انگاروں میں گھری دہکتی آگ کو
ذرا سے ہوا کے جھونکے سے بھڑکایا جا سکتا ہے ‘جو آن کی آن میں جنگل کے جنگل
کا صفایا پھیر سکتی ہے۔اکثر اوقات سننے میں آتا ہے کہ فلاں ملک کے جنگل میں
اچانک آگ بھڑک اٹھی۔حالانکہ وہ آگ اچانک نہیں بھڑکتی۔اس کے لیے وہاں تمام
لوازمات موجود ہوتے ہیں۔جب سورج کی کرنیں مخصوص زاویے سے درخت کی شاخوں سے
گزرتی ہوئی پتھروں پر پڑتی ہیں تو تپش اور لو کی موجودگی میں ماحول شدید
گرم ہوجاتا ہے اور ان پتھروں کے پاس خزاں رسیدہ پتے آگ کے لیے ایندھن کا
کام کرتے ہیں۔آناً فاناً آگ پورے جنگل کو نگل جاتی ہے۔یہ بھی ایک ارتقائی
عمل ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز کو زوال ہے۔اگر اس کی مثال جنگل سے
نکال کر نوآبادیوں پر لاگو کریں تو حالات مختلف نہیں۔ظلم و
بربریت،ناانصافی،لوٹ کھسوٹ،عدم برداشت،اقربا پروری اور کرپشن ایسے عناصر
ہیں جو اس آگ کو بھڑکانے میں فعال کرادر ادا کرتے ہیں۔بے حس اقوام تو بے
حسی اور مظلومیت کی چادر اوڑھے حالات کے خود بخود بدلنے کا انتظار کرتے
رہتے ہیں اور آخرکار انتظار اور ظلم سہتے سہتے سو جاتے ہیں،جبکہ بیدار
اقوام چند ثانیے ٹھہر کر ماحول کا جائزہ لیتی ہیں اور اک بہانہ تلاش کر کے
تختہ الٹ دیتی ہیں۔قارئین!کچھ ایسا ہی احوال افریقہ کے مسلم ملک
تیونس(تیونسیا)میں ہوا جو کہ اکیسویں صدی کا پہلا انقلاب اور کرپٹ حکمرانوں
کے لیے الٹی میٹم کی حیثیت رکھتا ہے۔
گزشتہ دنوں تیونس کے جابر اور کرپٹ صدر زین العابدین بن علی کو شدید احتجاج
کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث صدر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی بجائے
راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ تیونس کی عوام کو ظالم حکومت سے
چھٹکارا مل گیا۔انقلابِ تیونس کے داعیوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر یہ
کارنامہ انجام دیا اور تاریخ کے اوراق پر انقلابِ تیونس کا نام ثبت
کردیا۔اس انقلاب کو Jasmine Revolutionیعنی چنبیلی انقلاب سے موسوم کیا
جارہا ہے۔چنبیلی انقلاب محض تین روز یا تین ہفتوں کی بات نہیں بلکہ تیونس
میں زبردست عوامی انقلاب برسوں سے روا رکھے گئے ناروا سلوک اور ظلم کی
پرورش کی بدولت آیا۔غریب عوام پر تیونسی حکمران نے23 سال تک زیادتیاں روا
رکھیں۔ آج اسی عوام نے23سال تک بلا شرکت غیرے صدارت کے مزے لوٹنے والے صدر
زین العابدین بن علی کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا۔کہا جاتا ہے کہ انقلاب
کے لیے حالات سازگار نہیں ہوتے بلکہ ظالم حکمران خود ہی اسباب پیدا کرتے
ہیں اور زین العابدین عابد نے بھی اپنے دور اقتدار میں خود ہی یہ اسباب
پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ تیونسی
عوام نے محض 3ہفتے کی جدوجہد سے ملک میں انقلاب بپا کر دیا۔
تیونس میں ہنگاموں اور یاسمین انقلاب کا اصل محرک ایک گانا تھا،جس کے بول
اور میوزک نے عوام کے دلوں میں جی اٹھنے کی امنگ بھردی۔تیونس کے ریپ سنگر
ہامور بن حمادہ کا گانا ”مسٹرپریزیڈنٹ، یور پیپل آر ڈائنگ “سابق صدر بن علی
کیلئے براہ راست پیغام تھا،جو اس نے مشہور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر
اپ لوڈ کردیا اور عوام اس سے متاثر ہوئے اور سابق صدر کی کرپشن کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوئے جبکہ گزشتہ ماہ وکی لیکس کی جانب سے تیونس کے متعلق کئے جانے
والے انکشافات نے عوامی غیض وغضب کو دوآتشہ کردی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
اور یوں زین العابدین بن علی کا تئیس سالہ اقتدار اپنے انجام کو پہنچ گیا
اور مغربی دنیا کے لاڈلے،کرپٹ اورعرب مملکت کے سربراہ زین العابدین بن علی
کو عوامی پرزور احتجاج کی بناء پر تیونس پر 23سال تک حکومت کرنے کے باوجود
ملک چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
تیونس میں عوامی انقلاب کے اس کے اثرات آس پاس کے ممالک میں بھی پہنچے اور
