بزرگ کہتے ہیں نئی دنیا کا خواب کون نہیں دیکھتا‘ زندگی
کے مہ و سال میں وہ کون سا لمحہ ایسا ہوتا ہے جب کوئی انسان یہ خواہش نہیں
کرتا کہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح کامیابی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ
جائے۔ اس کے لئے ہر کوئی جتن کرتا ہے لیکن چونکہ خدا نے ہر ایک کا رزق مقرر
کیا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ زمین پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوتا ہے چنانچہ
کوئی شخص سخت محنت کر کے بمشکل دو وقت کی روٹی ہی کما پاتا ہے لیکن ایسے
بھی ہیں جو اپنی سات سات نسلوں کے لئے ایمپائر کھڑی کر جاتے ہیں جس کی چکا
چوند سے پوری دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی عالمی فہرست
میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ سن 2025 تک پاکستان میں پانی کی کمیابی کا
مسئلہ سنگین تر ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے بقول اس صورتحال میں حکام کو فوری
ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک تازہ رپورٹ
کے مطابق پانی کی سنگین قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر
پر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی اور آبی ذخائر کے لیے پاکستانی
کونسل برائے تحقیق (پی سی آر ڈبلیو آر) نے خبردار کیا ہے کہ سن دو ہزار
پچیس تک یہ جنوب ایشیائی ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ پانی
کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر
ہو سکتی ہے۔ کئی ماہرین نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا
بحران دہشت گردی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان
بارش کے پانی کو ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ پانی کی ذخائر تعمیر کرنے کے لیے
سرمایا کاری کرنا ہو گی۔غیرملکی ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں پانی کا
بحران جزوی طور پر انسانوں کی طرف سے ہی پیدا ہوا ہے۔اس مسئلے کے حل کی
خاطر حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی رہنماؤں اور تمام
فریقین کو اس چیلنج سے نمٹنے کی خاطر ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور سیاسی عزم
کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔پانی بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرنے سے
اسے حل نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں پانی کے ذخائر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ
پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی ضرورت بھی ہے۔
پاکستان میں جاری کئی بحران قدرتی آفات نہیں بلکہ متعددبحرانوں سیاسی
مفادات کی پیدوار ہیں ۔کئی سالوں سے برسراقتدار رہنے والے آج قوم کے سامنے
سچے ہونے کے لیے مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ پاکستان میں قدرتی
آفات ’’ بارش ، سیلاب ، طوفان ، زلزلہ ، بیماری‘‘سے تقریباً ہر سال5یا
6لاکھ لوگ متاثرہوتے ہیں ۔ جن میں 10سے 12ہزار افراد دنیا فانی سے کوچ کر
جاتے ہیں ۔سیاسی مفادات کی پیدوار بحرانوں میں ’’ سیاسی سرپرستی میں قسط
مافیا، سود کا کاروبار، تعلیم اداروں سمیت دیگر سرکاری، نجی عمارتیں پر
قبضے ، فنڈز میں بدعنوانی ، ووٹ نہ دینے پر جعلی مقدمات ،معمولی رقم کے
بدلے میں خاندان کے خاندان کو غلام بنا نا ،سرکاری خزانے کو لوٹنا ،ذاتی
مفادات کے لیے پر تشدد احتجاج،تجاوزات ، ٹریفک قوانین کی خلاف وزری ،
فسادات ہو ادینا ،سیاسی دکانداری کے لیے الزامات لگانا سمیت ہزاروں کام ‘‘
شامل ہیں جن کا تعلق قدرتی آفات سے نہیں بلکہ انسان کی انا پرستی سے ہے ۔
بد قسمتی سے جس میں تقریباً 2لاکھ کے قریب بچے ، خواتین اور مرد زندگی کی
باری ہارجاتے ہیں اور ہزاروں صحت مندزندگی نعمت کے ترستے ہیں ۔ کھربوں روپے
کامالی نقصانات ہو جاتا ہے ۔افسوس پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں
جو کئی سالوں سے برسراقتدار رہے ہیں آج وہ بھی اپنے تقریروں ، پریس
کانفرنسوں ، انٹرویومیں جھوٹ بولنے پر فخر محسو س کرتے ہیں ۔
حقیقت میں پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پانی بحران پر تنقید کے
علاوہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ۔ اور ’’ مسلم لیگ ن ‘‘ کی جانب سے ’’
ڈیم فنڈزمہم ‘‘ پر صرف اور صر ف تنقید ہی کی جارہی ہے ۔ شاید مسلم لیگ ن کی
قیادت کو ’’ قرض اتاروملک سنوارو‘‘ یاد آرہی ہے ۔ جس کی بنا پر آج احتساب
بھی انتقام نظر آنے لگا ہے ۔ ملک بھر ایماندافسربھی دشمن نظر آرہے ہیں ۔
پاکستانی قوم چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت معززجج صاحبان
کو آج خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے ’’ پانی بحران‘‘ پر اہم اقدامات
اٹھائے اور ڈیم بناؤ۔انسان بچاؤ آگاہی مہم کے ذریعے ڈیمز بنانے کے لیے ’’
فنڈزمہم ‘‘ شروع کی ۔اس احسن اقدام میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے
بھرپورحمایت نے قوم کا دل جیت لیا ہے اور آج یہ ’’ ڈیمز بناؤ ۔ ملک بچاؤ ‘‘
مہم ہر محب وطن شہری کی دل کی آوازہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو
پانی بحران سے نمٹنے کے لیے جاری ’’ ڈیمز بناؤمہم ‘‘ پر اپنی پارٹی پالیسی
پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔کیونکہ پانی بحران دہشت گردی سے زیادہ بڑاخطر ناک
ہو گا ۔ اور ’’ ڈیمزبناؤ ‘‘ مہم میں رکاؤٹیں کھڑی کرنے والوں کوقوم اور
تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
|