باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا فرمان ہے،''میں نے
اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اﷲ تعالیٰ کوپہچانا''۔آپؓ کے ایک دوسرے قول
کامفہوم کچھ اس طرح ہے ،'' زندہ انسان کوزندگی میں کئی بارمفاہمت کیلئے
جھکناپڑتا ہے جبکہ لوگ مُردہ حالت میں اکڑجاتے ہیں''۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ
نے اپنے '' ارادوں'' کے ٹوٹ جانے سے اﷲ تعالیٰ کوپہچان لیا مگرہزاروں
بدنصیب پاکستانیوں نے ریاستی ''اداروں'' کی ٹوٹ پھوٹ اورملک میں بڑے پیمانے
پرلوٹ کھسوٹ کے باوجودخاندانی چوروں کے سیاہ چہروں کونہیں پہچانا،وہ کئی
دہائیوں تک چوری کے نوٹوں سے مقدس ووٹوں کی قیمت لگاتے اوراقتدارانجوائے
کرتے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں بعدملک میں تبدیلی کے آثارپیداہوئے تو نیب نے
کچھ چوروں سے اثاثوں کا حساب مانگا جس پرچمڑی اوردمڑی بچانے کی نیت سے
سیاسی انتقام کاشورمچادیاگیا۔ ایک مخصوص طبقہ کے نزدیک نیب پگڑیاں اچھالتا
ہے مگر میں توالٹاچوروں کونیب کامیڈیا ٹرائل کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ چوروں
کااستحقاق مجروح نہ ہواسلئے ڈی جی نیب شہزادسلیم ا نٹریونہیں دے سکتے مگر
نیب کے مطلوب ملزمان کو اس اہم ریاستی ادارے اوراس کے نیک نام چیئرمین جسٹس
جاویداقبال اور دبنگ ڈی جی شہزادسلیم کیخلاف بلیم گیم کی آزادی ہے۔ میں
سمجھتاہوں جس نے زندگی بھراپنا دامن کرپشن کے چھینٹوں سے بچایا ہووہ باربار
حفاظتی ضمانت کامحتاج نہیں ہوتابلکہ پراعتماد اورباوقاراندازسے اپناقانونی
دفاع کرتا ہے ،اُس کے چہرے کی ہوائیاں نہیں اڑی ہوتیں۔ ضمیر کے قیدی اورنیب
کے اسیر قیصرامین بٹ کا وعدہ معاف گواہ بنناان کا درست اوردوررس فیصلہ ہے
کیونکہ قیصرامین بٹ کو کئی دہائیوں تک استعمال اوران کااستحصال کیا گیا،ان
کے ساتھ جوجووعدہ کیاگیا ان سے کوئی ایک بھی وفانہیں ہوا،قیصرامین بٹ اپنی
روحانیت ،سخاوت اور پاکستانیت بچانے کیلئے وعدہ معاف گواہ بنے ہیں
۔مجاہدکامران سے لوگ اپنی صفائیاں دینے کی بجائے الٹا نیب کے ظلم وستم کی
دہائیاں دے رہے ہیں،موصوف کابارباریہ کہنا،''امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ
9/11کے حوالے سے اس کی کتاب کوبنیادبناکر اسے انتقام کانشانہ بنا رہے
ہیں''،'' کیا پدی اورکیا پدی کاشوربہ ''والی بات ہے ۔مجاہدکامران سمیت
بیسیوں افراد نے9/11پر کتب لکھی ہیں ،توپھرامریکہ انتقام صرف مجاہدکامران
سے کیوں لے گا۔مجاہدکامران یادرکھیں کتاب لکھنے سے نہیں بلکہ کردارسے انسان
کاقدآورہوتا ہے۔موصوف باربار ایکسٹینشن کیلئے مسلم لیگ (ن) کوجوخدمات فراہم
کرتے رہے ہیں ،نیب کچھ کرے نہ کرے تاریخ مجاہدکامران کامحاسبہ ضرورکرے گی ۔
میں نے اپنے کالم کے آغاز میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اقوال ''اہل