یوں پوری عرب دنیا میں مظاہروں اور آمر حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی پیش
گوئی کی گئی، یمن اور اردن میں اسی نوعیت کے مظاہرے شروع ہوئے لیکن مصر سب
سے زیادہ اس انقلاب کی لپیٹ میں آیا جہاں عوام نے زین العابدین بن علی ہی
کی طرح تئیس برس سے اقتدار پر بلا شرکت غیر قابض حسنی مبارک کا تختہ ہلا
دیا۔ تادم تحریر حسنی مبارک تو طاقت کے زور پر انقلابیوں کو روکنے کی سعی
کر رہے ہیں لیکن ان کے فرزند اور ممکنہ جانشین جمال مبارک عوامی غصے سے
خوفزدہ ہوکر کر برطانیہ بھاگ گئے ہیں۔1928ءمیں قاہرہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں
میں پیدا ہونے والے حسنی مبارک کے تئیس سالہ دور اقتدار پر نظر ڈالیں تو
یہاں بھی اسباب خود ان کے اپنے ہی پیدا کردیں ہیں جبکہ ان پر اب تک چھ
قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ صدر حسنی مبارک نے اپنے عہدے پر قائم رہنے کے لیے
چار مرتبہ ریفرنڈم کرائے ہیں اور ہر مرتبہ وہ 96 فیصد اکثریت حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتیں ملکی نظام تبدیل کرنے پر زور دے رہی
ہیں تاہم اب تک صدر اس مطالبے کو رد کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے کبھی
بھی اپنا کوئی نائب بھی مقرر نہیں کیا اور انہی من مانیوں کا خمیازہ بہر
حال قریب ہے۔
تیونس، یمن،اردن اور پھر مصر میں عوامی مسائل کے حد سے گزرنے کے بعد انقلاب
کی دستک کو لے کر کے سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ پاکستان بھی ایسی ہی
صورتحال سے دوچار ہے لیکن یہاں انقلاب کیوں نہیں آرہا؟ جس کا سیدھا اور
آسان جواب ہے کہ انقلاب کتابوں میں بڑے دلکش لگتے ہیں مگر حقیقت میں سڑکوں
اور آبادیوں میں خون ریزیوں اور قربانیوں کا نام انقلاب ہے!!پاکستان میں
تیونس اور مصر جیسے انقلاب کے خواب دیکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ‘
پاکستان میں دو بڑے ”سیاسی مسلک“ ہیں۔ ایک سیاسی مسلک مسلم لیگ ہے، تو
دوسرا پیپلزپارٹی۔ اسی طرح ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی بھی
”سیاسی مسلکوں“ کے نام ہیں۔ یہاں حبِ علی کے بجائے بغض معاویہ کا کلچر عام
ہے اور جہاں ایسا کلچر ہو، واں بناﺅ کا بسیرا مشکل ہوتا ہے۔ انقلاب پر بحث
وتمحیص کرنے والے یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ قیادت کے بغیر بھی ممکن ہے، یہ
درست ہے کہ، تیونس میں انقلاب بغیر قیادت کے آیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ
تیونس میں لوگ سیاسی مسلکوں میں تقسیم نہیں تھے۔ وہاں اگر ایک پارٹی کے
سربراہ پر آفت آئے تو دوسری پارٹی اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس پر خوش
نہیں ہوتی ۔ وہاں پارٹیاں مخالفین کی بیوقوفیوں، ہٹ دھرمیوں اور عاقبت
نااندیشیوں کی بنیاد پر مقبول نہیں ہوتیں بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد ہر
دلعزیز بن جایا کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ چیز ہر دور اور ہر سیاسی پارٹی
کے من میں موجیں مارتی رہی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے،انقلاب اس طرح نہیں
آتے۔ ہمارے ہاں جب پیپلز پارٹی جیت جائے، تو وہ کہتی ہے کہ انقلاب برپا
ہونے کا نعرہ لگاتی ہے، مسلم لیگ فتح حاصل کر لے تو وہ اپنی کامیابی کو
انقلاب گردانتے نہیں تھکتی اور پھر جب دونوں پارٹیاں اور تمام سیاستدان،
کھا پی کر تھک جائیں اور کوئی ڈکٹیٹر شب خون مار دے تو بھی کچھ حلقے اسے
بھی انقلاب ہی کا نام دیتے ہیں جبکہ تریسٹھ برسوں سے انقلاب کی دستک اور اس
کے قدموں کی چاپ سنائی دینے کی باتیں سننے والے بے چارے عوام پہلے سے بھی
زیادہ مشکلات میں گھر کر اسی کو اپنا مقدر تسلیم کر لیتے ہیں، یوں ثابت
ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں انقلاب کے معنی ہی غلط ہیں اور جب تک ان کی درستگی کے
ساتھ ساتھ قربانی کا حوصلہ پیدا نہیں ہوگا، حقیقی انقلاب کا خواب ، خواب ہی
رہے گا۔ |