ایوب خان کی آمریت کے خلاف زوالفقار علی بھٹو نے جس
جمہوریت کا خواب دیکھا تھااسے آج بھی زوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد
بھٹو خاندان نے پورا کرنے کے لیے اپنی کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ دیکر جاری
و ساری رکھاہواہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھٹوخاندان کے لیے ایک حقیقی
جمہوریت ہی پاکستان میں انسانوں کی فلاح وبہبود کا واحد زریعہ رہاہے ،زوالفقار
علی بھٹو کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس ملک کو پہلی بار ایک
متفقہ آئین دیا،اور اس ملک کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی
پروگرا م دیا،لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی اور
1971کی جنگ کے بعد بھارت کی قید سے 90ہزار فوجیوں کو رہا کروایا،جبکہ
جمہوری مشن کی اس تکمیل میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں بے شمار
جیلوں کی صعوبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کیااولاد اور شوہر سے بھی دور رہی
مگر آفرین ہے کہ ایک پل کے لیے پاکستانی قوم کا دردان کے سینے سے گیاہو ،اور
پھر جمہوریت کی اس جنگ میں وہ اپنی جان کی بازی ہار گئی مگر یہ ورثہ جو
انہوں نے اپنے والد محترم اور اس دنیا کے عظیم لیڈر زوالفقار علی بھٹو سے
لیا تھا اس وراثت کو اپنے نوجوان بیٹے کے حوالے کردیاتھا محترمہ بے نظیر
بھٹو نے تو اپنے والد شہید زوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی انسانی خدمت کا
سفرشروع کردیاتھا،زوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد انہوں نے آمریت کے
خلاف ایک بھرپور جدوجہد سے اس ملک میں اپنا سکہ جمادیا اور زوالفقار علی
بھٹو کی شہادت سے دلبرداشتہ کارکنوں اور عوام کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کے روپ میں اس ملک کی عوام کے دکھ دررباٹنے
ان کے درمیان آچکی ہیں ،جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے عام
انتخابات کے نتیجے میں وہ اسی جدوجہد کے نتیجے میں مسلم دنیا کی پہلی خاتون
وزیراعظم منتخب ہوئی مگر ان کے والد کے خلاف انسانوں کی خدمت کرنے کے جرم
میں جن لوگوں نے رکاوٹیں کھڑی کی تھی وہ لوگ اب ان کی صاحبزادی کے جان کے
درپہ تھے وہ لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بھی اوچھی حرکتیں
کرنے سے باز نہ آئے ،محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار 1988میں اس ملک کی
وزیراعظم بنی اور اپنے پہلے ہی روزتاریخ ساز منصوبوں کا آغاز شروع کردیا
تھا دشمن جان چکا تھاکہ جس خاتون لیڈر کی جدوجہد کا آغاز ایسا ہوسکتاہے
تویہ اگر اپنے پانچ سال پورے کرگئی تو ملک میں دشمنی کی سوچ رکھنے والوں کے
حق میں اچھا نہ ہوگا لہذا ان ریاستی دشمنوں نے نت نئے حربوں سے محترمہ بے
نظیر کے اس اقتدار کو چلنے نہ دیا اور تقریباً20مہینوں میں ہی محترمہ کی
حکومت کو بے بنیاد الزامات میں پھنسا کر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے
اسمبلی کو برخاست کردیا،اس المناک واقعہ کے بعد بھی محترمہ بے نظیر بھٹونے
اپنے والد سے کیئے گیئے وعدوں کی تکمیل میں خود کو کمزور نہ ہونے دیا بلکہ
اپنی عظیم جدوجہد کو مزید تیز کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اﷲ پاک نے
انہیں ایک بار پھر سے اکتوبر 1993کے عا م انتخابات میں کامیابی دلواکر اس
ملک کا وزیراعظم بنادیااور پھر سے اس ملک کی عوام کی خدمت کا سفر جہاں سے
اپنے پہلے اقتدار میں چھوڑا تھا اسے شروع کردیا مگر اس ملک کے خلاف اپنا
مشن جاری رکھنے والے سازشی عناصر اس بار بھی اپنے گھٹیا طرز عمل سے باز نہ
رہ سکے اور اس عظیم خاتون کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدلنے کی سازشوں کو
نہ چھوڑا1996میں ہی گزشتہ حکومت کی طرح بے بنیاد الزامات لگا کر ان کی
حکومت کو ختم کروادیا گیااور بھرپور مزاحمت کے صلے میں انہیں ایک طویل
جلاوطنی کو بھی سہنا پڑا اور اس ملک سے دور رہ کر بھی انہوں نے اس ملک میں
جمہوری نفاذ کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھا اور ایک روز جب وہ ساڈھے آٹھ
سال کی جلاوطنی کے بعد جب وہ 2007میں 8اکتوبر کو کراچی میں پہنچی تو اس بار
ان کی اس عظیم جدوجہد کو پاکستان میں قدم رکھتے ہی ختم کردینے کا فیصلہ