شعور''نہیں ''اہل شور'' کیلئے نقل کئے ہیں کیونکہ ان دنوں پاکستان میں
''یوٹرن''ہاٹ ایشوبناہوایابنادیاگیا ہے ،اپوزیشن قائدین یادرکھیں شعورکو
شوراورشر سے دبایانہیں جاسکتا۔وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں اپنے
سرکاری قصرمیں کالم نگاروں سے گفتگوکرتے ہوئے یوٹرن بارے وضاحت سے اپنا
موقف بیان کیا جس پرقومی سیاست میں ایک طوفان آگیا ،اتفاق سے میں بھی اس
گفتگومیں شریک تھا۔وزیراعظم عمران خان ہال میں داخل ہوئے توان کے چہرے سے
خوداعتمادی اورفرض شناسی جھلک رہی تھی جو ان کی خودداری کانتیجہ ہے۔عمران
خان زمینی آقاؤں کی بجائے اپناسر آسمانوں والے قادروکارسازآقاکے روبر
وجھکاتے ہیں اسلئے ان کی خودداری زندہ وتابندہ ہے۔ایک فون کال پر راہداری
اورہوائی اڈے امریکہ کے سپردکرنیوالے ''کمانڈو'' پرویز مشرف کوکئی
بارکہناپڑا ''میں کسی سے ڈرتاورتانہیں ہوں''،مگرڈٹ جانے کاوقت آیاتوموصوف
نے ملک چھوڑدیا جبکہ نڈر ''کپتان '' کی ڈونلڈٹرمپ کوبروقت شٹ اپ کال قومی
خودداری کیلئے نیک فال ہے۔جس طرح عزت دارلوگ دوسروں کوبھی عزت دیتے ہیں اس
طرح ایک خوددار انسان ہی مادروطن کی خودداری کاپہرہ دیتا ہے ۔وزیراعظم
عمران خان کی منفردمجلس کی طرف واپس آتاہوں،اس میں سینئر کالم نگاروں رحمت
علی رازی،ایازخان، محسن گورایہ، شمشاد مانگٹ، کنوردلشاد،میاں محمدسعید
کھوکھر ،علی احمدڈھلوں،عرفان اطہرقاضی،خالدقیوم ،منصورآفاق،علی رضاعلوی،
لقمان شریف اورجاویدشاہ کے چہرے دیکھے ،ان مانوس اورمحبوب چہروں کے پیچھے
مظہربرلاس کا''چہرہ'' نمایاں تھا،درحقیقت یہ مجلس سجانے کاسہر ا مظہربرلاس
کے سرتھا،یہ رازوزیراعظم عمران خان نے خودفاش کردیا۔وزیراعظم عمران خان نے
بذات خود مظہربرلاس کواس بزم کامحرک قراردیا ۔نبض شناس اورمردم شناس
مظہربرلاس کے کالم پڑھ کرسچائی تک رسائی کاراستہ ہموار ہوجاتا ہے،وہ پچھلے
کئی برسوں سے اپنے قلم کی نوک سے ایک ایک قومی چور کا'' چہرہ'' بے نقاب
اوراس کااحتساب کر رہے ہیں۔مظہربرلاس کے ہرکالم میں سچے پاکستانیوں کیلئے
امیداورنویدضرورہوتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی مختصر گفتگوکے بعدابتدائی
سوال مظہربرلاس نے کیا اورپھرسوالات کاسلسلہ شروع ہوگیا ۔قلم قبیلے
کے''لیڈر ''علی احمدڈھلوں نے سوالیہ اندازمیں چاروں صوبوں کے سول شہداء کی
فہرست تیارکرنے اوران کے ورثاء کی ویلفیئر کیلئے تجاویزدیں جوسن کروزیراعظم
نے خاصی سنجیدگی اور پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے اس پرفوری کام کرنے کاعزم
ظاہرکیا ۔ محبوب شاعر اور کالم نگارمنصورآفاق نے اپنے منفرد سوال سے کئی
اداروں پربراجمان ''پٹواریوں ''کے پرکاٹ دیے،منصورآفاق کی بات میں دم تھا
جس پروزیراعظم عمران خان کو وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے سٹاف کواحکامات صادرکر
