نادرا سمن آباد لاھور کی کرشمہ سازیاں

بہت عرصے سے پاکستانی عوام پر لتروں(جوتوں ) کی بارش جاری ھے اور ھماری بہادر عوام کیونکہ تیونس کے عوام کی طرح بے صبری نہیں ھے، اس لئے یہ بہادر عوام بڑی ھمت اور صبر کے ساتھ اس بارش میں نہانے میں مصروف ھے۔ قارئین کی راھنمائی اور مدد کیلئے،نادرا سمن آباد لاھور کے دفتر سے برستی بارش میں نہاتے ایک درخوست گزار کا حال پیش ھے،برائے مہربانی مسکرائیں ضرور لیکن اس سے تجربہ حاصل کریں اور جب بھی نادرا کے دفتر جائیں،نادرا کے آفس میں موجود سٹاف کی عزت اور احترام کر کے ان کو بھرپور سروس فراہم کریں اور اس بات کی پروا بالکل نہ کریں، کہ سروس فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ھے اور اس کام کی آپ کے ٹیکسوں سے یہ لوگ تنخواہ بھی پاتے ھیں۔ ورنہ آپ کا حال بھی اس درخوست گزار جیسا ھو سکتا ھے۔

13اکتوبر2010 کو ایک سائل نادرا سمن آباد آفس اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کیلئے جا پہنچا۔ اسے وھاں سے پتہ چلا کہ لائن میں لگنے کی بجائے سامنے موجود مبینہ دوکاندار جس کا دکھاوے کا کام کچھ اور ھے، لیکن دراصل وہ نادرا سمن آباد کے سٹاف کا ایجنٹ ھے اور 1000 روپے دے کر بغیر لائن میں لگے کچھ دنوں میں شناختی کارڈ بنوا دیتا ھے، اگر اس سے رابطہ کیا جائے تو سارا کام وہیں آسانی سے ھو جائے گا۔ ۔ وھیں بیٹھے بیٹھے موبائل سے تصویر لینے کی بھی سہولت موجود ھے۔ لیکن لتر بارش میں نہانا اس کا مقدر تھا۔ اس نے اپنے پیسے بچائے، نادرا ھیڈ آفس سے آئی گاڑی میں مورخہ 13اکتوبر2010 کو 200روپے سرکاری خزانے میں جمع کروا کر Y500016684فارم نمبر حاصل کیا اور گھر چلا گیا۔ کچھ دن بعد متعلقہ سرکاری آفیسر سے تصدیق کروا کر جب یہ واپس دفتر پہنچا تو فارم جمع کروانے کیلئے کھڑکی نمبر 3 پر لمبی لائن میں کھڑا ھو گیا۔ لیکن جب طویل انتظار کے بعد اس کی باری آئی تو کھڑکی بند ھو گئی۔ آفس سے بتایا گیا کہ لائٹ چلی گئی ھے، جنریٹر میں تیل نہیں ھے، انتظار کریں۔ انتظار کرنے کے بعد جب باری آئی تو کھڑکی نمبر 3 پر موجود آفیسر اپنی کرسی چھوڑ کر آفس میں غائب ھو گئے۔ چھوٹی سے کھڑکی سے تلاش کرنے کے بہت دیر بعد فون پر بات کرتے پائے گئے۔ جب ان کا دل کیا، وہ واپس آئے، درخواست گزار نے گلہ کیا کہ ھم صبح سے لائن میں ھیں اور آپ ھمیں کھڑا کر کے فون سننے میں مصروف ھیں۔ بس محترم آفیسر صاحب کا بلڈ پریشر ھائی ھو گیا۔ حکم فرمایا کہ آپ زیادہ باتیں نہ کریں اور فارم جمع کروائیں۔ آفیسر نے حکم فرمایا کہ اپنے والد اور والدہ کا شناختی کارڈ دکھائیں۔ دوسروں سے کارڈ کی تجدید کیلئے کا تقاضہ نہیں کیا جا رھا تھا، لیکن یہ درخواست گزار کے شکوے کی سزا تھی۔ درخواست گزار نے دبی دبی آواز میں موصوف آفیسر کو بتایا بھی کہ والد، والدہ کے شناختی کارڈ تو پہلی حاضری پر چیک کئے جا چکے ھیں لیکن انھوں نے اگلے بندے کو آگے آنے کا اشارہ کیا۔ درخواست گزار اپنے گھر سے والد، والدہ کے شناختی کارڈ لے کر واپس دفتر آ کر دوبارہ لائن میں لگ گیا۔ جب اس کی باری آئی تو کھڑکی پر موجود آفیسر نے ان کی شناخت کر لی۔ فرمایا کہ صبح آپ ھی میرے فون سننے پر شور مچا رھے تھے ؟ سر، آپ نے فون سننے پر گھنٹہ لگا دیا تھا، میں نے تو آپ سے صرف بات کی تھی کہ صبح سے لائن میں کھڑے ھیں، فارم جمع کر لیں۔ درخواست گزار نے جواب پیش کیا اور اپنا فارم پکڑا دیا۔ آفیسر نے فارم دیکھا اور واپس درخوست گزار کے ھاتھ میں پکڑا دیا اور فرمایا آپ واپس گھر جائیں اور میٹرک کی سند لے کرآئیں اور لائن میں لگ کر دوبارہ میرے پاس آئیں۔ درخواست گزار سمجھ گیا کہ اسے سزا دی جا رھی ھے۔ درخوست گزار نے فارم پکڑا اور گارڈ کی نہایت منت سماجت کرنے کے بعد آفس انچارج تک جا پہنچا۔ آفس انچارج کا کہنا تھا کہ کارڈ کی تجدید کیلئے میٹرک کی سند کی ضرورت نہیں ھے، آپ ان کو جا کر میرا حوالہ دیں، وہ فارم جمع کر لیں گے۔ درخوست گزار متعلقہ آفیسر کے پاس حاضر ھوا اور اسے اس کے انچارج کا حکم سنایا۔ موصوف نے فرمایا،ٹھیک ھے آپ لائن میں آئیں میں آپ کا فارم جمع کر لیتا ھوں۔ چنانچہ درخوست گزار دوبارہ لائن میں لگ کر کھڑکی پر پہنچا تو موصوف دوبارہ فون پر مصروف ھو گئے۔ درخواست گزار دوبارہ آفس انچارج کے پا س پہنچ گیا۔ آفس انچارج نے انھیں ایک خاتون آفیسر کے پاس بھیج دیا۔ اس خاتون آفیسر نے انھیں لائن میں لگ کر آنے کا کہا۔ درخوست گزار نے انکار کیا اور اسے بتایا کہ صبح سے یہی کر رھا ھوں۔ تو اس نے انتظار کرنے کا کہا۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد درخواست گزار نے پھر فارم جمع کرنے کا اصرار کیا تو خاتون نے دوبارہ انتظار کرنے کا کہا۔ کیا میں میڈیا والوں کو بلا کر لاؤں تو میرا فارم پھر جمع ھو گا یا عدالت میں درخواست دوں۔ درخوست گزار زچ ھو کر بولا۔ یہ سن کر خاتون آفیسر لال پیلی ھو گئیں۔ میں نے بڑے صحافی دیکھے ھیں۔ جس کو مرضی بلا لاؤْ ۔ ،میں نے فارم جمع نہیں کرنا۔ کھڑکی نمبر تین پر ھی جا کر جمع کرواؤ۔ درخواست گزار دوبارہ کھڑکی نمبر تین پر لائن پر لگ گیا،لیکن جب باری آئی تو متعلقہ آفیسر نے فارم جمع کرنے سے انکار کر دیا۔ درخواست گزار نے اصرار کیا تو متعلقہ آفیسر نے اسے بتایا کہ اس کا کارڈ نہیں بن سکتا۔ وہ گھر جائے اور شور مچانے کی کوشش نہ کرے۔ درخوست گزار دوبارہ آفس انچارج کے پاس پہنچا اور اس نے اپنے آفس بوائے کو بھیج کر فارم جمع کروا دیا اور آفس سٹاف کی طرف سے معذرت کی ۔ آفس بوائے نے درخواست گزار کو رسید لا کر دی اور اسے یاد کروایا کہ اگر وہ فوٹو کاپی والے کے پاس جا کر 1000 روپیہ جمع کروا دیتا تو اتنا مسئلہ نہیں ھوتا، اب بھی وہاں چلا جائے ورنہ کارڈ اب بھی نہیں بنے گا۔ یہ نہایت ھی باخبر آفس بوائے تھا۔ لیکن درخواست گزار رسید لے کر گھر آ گیا۔ رسید کے مطابق 5 جنوری2011 کو شناختی کارڈ ملنا تھا، لیکن 5 تاریخ تک اس ناردا سمن آباد آفس سے متعلقہ کارڈ کا ڈیٹا اسلام آباد کیلئے اپ لوڈ ہی نہیں کیا گیا تھا اور درخواست گزار تا حال نادرا کے آفس کے چکر لگانے میں مصروف ھے۔ آفس بوائے نے درست ھی فرمایا تھا۔ شناختی کارڈ کے نہ ھونے سے اس درخواست گزار کے بینکنگ کے اور دوسرے متعلقہ کام رک گئے ھیں۔ درخواست گزار نے آخر کار تنگ آ کر شناختی کارڈ کے حصول کیلئے عدالت میں درخواست دی ھے۔

ذرا سی کوشش کے بعد مجھے بے شمار لوگ ملے جو نادرا سمن آباد لاھور کے بے حس سٹاف کی لاپروائیوں کی وجہ سے اپنے شناختی کارڈ کے حصول کیلئے دھکے کھا رھے ھیں۔ شناختی کارڈ کیلئے فارم جمع کروا کر ایک رسید ملتی ھے، میرے تک پہنچنے والی رسید پر ایک یونیورسل فون نمبر کے ساتھ یہ بھی لکھا ھے کہ آنے سے پہلے اس فون نمبر پر رابطہ کریں، یہ فون نمبر ملتا ھی نہیں لہٰذا عوام اپنے کام کاج چھوڑ کر دفتر آ کر لمبی لمبی لائنوں میں لگنے میں مجبور ھے اور اتنی دیر لائن میں لگنے کے باوجود انھیں یہ کہا جاتا ھے کچھ دن بعد پتہ کریں ۔ کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاتی اور دوبارہ پھر وھی چکر پر چکر ۔ اسی فون کے نہ ملنے کے بارے میں وفاقی محتسب کی عدالت میں ایک مقدمہ نمبر۔11 0000069ْاو۔این۔ایل زیر سماعت ھے۔

شناختی کارڈ تب ملتا ھے کہ جب اس شخص کو اچھی طرح یہ باور کروا دیا جاتا ھے کہ وہ عوام میں سے ھے اور عوام کو ذلیل خوار کرنا نادرا سمن آباد کے سٹاف کا حق ھے اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ھے۔
شناختی کارڈ کیلئے فارم جمع کروا کر ملنے والی جو رسید میرے پاس پہنچی ھے اس پر لکھا ھے کہ شناختی کارڈ 15دن کے بعد نادرا دفتر سے حاصل کیا جا سکتا ھے لیکن آپ ملاحظہ کریں کہ محمد ندیم فارم نمبر 000022931 ایف ۔۔۔۔ نے 24نومبر2010 کو فارم جمع کروایا لیکن 26جنوری 2011 تک بھی ان کو کارڈ نہیں ملا۔

قاسم 100062063 ایف ۔ نے 23 ستمبر 2010 کو فارم جمع کروایا لیکن 26جنوری 20100 تک کارڈ حاصل نہیں کر سکا۔

اعجاز علی 12 فارم نمبر 00662640ایل ایس۔۔ اکتوبر2010 کو فارم جمع کروا کر 26 جنوری 2011 تک کارڈ حاصل نہیں کر سکا۔

فیاص مسیح فارم نمبر005566467ایل ایس 25فروری 2010 کو فارم جمع کروا کر 26جنوری 2011 تک بھی شناختی کارڈ حاصل نہیں کر سکا۔

اور ایک خطرناک بات یہ ھے کہ میں نے ذرا سی کوشش سے ایک ایسے درخواست گزار سے بھی رابطہ ھو گیا جنہوں نے لمبی لمبی لائنوں سے تنگ آ کر اسی مبینہ ایجنٹ کو صرف 1000 روپے دے کر اپنا کارڈ حاصل کیا ھے اور ظاھر ھے یہ پیسے اور اس طرح کی دوسری فیسیں سرکاری خزانے کی بجائے سٹاف اور ایجنٹ صاحب کی جیب میں گئی ھوں گی۔

محترم قارئین، ایک بھری دیگ میں سے کسی پکوان کا ذائقہ جاننے کیلئے ایک لقمہ ھی کافی ھوتا ھے۔ ھم نے تو کئی لقمے لے کر دیکھا، کہ نادرا سمن آباد آفس کے سٹاف کا رویہ او ر اس دفتر کے حالات اس بات کی گواہی دے رھے ھیں کہ یہ محکمہ بھی بے بس او ر مجبور عوام کو ذلیل و خوار کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ھے اور عوام کو سروس فراہم کرنے کے نام پر عوام سے پیسے لے کر عوام کو شناختی کارڈ فراہم کرنے کا کام جاری ھے لیکن مہنگائی کی ماری عوام کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد ۔ اور ایک کڑوا سچ یہ ھے کہ نہ جانے نادرا آفس کے سامنے موجود مبینہ غیر قانونی ایجنٹ کو نادرا آفس سے کتنے اختیارات مل چکے ھیں، اور جعلی کوائف کے ذریعے نہ جانے کتنے نوسرباز اصلی شناختی کارڈ حاصل کر چکے ھیں اور کیا کرتے پھر رھے ھوں۔ کیا معلوم کہ کوئی دھشت گرد بھی اس سہولت سے استفادہ حاصل کر چکا ھو۔

بہر حال نادرا سمن آباد لاھور کو ان کی کرشمہ سازیاں مبارک ھوں۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112607 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More