کرلیا گیاتھا مگر قدرت کو شاید محترمہ بے نظیر بھٹوسے کچھ اور کام لینا
منظور تھا یعنی کراچی میں شدید دہشت گردی کے حملے کے باوجود وہ محفوظ رہی
مگر اس حملے سے پیپلزپارٹی کے درجنوں کارکنان اپنی جانوں سے چلے گئے اس
خوفناک حملے سے نہ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ میں کوئی فرق پڑااور نہ
ہی پیپلزپارٹی کے جانثار کارکنوں کے حوصلے کم ہوسکے محترمہ بے نظیر بھٹو
سمجھ چکی تھی کہ دشمن اب انہیں ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کرنے کے موڈ میں
نہیں ہیں لہذا انہوں نے کارکنوں کو اپنے پیغامات کے زریعے اس ملک کی
خوشحالی کے لیے پیپلزپارٹی کے منشور سے غریبوں کو بہترین زندگی کا درس دینے
کا عمل شروع کردیااور پھر ایک روز انہوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام کو
بڑی تعداد میں جمع ہونے کا کہا تاکہ وہ پیپلزپارٹی کی ان عظیم قربانیوں کا
زکر کرسکیں جو انہوں نے پاکستان اور اس میں بسنے والی عوام کے لیے دی تھی
لہذا 27دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر
سے خطاب کے بعد ان پر ایک بار پھر دہشت گردوں نے حملہ کردیا مگر اس بار وہ
جانبر نہ ہوسکی اور اپنے خالق حقیقی سے جاملی،زوالفقار علی بھٹو کی شہادت
کے بعد بھٹو خاندان پر کئی مصائب کا سامنا رہا محترمہ بے نظیر اور ان کے
بھائیوں کی شہادت نے بھی جمہوریت کے اس عظیم سفر کو ختم نہ ہونے دیا بلکہ
محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد 2008میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی بھاری
اکثریت سے کامیاب ہوئی اس بار مخدوم یوسف رضا گیلانی اس ملک کے وزیراعظم
اور آصف زرداری اس ملک کے صدر بنے ان وقتوں میں بھی پیپلزپارٹی تمام تر بے
بنیاد الزمات کے باوجود آگے بڑھتی رہی پیپلزپارٹی کے اس دور حکومت میں آصف
زرداری نے عوامی فلاح وبہبود کے لیے وہ کارنامے سر انجام دیئے کے جسے دیکھ
کر بڑے بڑے سیاستدانوں کی عقلیں دنگ رہ گئی ،انہوں نے اپریل 2010کو
اٹھارویں ترمیم منظور کرواکر تمام تر اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیئے
7نومبر 2009 کوگلگت بلستان کو خود مختاری دی ،صوبوں کو خود مختاری دینا ایک
عظیم کارنامہ تھا، بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام شروع کیااور اس کے
علاوہ بے پناہ کامیابیاں سمیٹی گئی پیپلزپارٹی کی حکومت سے دشمنی رکھنے
والوں نے اس بار بھی کوئی کثر نہ اٹھارکھی بلکہ اس دور میں بھی پیپلزپارٹی
کے دو وزرائے اعظموں کے خلاف بے بنیاد الزمات کا سلسلہ جاری رہا اور ان کو
اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑااس دور میں پیپلزپارٹی کے دشمنوں کو بری طرح
اس لحاظ سے شکست ہوئی کہ اس بار پیپلزرٹی نے نہ صرف اپنے پانچ سال پور ے
کیے بلکہ وہ نمایاں کارنامے سر انجام دیئے جس کی بدولت آج اس ملک میں
جمہوریت مظبوط ہوئی اور صدر کا وہ اختیار جو جب چاہے ایک منتخب وزیراعظم کو
گھر بھیج دیتا تھا وہ ختم ہوا ، مورخ اس بات کو جانتاہے کہ حالیہ 2018کے
انتخابات میں کیا ہوا ااور کیسے ہوا عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ اس بار
انتخابات اگر شفاف ہوتے تو اس ملک کا وزیراعظم کوئی اور نہیں بلکہ اسی بھٹو
خاندان کا وارث بلاول بھٹو زرداری ہوتا جو ہو بہو اپنے نانا اور اپنی والدہ
کے سیاسی نقشے قدم پر ہے جس کی رگوں میں عوامی خدمت کرنے کا خون دوڑ رہاہے
جو آج نہیں تو کل اس ملک کاوزیراعظم بنیں گے ،دوستوں اس تحریر میں جہاں
بھٹو خاندان کی انسانی خدمات کاتزکرہ ہے وہاں پیپلزپارٹی کے ان جیالوں کا
بھی زکر ہے جو نسل در نسل بھٹو خاندان کی کامیابی کے لیے ان کے ساتھ کھڑے
رہے 30نومبر کو پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس پھر سے سر پر آن پہنچاہے یہ وہ دن
ہوتا ہے جب ان ہی جیالوں کی محبت کو دیکھ کر تاریخ دان اپنے قلم کا رخ موڑ
لیتے ہیں کیونکہ یہ ہی یوم تاسیس تو وہ دن ہے جس کو رکوانے کے لیے دشمنوں
نے بھٹوخاندان کی نسلوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا مگر جب بھی ایسا ہوا تو
یہ ہی صدا ان کے کانوں سے ٹکرائی کہ"تم کتنے بھٹو ماروگے ہر گھر سے بھٹو
نکلے گا" آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔ |