چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس ثاقب نثار نے جب سے کراچی کے
تجاوزات ختم کرنے کا آڈر دیا ہے ، تب سے ہی کراچی کے میئر وسیم اختر اور کے
ایم سی کا عملہ حرکت میں آگئے ۔
سب سے پہلے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ جیف جسٹس کی طرف سے جو انھوں نے
فیصلہ کیا ، کراچی کو غیر قانونی تجاوزات سے صاف کرنے اور میئر وسیم اختر
نے بھی اس فیصلے پر فوری ایکشن لیتے ہوئے آپریشن شروع کرنے میں بلکل بھی
وقت ضائع نہیں کیا۔ کراچی کے اندر سب سے پہلے مرحلے میں صدر ایمپریس مارکیٹ
کے اطراف میں موجود ٹھیلے ، پتھارے ، خوانچہ فروش ، طوطے ، بیٹر ، تیتر ،کبوتر
، مرغی فروشوں کو ہٹھاکر غیر قانونی طور پر بنائی گئی ڈھائی سو سے زائد
دکانو ں کو مسمار کرکے جگہ کو صاف کرادیا ۔ دکانداروں نے احتجاج کیا اور
مطالبہ کیا کہ انھیں کوئی متبادل جگہ فراہم کی جانے جس میئر وسیم اختر نے
کہا کہ جن دکانداروں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے ہم ان کو کسی اور مارکیٹ
میں جگہ دیں گے بلکہ ایمپریس مارکیٹ کے اندر موجود خشک میوہ جات اور مصالحہ
جات فروشوں کو بھی جگہ دیں گے جس پر دکانداروں نے احتجاج ختم کیا۔
میئر وسیم اختر اس خالی کرائی گئی جگہ ہر پارک تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے
ہیں ۔ تجاوزات کا خاتمہ صرف ایمپریس مارکیٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا
دائرہ کار بڑھا کر پورے کراچی میں تجاوزات آپریشن کیا جارہا ہے۔ صدر ہی میں
موجود ریگل چوک پر بھی غیر قانونی دکانوں کو کے ایم سی نے مسمار کرکے جگہ
کو خالی کرالیا ۔ اس کے بعد جامع کلاتھ مارکیٹ اور آرام باغ پر موجود غیر
قانونی دکانیں تھی انھیں بھی توڑ دیا یہاں کہ دکانداروں نے بھی احتجاج کیا
کیونکہ ان دکانداروں کو صرف ٹین گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا تین گھنٹے کے
اندر دکاندار کس طرح اپنا سارا سامان نکالتے کسی اور جگہ پہنچاتے انکا یہ
احتجاج کرنا صیح بھی تھا اسکے بعد لائٹ ہاؤس کی باری آئی لائٹ ہاؤس کی
دکانیں اس قدر پکی مضبوط بنی ہوئی تھی کہ اِنکو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر مجھے تو
افسوس ہوا لیکن چونکہ غیر قانونی تھی تو ایک نہ ایک دن ختم تو ہونا ہی تھا
لائٹ ہاؤس کے دکاندار بھی احتجاج کرہے ہیں کہ انھیں کسی اور جگہ پر دکانیں
تعمیر کر کے دی جائیں جبکہ لائٹ ہاؤس کے صدر کا کہنا ہے کہ لائٹ ہاؤس
پاکستان بننے کے چار یا پانچ سال بعد تعمیر کیا گیا تھا یہ ایشیاء کی مشہور
مارکیٹ ہے یہاں کے دکانداروں نے اس جگہ کو پیسے دے کر خریدا تھا اور ان
دکانداروں کے ایڈوانس کرایا ابھی تک جمع ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر
یہ جگہیں حکومت کی ہیں تو ان جگہوں پر غیر قانونی دکانیں اور دیگر تجاوزات
تعمیر کرنے ہی کیوں دیا گیا حکومت کے ادارے اس وقت کہاں تھے یہ دکان والے
ٹھیکے اور تمھارے والے کن لوگوں کو کرایہ دیتے تھے اور اب تک دیتے ہیں ان
لوگوں جگہ فراہم کرنے والے کون لوگ تھے اور اب سامنے کیوں نہیں آرہے کے ایم
سی اور کے ڈی اور دیگر ادارے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب یہ سارا کام ہورہا
ہوتا ہے اس وقت کی حکومتیں کیا کررہی ہوتی ہیں یا یہ کہنا چاہیے کہ یہ در
پردہ حکومت کے ہی اندر کچھ لوگ اس کام میں ملوث ہوتے ہیں خیر اس آپریشن کی
وجہ سے پورا کراچی شام اور عراق جیسا منظر پیش کررہا ہے ہر طرف دھول مٹی
دکانوں کےملبے کا ڈھیر ۔
ان تجاوزات کی وجہ سے سڑکوں کا سائز چھوٹا نظر آتا تھا ، گاڑیوں کا پڑھتا
ہوا سمندر ہر روز ٹریفک جام جہاں منٹوں میں سفر ہوتا تھا وہیں گھنٹوں لگ
جاتے ہے ان تجاوزات کے خاتمے کے بعد سڑکیں کھلی کھلی ہوجائیں گی۔ چیف جسٹس
ثاقب نثار ، میئر کراچی اور حکومتے پاکستان کی کوشش اور کام کرنے کے اس عمل
سے کراچی والوں کو ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا صاف ستھرا شہر مل جائے گا۔
|