یہ ہماری ملک کی یا اس حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اب میڈیا
سمیت عوام بھی حکومت کی کار کردگی کو بہت غور و فکر سے دیکھ رہی ہے کہ آیا
جو وعدے انتخابات میں کیے گئے تھے ، ان پر عمل ہورہاہے یا نہیں۔ تحر یک
انصاف کی حکومت کو 28نو مبر کو سو دن ہوگئے ہیں جس میں خود وزیراعظم عمران
خان نے سو دن کا پلان پیش کیا تھا کہ سو دنوں میں ہم اپنی حکومت کی سمت اور
عوام کی فلا ح وبہبود کیلئے کام شروع کرنے کی پلاننگ دینگے جس پر آئندہ
پانچ سال عمل کیا جائے گا ۔ ان سو دن کی حکومت نے اپنے وعدے اور عوام کے
فلاح کیلئے کونسے کام کیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔ حکومت کا سب
سے بڑا وعدہ ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے کرپشن کا خاتمہ تھا جس کو
دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر کر پشن کم ضرور ہوئی ہے لیکن سرکاری سطح پر
یعنی سرکاری افسران اور اداروں میں ہونے والے تقریباً ہزار سے پندرہ سو ارب
روپے کی سالانہ کرپشن کو ختم کرنے میں یا اس کے خلاف کارروائی کرنے میں
حکومت ناکام نظر آتی ہے یعنی انرجی سیکٹر بجلی اور تیل کی پیداوار سمیت
درآمدات میں خاص کرتیل اور ایل این جی میں روزانہ کے حساب سے اربوں کی
کرپشن ہوتی ہے ۔اس طرح پی آئی اے ، اسٹیل مل،سوئی گیس،او جی ڈی سی ایل سمیت
واپڈا میں بجلی پیداوار سے لیکر کارخانہ دار اور عام صارف سے بجلی بل کی
وصولی تک اربوں روپے کی کرپشن ہر ماہ ہوتی ہے لیکن اس کو روکنے کیلئے موجود
حکومت نے کوئی میکزم نہیں بنایا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی
ہے جس میں ہماری عدالتی نظام بھی حائل ہے کہ جن کے خلاف کارروائی ہونے جاتی
ہے وہ ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر حاصل کرلیتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر
سال تقریباً بارہ سے پندرہ سو ارب روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کو روکنا
آسان کام نہیں لیکن کم ازکم اس کے خلاف کارروائی اور اقدامات اٹھانا چاہیے
جس میں ملک کا بڑا مافیا ملوث ہے۔ البتہ پورے ملک میں تقریباً تین سو ارب
سے زیادہ کی زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئی، تقریباً ہر شہر میں
تجاوزات کے خلاف آپریشن ہورہے ہیں جو پہلے نہیں تھے بلکہ ماضی کے حکمران
خود اس میں ملوث ہوتے رہیں ۔ اگر کرپٹ مافیا پر آنے والے مہینوں اور سالوں
میں پی ٹی آئی کی حکومت قابو پائے تو ملک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں
رہیں گی ۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس بارے میں سب جانتے ہیں
اسلئے وہ کہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہم قرض دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
اس طرح انہوں نے بے گھر لوگوں کے لئے مکان دینے کا اعلان کیا جس کا آغاز
نئے پاکستان ہاؤسنگ سکیم سے ہوکیاہے۔جب یہ شروع ہوگا تو اس سے معاشی صورت
حال بہتر ہوسکتی ہے، حکومت کو جلد ازجلد اس کو شروع کرنا چاہیے۔ بے روزگار
افراد یعنی ایک کروڑ نوکریا ں دینے کے وعدے پر ابھی تک عمل نہیں ہوا بلکہ
حکومت کے بعض اقدامات نے سرکاری ملازمین کو فارغ کیا جن کی تنخواہ ہزاروں
میں تھی جو کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کام کررہے تھے اس پر تفصیل سے آئندہ
لکھوں گا کہ پی ٹی آئی حکومت گزشتہ حکومتوں کی نالائقی یا غلط اقدامات کا
بدلہ غریب عوام سے لے رہی ہے جن کی مجموعی تنخواہ لاکھوں میں سالانہ بنتی
ہے ، ان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہاہے اور جو مہینے میں لاکھوں تنخواہ
لیتے ہیں وہ مزے کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں
یا اداروں کو درپیش مالی مشکلات حل کرنے میں تعاون کرنا چاہیے ۔ بجلی ، گیس
اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا طوفان شروع ہوا ۔ بات
وہی کہ جو بل اور ٹیکس ادا کرتا ہے ان پر ہی بم گرایا جائے ۔اس سلسلے میں
حکومت روایتی طرز پر رہی۔کوئی خاص پکڑ دھکڑ حکومت کی جانب سے نظر نہیں آئی
کہ سو دنوں میں بڑے بڑے بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کارروائی ہوئی ہو البتہ
اعلان ضرور ہوا ہے لیکن بجلی ، گیس اور پٹرول مہنگا ہونے سے مہنگائی میں
کافی اضافہ ہوا جس نے عام آدمی کو براہ راست متاثرکیا۔ دیکھا جائے تو ان سو
دنوں میں عوام کے لئے کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آیا جس سے عام آدمی کو
فائدہ ہوا ہولیکن سابق حکومتوں کے برعکس عمران خان نے اپنے بعض وعدے ان سو
دنوں میں ضرور پورے کیے یعنی وزیر اعظم ہاؤس میں پانچ سو ملازمین کی جگہ
پانچ ملازمین رکھیں ، کروڑں کی گاڑیاں نیلام کی جو پہلے وزیراعظم ہاؤس میں
تھی، اس طر ح ماہانہ اخراجات میں 70سے 80فی صد کمی لائی گئی ۔ وزیراعظم
ہاؤس ، وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس کو عوام کیلئے کھلا کیا جو کہ ایک اچھی
روایت ہے کہ قرضوں میں ڈوبی ہوئی عوام کا پیسہ صرف پروڈکول پر ہر مہینے
اربوں خرچ نہیں ہونے چاہیے۔ کفاعت شعاری کا آغاز خود وزیراعظم عمران خان نے
کیا جس پر دوسرے وزرا بھی عمل کررہے ہیں ۔
ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اقتصادی طور پر جو گردشی قرضوں کی شکل میں
بارہ سو ارب ادا کرنے تھے وہ حل ہوکیا لیکن مجموعی طور پر معاشی پوزیشن
ابھی تک مستحکم نہیں یعنی مارکیٹ غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے کاروبار بہت کم
ہے ۔مہنگائی کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے ۔ بیرونی امداد
یعنی چین ، سعودی عرب اور یواے ای سے مالی امداد کا بڑے پیمانے پر اعلانات
ہوئے ہیں جس کا اثر آئندہ چندہ ماہ میں ظاہر ہوگا ۔ اقتصادی صورت حال کو
کنٹرول کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض کی بات بھی ہوئی لیکن ان کی سخت
شرائط جس میں بجلی مزید مہنگا اور ڈالر کی قیمت کو 150روپے تک لے جانے پر
مذاکرات ناکام ہوئے ۔ حکومت اس پر تیار نہیں جو شرائط پیش کی گئی ہے اگر
حکومت اس پر مان جائے تو مہنگائی مزید بڑھے گی لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ
اپنے اقدامات سے معاشی صورت حال پر قابو پائیں جس میں قرض واپسی کی مد میں
صر ف سود 1900ارب اس سال واپس کرنے ہیں باقی اخراجات اپنی جگہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کو جوحکومت ملی ہے اس کی تاریخ میں مثال
نہیں کہ ہر جگہ مسائل کے انبار پڑے ہیں۔جاتے جاتے ن لیگ کی حکومت نے کچھ
خاص مہر بانی بھی کی جو رقم خزانے میں تھی اس کو اپنے ممبران میں تقسیم کیا۔
پی ٹی آئی حکومت سو دنوں میں دس اور سترسال کا گندہ صاف نہیں کرسکتی لیکن
بیوروکریسی میں کرپٹ افراد پر ہاتھ ابھی تک نہیں ڈالا کیا بلکہ کچھ کو تو
خاص ذمہ داریا ں بھی دی گئی ہے۔عوام کو ریلیف ملنا چاہیے کہ جو حکومت نے
وعدے کیے تھے وہ سو دنوں میں پورے نہیں ہوسکتے لیکن کم ازکم پانچ سال میں
وہ وعدے پورے ہو اور ملک میں تبدیلی اور عوام کو ریلیف سب کو نظر آئے ۔
اب تک کہاجاسکتا ہے کہ بعض غلط اقدامات کے باوجود مجموعی طور پر پی ٹی آئی
کی حکومت گزشتہ حکومتوں کی نسبت بہت بہتر ہے جنہوں نے آگ لگائی ہے وہ آگ پی
ٹی آئی حکومت بجھا رہی ہے ۔ اپوزیشن کا اعتراض یہ ہے کہ سودنوں میں ملک کو
تبدیل نہیں کیا گیا جنہوں نے دس سالوں میں بیڑا غرق کیا ہے وہ آج پی ٹی آئی
حکومت کا مذاق اڑا رہی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ملک کو بہتر بنانے اور معاشی
صورت حال کو بہتر کرنے کی کم ازکم حکومت کوشش کررہی ہے جو بہتری کی علامت
ہے۔اگر ماضی میں بھی میڈیا اور عوام اس طرح حکومتوں کی قول فعل پر نظررکھتی
تو آج ملک کایہ حال نہ ہوتا۔
|