وزیراعظم عمران خان کا جب سے یوٹرن کو جائز قرار دینے کا
فتویٰ جاری ہوا ہے ۔ اس کی تشریح و تصریف موضوع بحث بن رہی ہے۔ جیسے کہ
انہوں نے کوئی انہونی بات بول دی ہو۔ ہٹلر اور نپولین کو یوٹرن نہ لینے پر
کھری کھری سنانا بھی اس بحث کا حصہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خود عمران خان صاحب
بھی اپنے بیان پر ترس آئے ،وہ کچھ عرصہ بعد یو ٹرن لے لیں۔ انہیں بھی یہ
محسوس ہو کہ اگر یہ بیان نہ دیا ہوتا تو زیادہ اچھا ہی ہوتا۔ مگر تبدیلی پی
ٹی آئی کا نعرہ ہے۔ لوگ اس تبدیلی کا مطلب کبھی حکومت اور کبھی نظام کی
تبدیلی لیتے رہے یا وہ سمجھتے رہے کہ پی ٹی آئی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی
لانا چاہتی ہے یا وہ معیار زندگی کی تبدیلی سمجھتے رہے، تا ہم سچ کچھ اور
ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی اپنے لیڈر کی بات کو درست سمجھتی ہے اور اس
کا بڑھ چڑھ کر دفاع کیا جا رہا ہے۔ چہروں کی تبدیلی، دفتر یا رہائش ،
فرنیچر کی تبدیلی سے کوئی قوم تبدیل نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے۔ جیسے کہ
ٹیکنالوجی، سائنس کا سارا نظام تبدیلی پر قائم ہے۔ آج جو چیز جس ہیئت میں
ہے کل وہی کسی نئی شکل و صورت میں ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ زندگی کو یہ
تبدیلی نئی آسانیاں اور آسائشیں فراہم کرتی ہے۔ انسان کو یہی تبدیلی آرام و
سکون دیتی ہے۔ موسم کی یا آب و ہوا کی تبدیلی بھی ایسی ہی ہے۔ منظر نامے
بھی ایہسے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انسان کا بھی یہ مزاج ہے کہ وہ بھی ایک ہی
چیز کو دیکھ سن کر اکتا جاتا ہے۔ وہ نئی اور اپ ڈیٹ یا اپ گریڈ چیز کا
منتظر رہتا ہے۔ نئے ورژن کو پسند کرتا ہے۔ نئی شکل و صورت کو قبول کر لیتا
ہے۔ مگر زیر بحث جو تبدیلی ہے وہ موقف کی تبدیلی ہے۔ ایک بار آصف علی
زرداری صاحب نے فرمایا کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں کہ تبدیل نہ ہوں۔
والدین بھی کبھی بچوں سے ان کی فرمائش کے بارے میں کچھ ایسے ہی وعدے کرتے
ہوں گے کہ جو وقت گزرنے پر یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یا کسی بہتری کے ساتھ
سامنے آتے ہیں۔ مگر سچ کچھ اور ہی ہے۔ جس یو ٹرن کی حمایت یا مخالفت کی
جارہی ہے اس کے حق میں یا مخلافت میں ایسے ایسے دعوے ہو رہے ہیں کہ انسان
ان سے الجھ جاتا ہے۔ ہر کوئی من پسند موقف پیش کر رہا ہے۔ ع،مران خان صاحب
کے حامی ان کے یوٹرن کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ اپوزیشن
والے اس کے خلاف بات کرنے اور سیاسی پوائینٹ سکورننگ کے لئے ایڑی چوٹی کا
زور لگا رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقاء مشرق کی طرف جارہے ہیں۔ ان کی نزل
مقصود مشرق ہے۔ راستے میں انہیں محسوس ہو کہ یہ سفر نہیں آسان، یا آگے
برفانی طوفان آ رہا ہے، سیلاب چڑھ آیا ہے۔ چلیں واپس پلٹتے ہیں۔ وہ مشرق سے
واپس پلٹ کر مغرب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ کیوں راستے میں مشکلات کی دیوار
حائل ہے۔ یہ یو ٹرن ہے جسے وہ جائز قرار دینے کا فتویٰ مسلط کر رہے ہیں۔ جب
ان کی منزل ہی مشرق ہے تو مغرب کی جانب بڑھنے کی کیا وجہ ہے۔ ہو سکتا ہے
حالات سازگار نہ ہوں۔ اس کے لئے وہیں کچھ دیر ٹھہر جانا ، یا راستہ بدل
دینا، پھر منزل کی طرف بڑھنا کامیاب قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ لیکن کوئی قوم
اپنی منزل کیسے تبدیل کر سکتی ہے۔ ہم پاکستان کو جناح اور اقبالؒ کا
پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔ یہی ہماری منزل ہے۔ اس میں رکاوٹ دیکھ کر ہم
پاکستان کو مارکس یا کمیونزم کا پاکستان کیسے بنا سکتے ہیں۔ یہ یوٹرن ہے
جسے درست قرار دینے کے لئے حکومتی مشینری حرکت میں آ چکی ہے۔
حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے۔ راستہ بدلا جا سکتا ہے۔ سازگار
فضا کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ طوفان آئے تو اس کے سامنے کھڑا ہونے کے
بجائے اسے گزرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ مگر منزل نہیں بدلی جا سکتی۔
بحثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ قرآن اور سنت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ سائنس
تبدیل ہو سکتی ہے۔ سرچشمہ بدل نہیں سکتا۔ اس سے نہریں اور مختلف راستے
نکلتے ہیں۔ اب فخریہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہ لیڈر ہی کیا جو یو ٹرن نہ
لے۔ یعنی وعدہ کریں اور بھول جائیں۔ ریاست اسی لئے طویل اور گہری عرق ریزی
اور ریسرچ سے منصوبے اور پالسییاں تشکیل دیتی ہے۔ جو قابل عمل ہوں۔ جن میں
وقت گزرنے پر کچھ تبدیلی لائی جاسکتی ہے مگر انہیں بالکل ہی تبدیل نہیں کیا
جا تا۔ اسی لئے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ یہ مقولہ صدیوں پرانا ہے۔ سوچ
سمجھ کر غور و خوض کے بعد فیصلے لیں۔ پھر ان پر عمل کریں۔ ورنہ یہ مذاق بن
جائے گا۔ عمران خان نے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے، ملکی تعمیر و ترقی ،
کرپشن اور غربت و بیروزگاری کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے۔ اب اگر وہ اس وعدے سے
مکر جائیں اور یو ٹرن لیں پھر اس کی سچائی کے حق میں دلائل دیں تو یہ یوٹرن
کسی بھی طور درست یا جائز نہ ہو گا۔ عمران خان صاحب کو اپنا یہ فتویٰ واپس
لینا چاہیئے۔ حکیم الامت ،مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے اسی لئے فرمایا کہ
دنیا میں تبدیلی ہی مستقل ہے۔تبدیلی کو ہی ثبات حاصل ہے۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں |