امریکی اجاداری کا خاتمہ

اس مضمون میں امریکہ کی جنوب وسط ایشیا میں کم ہوتے ہوئے اس روسو کے بارے میں کچھ حقائق بیان کیے گئے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں ہیں کہ امریکہ کا اثر وسوخ اب اس خطے میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ایک وقت تھا جب امریکہ سے کوئی سیکریٹری سطح کا کوئی نمائندہ جب پاکستان آتا تھا تو پاکستان کے وزیر خارجہ یا وزیراعظم اسے لینے اور استقبال کے لئے ایئرپورٹ جایا کرتے تھے۔ایک وقت تھا کہ جب امریکی صدر کی ایک کال پر پاکستان کے صدر ڈھیر ہو جایا کرتے تھے۔ایک وقت تھا جب پاکستان میں ہر بڑے فیصلے میں امریکی آشرباد شامل ہونا معمول کی بات تھی۔

لیکن وقت کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا۔اس کی ایک مثال امریکہ کی جنوب وسط ایشیا کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز کا پاکستان کا دورہ ہے۔جس میں انہوں نے بار بار آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ اور وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن دونوں ہی نے ملنے سے صاف انکار کردیا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایلس ویلز پاکستان کیا کرنے آئے ہیں۔ بظاہر تو وہ اس بار پاکستان آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ آئی ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ان کا آئی ایم ایف سے کوئی خاص تعلق نہیں۔

امریکہ اپنے ختم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لئے ایلس ویلز کو سامنے لایا ہے لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ کا اثرورسوخ اس خطے میں تقریبا ختم ہو چکا ہے اس کی ایک زندہ مثال ہمیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں نظر آتی ہے کیونکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات موسکو میں ہوے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اب طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں نہیں۔

امریکہ کا کردار جنوب وسط ایشیا میں تقریبا ختم ہوتا نظر آرہا ہے جس کا سہرا افغان طالبان کے سر پر جاتا ہے جس میں خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود امریکہ کی اپنی ناکارہ پالیسیاں اسے اس جنگ میں بدترین شکست سے دو چار کر رہی ہیں۔

انسانی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ افغان طالبان اور نہتے افغان کے خلاف پوری دنیا ایک پیج پر تھی ایران مخالف، پاکستان مخالف، بھارت مخالف، سپر پاور امریکہ مخالف اور سب سے بڑھ کر نیٹو ممالک بھی مخالف اس کے باوجود 17سال کی خونریز جنگ کے بعد بھی افغانستان فتح کرنے کا خواب صرف خواب ہی رہا اور اب یہ خواب امریکہ کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہو رہا ہے۔

امریکہ کا ڈومور کا مطالبہ بھی کسی کام کا نہیں رہا۔ایک برطانوی تھنک ٹینک ( روسی) Royal United services institute نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جنرل باجوہ نے امریکی دھمکیوں کو بے سود ثابت کرتے ہوئے انہیں امریکی زبان میں ہی جواب دیا ہے کہ اب پاکستان ڈومور کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کے ساتھ ساتھ روسی نے اسے باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا ہے۔اس تھنک ٹینک کے مطابق جنرل باجوہ نے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب پاکستان کی سرزمین امریکی مفادات کے لئے استعمال ہرگز نہیں ہوگی اس تھینک ٹینک کا مزید کہنا تھا کہ جنرل باجوہ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے برعکس کام کر رہے ہیں۔

روسی کا مزید کہنا تھا کہ جنرل باجوہ چین کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں اور امریکی اثررسوخ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کے مسئلے پر بھی چین کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں۔

ایک ہزار ارب ڈالر ، کئ سو جنگی جہاز ، کی ہزار امریکی فوجی جانیں گوانے کے بعد امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ اب افغانستان میں امن قائم کرنا چاہتا ہے سادہ الفاظ میں کہا جائے تو امریکہ اپنی شکست تسلیم نہ کرتے ہوئے عزت سے افغانستان سے بھاگنا چاہتا ہے جو کہ مستقبل قریب میں ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

اگر حالات یہی رہے تو عنقریب افغانستان امریکی فوجیوں کے لیے قبرستان کی شکل اختیار کر جائے گا لہٰذا بھلائی اسی میں ہے کہ امریکہ اور امریکی افواج اپنے دو پیروں پر چل کے افغانستان سے چلے جائیں ورنہ جانا تو انہوں نے ہے لیکن پھر انہیں تابوت میں جانا پڑے گا۔

موجودہ حالات امریکہ کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں اگر امریکہ نے اپنی عزت بچانی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بنا کر رکھے۔تاکہ وہ افغانستان سے باعزت طور پر انخلا کر کے بھاگ سکے ورنہ افغانستان دوسری عالمی طاقت کے ٹوٹنے کا سبب بھی بن سکتا ہے کیوں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

Sardar Danish Zaman
About the Author: Sardar Danish Zaman Read More Articles by Sardar Danish Zaman: 5 Articles with 18703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.