ناپڑے ۔
میں یوٹرن کوکمزوری ،خامی یاگناہ نہیں بلکہ نظریہ ضرورت سمجھتاہوں کیونکہ
کامیاب زندگی کیلئے بار بار مصلحت پسندی اورمفاہمت کی ضرورت پیش آتی
ہے۔دشمن کے ساتھ سمجھوتہ اوراس کے روبروسرنڈر کرنے میں بہت بنیادی فرق
ہے۔اﷲ رب العزت نے قرآن مجیدفرقان حمید کی چندآیات منسوخ فرمادی تھیں
اوراپنا ایک فیصلہ بھی تبدیل فرمایاتھا،جس میں ایک صحابیہ سرورکونین حضرت
محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوئیں اوراپنامدعاعرض کیاجس
میں ان کے شوہرنے اپنی اہلیہ بارے کوئی قسم اٹھائی تھی'' توسراپارحمت ؐ نے
فرمایا اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کاحکم واضح ہے جس پران صحابیہ نے گریہ زاری
شروع کردی جس سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی او روہ فیصلہ تبدیل
کردیاگیا تھا۔امام جلال الدین ؒ نے قرآن مجید کی منسوخ آیات بارے ایک کتاب
بھی لکھی تھی۔ہمارے معبود برحق نے مختلف اوقات میں سرورکونین حضرت محمدصلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سیّدناحضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی گفتگو
،مشاورت یا خواہشات کے مطابق بائیس آیات نازل فرمائی تھیں،خواتین کیلئے
پردے کاحکم بھی ان بائیس آیات میں شامل ہے۔اﷲ تعالیٰ نے طلاق کو سخت ناپسند
فرمایا مگر شرعی طورپر ناگزیرصورت میں مردوزن کوتنسیخ نکاح یعنی یوٹرن کی
اجازت ہے ۔غلطی یاگناہ کی صورت میں'' رجوع'' کرنے کادروازہ کبھی بندنہیں
ہوتا،عمران خان نے بھی دین کی طرف رجوع کیا لہٰذاء ان کااپنے ماضی سے اب
کوئی تعلق نہیں رہا ۔ قومی اخبارات کے بچوں والے ایڈیشن میں''راستہ تلاش
کریں'' ضرورچھپتا ہے،کچھ بچپن اور کچھ پچپن میں بھی راستہ تلاش کرتے
ہیں۔راستہ تلاش کرتے ہوئے کئی بندگلیاں آتی ہیں ،اس گیم میں رکنایاہارماننا
نہیں بلکہ کامیابی سے راستہ تلاش کرنااورہدف تک پہنچنا اہم ہے ۔ انسانوں کی
زندگی میں کئی موڑاوریوٹرن آتے ہیں مگر کامیابی کیلئے طویل صبراور سفر کرنا
پڑتا ہے۔ تاریخ انسان اوراس کی منزل کے درمیان حائل فاصلے یایوٹرن نہیں
بلکہ فیصلے اوران کے نتائج یادرکھتی ہے۔اپنی اوراپنوں کی غلطیاں معاف
کرنابھی یوٹرن ہے،یقینا ایک دوسرے کو درگزرکئے بغیرکوئی رشتہ زندہ نہیں رہ
سکتا۔اگراسلامی تعلیمات اورقرآن مجید فرقان حمید کی آیات پراجتہادہوتا آیا
ہے اورآئندہ بھی ہوتا رہے گاتوپھر ہماری گندی مندی سیاست کی کیا اوقات
ہے۔سیاست بچانے یاچمکانے کیلئے ریاست کوداؤپرنہیں لگایاجاسکتامگر ریاست
کیلئے ہزاربارسیاست قربان کی جاسکتی ہے،ہم میں سے کسی کی شخصیت،سیاست
یاتجارت ریاست سے مقدم نہیں ہوسکتی۔سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے سوا کوئی انسان کامل نہیں ، بحیثیت طالبعلم ہم باربار غلطیاں کرتے
اوران سے سیکھتے ہیں لہٰذاء غلطی تسلیم کرناعظمت ،اسے سدھارناحکمت جبکہ اس
