپنیاں موجود ہیں۔عمومی
تاثر یہ ہے کہ یہ کمپنیاں دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا رخ نہیں کر رہی
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور حکومتی عہدیداروں اور ایسے
پاکستانیوں کی وجہ سے پاکستان کا رخ نہیں کر رہیں جو خود پاکستانی ہو کر
پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ Kick Backاور کمیشن کے چکر میں
قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کی نباتاتی دولت
لوٹنے کے بعد غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے ریکوڈک گولڈ پراجیکٹ کی شکل میں
قیمتی معدنی دولت لوٹنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جس کے ضمن میں غیر ملکی
کمپنیوں کی لوٹ مار اور قانون شکنیوں کی گونج اب سپریم کورٹ آف پاکستان تک
سنائی دے رہی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 24 نومبر 2010ء کو ریکوڈک پراجیکٹ سے متعلق ایک
پٹیشن پہلے ہی دائر کرچکی ہے۔ ریکوڈک پراجیکٹ شروع ہونے سے قبل کینیڈا کی
ایک کمپنی بیرک گولڈ جو اس معاہدے کی ایک شریک کمپنی ہے اس کمپنی نے
کینیڈین امریکن مائنز ہینڈ بک برائے سال 2009-10ءکو یہ معلومات فراہم کی
تھیں ریکوڈک کے قیمتی ذخائر میں بیرک گولڈ کے 37.5 حصے میں 1,125,071,000
ٹن اوسط، 0,008 آپٹ گولڈ، 8,487.000اونس گولڈ، 11.5ارب پاؤنڈ کاپر آئے
مقدمات میں بلوچستان ہائی کورٹ کا مجموعی وسائل کی مقدار 895,089,000 ٹن
اوسط 0,009 آپٹ گولڈ، 8,398,000 گولڈ اور 8.5 ارب پاؤنڈ کاپر بتائی گئی تھی
اگر یہ اندازاً بیرک گولڈ کا حصہ ہے تو چلی کا حصہ بھی تقریباً اتنا ہی
ہوگا جبکہ پاکستان جس ملک کی سرزمین سے یہ قیمتی ذخائر نکالے جارہے ہیں اس
کا حصہ کم ہوگا۔ چلی اور کینیڈا میں سے ہر ایک کا حصہ 37.5 فیصد ہے اور
پاکستان کا حصہ 25 فیصد، پاکستانیوں کے لئے پریشانی کا اضافہ اسی لئے ہورہا
ہے کیونکہ دونوں کمپنیوں کی جانب سے 2009 میں کئے جانے والے ایک سروے میں
بتایا گیا تھا کہ ریکوڈک میں ذخائر کی مقدار بین السطور بیان کی گئی مقدار
سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ سٹڈی سروے ”اکنامک جیولوجی (جلد 3، 10 دسمبر 2008 ،
صفحہ نمبر 8 پر شائع ہوا تھا) اور اسے چلی کی اینٹافوگسا کمپنی، ٹینٹھن
کاپر کمپنی اور آسٹریلیا کی ایلبڈون لمیٹڈ نے لکھا تھا۔ ان ماہرین کی رائے
تھی کہ 300 کلو میٹر طویل چاغی پور فائر کاپر بیلٹ میں 48 قیمتی ذخائر ہیں۔
ماہرین کے مطابق پور فائر کاپر کے درمیانے سائز کے تین ذخائر ریکوڈک میں
”سینڈک، سجیل اور H-8ےریکوڈک کاپر اور گولڈ کے ذخائر ”فزیبلٹی“ کے مطابق
عمدہ کوالٹی کے ہیں اور اندازاً اس میں 18 ٹن ملین کاپر اور 3.2 ملین اونس
سونا ہے۔
ضلع چاغی کے اس علاقے میں سونے اور دوسری قیمتی دھاتوں کے ذخائر کا علم
قیام پاکستان کے وقت ہی ہو گیا تھا اور اس قومی دولت کو حاصل کرنے کے
لیے1953 کی کابینہ میٹنگ میں فیصلہ بھی کر لیا گیا تھا۔ لیکن اسے پایہ
تکمیل تک اس لیے نہ پہنچایا جا سکا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ رہا۔
وزرائے اعظموں کی تبدیلی تیزی سے ہو رہی تھی۔ ملک کے پہلے آئین کے مسودے کی
تیاری کا عمل جاری تھا۔1956میں پہلا آئین دینے کے بعد قومی اہمیت کے
ترقیاتی منصوبوں کی جانب توجہ دی جائے تو دو سال بعد1958میں جنرل ایوب خان
نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنا ان کی ترجیح نمبر ایک
تھی اور دوسرا کام ملک کو صدارتی آئین دینا تھا۔1962میں صدارتی آئین دینے
کے صدر ایوب کے دور میں کابینہ اجلاس میں تقریباً دس سال بعد سندک کا
پروجیکٹ ایجنڈے پر آیا صدر ایوب کو جب اس منصوبے کی قومی افادیت کا اندازہ
ہوا تو انہوں نے اسے ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کے احکامات جاری
کیے۔1953کی Feasibility کو نئے سرے سے تیار کروایا گیا۔ 1964میں اس پراجیکٹ
پر کام شروع کرنے کے احکامات جاری ہوئے لیکن بد قسمتی سے 1965کی پاک بھارت
جنگ کی اور ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا گیا۔ 1965کی جنگ کے بعد معاہدہ شملہ
ہوتے ہی ملک میں ایک سیاسی بھونچال آ گیا۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی تحریک کے
بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔1970 میں عام انتخابات بدقسمتیسے ملک
دو لخت ہو گیا۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے جدا ہوا۔ اس قومی المیے کے
بعد پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اقتدار سنبھالا تو
پاکستان کیلئے نیا آئین تشکیل دینا ایک قومی ضرورت تھا۔ دوسری طرف پاکستان
کے جنگی قیدیوں کو بھارت سے رہائی دلانا جیسے اہم ترجیحات ہر ترقیاتی
منصوبے پر حاوی تھی۔
ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں مگر
بیرک گولڈ اور بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ جیسی بدنام زمانہ کمپنیاں اس منصوبے سے
زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے اس کے حصص ٹتھران کوپر کمپنی (ٹی سی
سی) مزید فروخت کررہی ہیں۔ بیرک گولڈ کمپنی کو دنیا میں چوتھی بدترین کمپنی
اور بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ کو پانچویں کمپنی قرار دیا جاتا ہے۔ ایک تخمینے
کے مطابق ریکوڈک پراجیکٹ کے اثاثوں کی مالیت پچیس بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ
میٹریل کی حقیقی قیمت جو کہ نکالا جائے گا تقریباً 125 بلین امریکی ڈالر
ہے۔ مکروہ عزائم کے ساتھ بدنام زمانہ مائننگ کمپنیاں جن کا اوپر ذکر کیا
جاچکا ہے نکالا جانے والا سونے اور تانبے کا قیمتی مواد مقامی طور پر پراسس
کئے بغیر ہی بیرون ملک لے جانا چاہتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیرک گولڈ
کمپنی اور بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے
بھی رابطہ کیا ہے اور انہیں سونے اور تانبے کے قیمتی مواد کی ٹرانسپورٹیشن
میں رخنہ نہ ڈالنے کے انعام کے طور پر پرکشش معاوضے کی پیشکش بھی کی ہے۔ ان
کمپنیوں کے ریاستی دہشت گرد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اطلاعات بھی ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ بلوچستان حکومت نے سونے اور تانبے کے حقیقی تخمینے اور
دستاویزات میں پائے جانے والے سکم کو دور کرنے کے لئے ٹتھران کوپر کمپنی سے
معاہدے پر نظر ثانی کررہی ہے۔ لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ آزادی کے 63
سال بعد بھی اب بھی ہم قیمتی معدنی دولت کی سروے اور نکالنے ،مائننگ و
ریفائننگ کے لئے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کررہے ہیں۔ |