پرڈٹ جانا انتہائی ہٹ دھرمی ،بے شرمی اور بدترین جہالت ہے۔ انسان کی
تقدیراُس قدیراورقادر نے لکھی جوبڑارحمن اورکارساز ہے۔معبودبرحق اپنے بندوں
کی اداؤں اوردعاؤں کی بدولت ان کی تقدیرتبدیل کرنے پرقدرت رکھتا ہے۔ہم
انسان اپنی اپنی تقدیر کے اسیر ہیں ،ہمارے پاس صرف دعا،تدبراورتدبیر
کاراستہ ہے،تقدیر پراختیار کادعویٰ یااس سے چھیڑچھاڑکرناہمارے بس کی بات
نہیں۔اِنسان کاتکبر اسے تدبرسے روکتا ہے جبکہ اناپرست فناہوجاتے ہیں۔ماضی
کے حکمران تکبر کی راہ یعنی تاریک راہوں پرگامزن تھے جبکہ وزیراعظم عمران
خان نے تدبراورتدبیر کاراستہ منتخب کیا ہے،انہوں نے آج تک سیاستدان ہونے
کادعویٰ نہیں کیامگر اس کے باوجود انہوں نے تنہا بڑے بڑے سیاسی برج الٹادیے
ہیں۔22برس کی انتھک جدوجہد کے بعدوزیراعظم منتخب ہونااورہم وطنوں کامحبوب
بننامعمولی واقعہ نہیں۔اپنی ذات اوراپنے نجی مفادات کیلئے ضد کی جاسکتی ہے
لیکن ریاست کیلئے بروقت، درست اوردوررس فیصلے کر نے پڑتے ہیں۔عمران خان نے
جس طرح پارلیمنٹ میں آگے بڑھ کرآصف زرداری ،بلاول زرداری اورشہبازشریف سے
مصافحہ کیا تھا اس طرح انہیں اپنے بھائیوں سعیداﷲ خان نیازی ،حفیظ اﷲ خان
نیازی اورانعام اﷲ خان نیازی کی طرف بھی قدم بڑھاناچاہئیں ،پاکستان کی طرح
خاندان کیلئے بھی یوٹرن لیا جاسکتا ہے۔سعیداﷲ خان نیازی ،حفیظ اﷲ خان نیازی
اورانعام اﷲ خان نیازی سے بھائی اوربازوہرکسی کونصیب نہیں ہوتے۔بزرگ
اورزیرک سیاستدان سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ اورسینئر پارلیمنٹرین
رانانذیراحمدخاں کوبھی وزیراعظم عمران خان کے'' پانچ پیاروں'' اوران کی
مشاورتی ٹیم میں ہوناچاہئے۔پی ٹی آئی سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ اور
رانانذیراحمدخاں سے مخلص ومدبرسیاستدانوں کے ضیاع کی متحمل نہیں ہوسکتی
۔اپوزیشن کے بدنام کرنے سے وزیراعظم عمران خان ہرگز ناکام نہیں ہوں
گے،انہیں حالیہ بیرونی دوروں میں بہت عزت،نصرت اورمزید شہرت ملی۔عمران خان
سے کئی غلطیاں بھی سرزدہوئی ہیں لیکن پھر وہ اچانک کچھ ایساکرگزرتے ہیں
جوکام انہیں مزیدشہرت کی بلندیوں پرلے جاتا ہے،عمران خان جہاں دنیا بھرمیں
مقبول ہیں وہاں بحیثیت وزیراعظم ان کا ملک وقوم کیلئے معقول ہونابھی قابل
رشک ہے۔عمران خان نے ماضی میں بھی کئی بار بدترین حالات کے باوجودبہترین
رزلٹ دیاہے۔ جومٹھی بھرمایوس لوگ عمران خان کے حالیہ بیرونی دوروں اوردوست
ملکوں کی طرف سے مالی مددکوہدف تنقید بنارہے ہیں وہ اس کاکوئی متبادل آپشن
بھی تجویزکریں یااپنے نجی بنک اکاؤنٹ سے ۔
حضرت اقبال ؒ ایک منفرد شعر کی صورت میں اپنے شاہین کا تصور کچھ یوں بیان
کرتے ہیں
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کرجھپٹنا
لہوگرم رکھنے کاہے اک بہانہ
تقدیرکئی بارہمیں بندگلی میں لے جاتی ہے اورہمارے پاس وہاں سے فوری واپس
پلٹ جانے کے سوادوسراکوئی چارہ نہیں ہوتا ۔انسان کے ہرفیصلے میں بہتری
کیلئے تبدیلی کاامکان موجودہوتا ہے۔ عمران خان مسلسل اپنی ''نیک نیتی'' کے
بل پر متحدہ اپوزیشن کی'' راج نیتی'' کو نابودکرہے ہیں۔متحدہ اپوزیشن کی
طرف سے منتخب وزیراعظم عمران خان پرکیچڑاچھالنا ان کی سیاسی ضرورت ہے مگر
قدرت کپتان پر بہت مہربان ہے،عمران خان مسلسل کامیابیوں کے جھنڈے گاڑرہے
ہیں۔ اپوزیشن کے پروپیگنڈا مشن سے عمران خان کاگراف گرنے لگتا ہے مگر پھر
اگلے ہی پل وہ عزت اورشہرت کاایک نیا آسمان چھورہے ہوتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ
کوکپتان نے جس دبنگ انداز سے کراراجواب دیااسے اندرون وبیرون ملک بہت
سراہاگیا۔عمران خان میں گویااوورسیزپاکستانیوں کی جان ہے۔اپوزیشن قیادت
اپنے مدمقابل کپتان کے ہاتھوں شکست کی خفت مٹانے کیلئے باربار ذاتیات
پراترآ تی ہے۔ایک وقت تھامیاں نوازشریف عمران خان کومسلم لیگ (ن)
کاامیدوارنامزدکرنے کیلئے بیقرارتھے مگرکپتان نے انکارکردیا،بعدازاں عمران
خان نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاست کاآغازاور سیاسی مافیازکوچیلنج کیا
تو اس وقت سے اب تک عمران خان کو کیا کچھ نہیں کہا گیا،مسلم لیگ (ن)نے بے
نظیر بھٹو سے زیادہ عمران خان کا''میڈیاٹرائل'' کیا جبکہ قدرت کا فیصلہ
دیکھئے آج خالی شریف برادران نہیں بلکہ پورے شریف خاندان کو''عدالتی
ٹرائل'' کاسامنا ہے،سابقہ حکمران خاندان کی کچھ ہستیاں پیشیاں بھگت رہی ہیں
تونوازشریف کابڑااورچھوٹابیٹامفروراور اشتہاری ہے۔ماضی کی بات ہے میاں
نوازشریف اوربے نظیر بھٹو ایک دوسرے کوسکیورٹی رسک ،چوراورغدارکہا کرتے تھے
لیکن عمران خان کواس بات کاکریڈٹ دیناہوگاکیونکہ انہوں نے اِس دیرینہ سیاسی
عداوت بلکہ دشمنی کواُس وقت دوستی میں بدل دیاجب لندن میں ان کے درمیان
میثاق جمہوریت پرسمجھوتہ ہوا،اس ''مذاق جمہوریت'' کابنیادی ہدف پرویزمشرف
کوقصرصدارت سے نکالنا جبکہ کرپشن سے قوم کی بیزاری اور سیاسی بیداری کیلئے
سرگرم عمران خان کاراستہ روکناتھا ۔ اب تک ان کیخلاف متحدہ اپوزیشن کی
ہرچال بری طرح ناکام ہوئی ہے،عمران خان کو قوم یہودکاایجنٹ قراردیاگیا تواﷲ
رب العزت نے انہیں ''بیت اﷲ'' کے اندر عبادت کرنے کی بیش قیمت سعادت اوربے
پایاں عزت بخش دی ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں'' شعور''کو''شور'' کی نفرت
،مذمت اور مزاحمت کاسامنا ہے۔جاہل کے پاس دلیل نہیں ہوتی اسلئے وہ اپنے
مدمقابل کوذلیل کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھاتاہے ۔میں نے ایک کالم میں
لکھا تھا ،''ان پڑھ ہونانہیں بلکہ حق کاانکارجہالت ہے''۔آج بھی ہمارے
معاشرے میں بو نوں سمیت ہرحجم کے فرعون اور ابوجہل تلاش کئے بغیر مل جاتے
ہیں۔نان ایشوز کی سیاست نے اپوزیشن کی پوزیشن کو بدسے بدتر کردیا۔ |