یہ مدینہ منورہ ہے،پیارے نبی محمد کریم ﷺ کا شہر،یہاں
دوسرے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ متمکن ہیں۔زمانے کی سپر
پاورز زیرنگیں ہو رہی ہیں لیکن جہاد فی سبیل اﷲ کے راہی اور شہسوار ذمہ
داری خلافت کی وجہ سے مدینہ چھوڑنے سے قاصر ہیں اور دنیا سے جانے میں شہادت
کی تمنا ہے کہ چین نہیں لینے دیتی۔ شہادت ملے اور وہ بھی اسی شہر میں اور
اﷲ کی راہ میں ،اسی آرزو کے ساتھ انہی حالات میں اﷲ سے دعا کرتے: ’’اللھم
ارزقنی شھادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد رسولک‘‘(بخاری) ’’اے اﷲ! مجھے
اپنے راستے میں مقام شہادت عطا فرما،اور اپنے رسولؐ کے شہر(مدینہ)میں مجھے
موت عطا فرما‘‘ پھر آسمان نے عجب منظر دیکھا کہ اﷲ نے ان کی یہ دعا بھی
پوری کی اور وہ مدینہ میں خلعت شہادت سے سرفراز ہو کر پہلو رسول ﷺ میں
آسودہ خاک ہو گئے۔
یہ واقعہ آج تب یاد آیا جب داعی جہاد اور محافظ پاکستان مولانا سمیع الحق
82سال کی عمر میں اپنے گھر میں اسی شہادت سے سرفراز ہو گئے جس کی وہ
اکثرتمنا کیا کرتے تھے۔ اپنی مجالس و محافل میں وہ اکثر یہ کلمات ارشاد
فرماتے کہ اﷲ موت عطا فرمائے تو شہادت کی۔اب اس پیرانہ سالی اورضعف عمری
میں راہ جہاد فی سبیل اﷲ میں تو وہ جا نہیں سکتے تھے لیکن اﷲ نے ان کی
خواہش کو کیسے پورا کر دیا ۔بلا شک و شبہ ان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ
انتہائی جگر پاش ہے جس نے پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کو بھی زخمی زخمی کر
دیا۔جس نے بھی یہ خبر سنی ،ایک بار تو دہل کر رہ گیا۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں
کی جیسے حرکت ہی رک گئی۔ اس سانحہ دلفگار نے جہاں تاریخ میں حضرت عمر فاروق
رضی اﷲ عنہ کی یاد کو تازہ کیا وہیں خلیفہ ثالث حضر ت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ
کی شہادت کی تاریخ کو بھی جیسے دہرا وہ گیا۔آج کے اس ترقی کے دور میں جہاں
قتل و قتال کے گولی ، بم ،بارود اور کیا کیا جدید سے جدید ہتھیا ر استعمال
ہو رہے ہیں،مولانا کی شہادت چھریوں کے وار کرکے ہوئی،ویسے ہی جیسے حضر ت
عثمان رضی اﷲ عنہ کو گھر میں دشمنوں نے نماز عصر کے بعد شہید کر ڈالا
تھا۔حیران کن بات یہ بھی کہ جتنی عمر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی تھی لگ بھگ
اتنی ہی عمر مولانا سمیع الحق کو اﷲ نے عطا فرمائی۔
کتنے شقی القلب اور کتنے کریہہ دماغ والے تھے قاتلین عثمان اور یہی حال
یہاں تھا۔ یہ بات انسانی سوچ سے بالا تر ہے کہ ایک بوڑھے و نحیف و بیمار
شخص پرچھریاں چلانے والوں کے سینے میں دل تھا بھی کہ نہیں، بلکہ دل تو یہ
بھی ماننے کو تیار نہیں کہ ایسا فرد انسان بھی ہو سکتا ہے کہ نہیں۔ ایسا
انسان جس نے ساری زندگی دنیا میں اﷲ کے نام کا آوازہ بلند کیا اور اسی کی
سربلندی کے لئے لڑتا رہا،جس سے کسی مسلمان کی تو کوئی دشمنی ہو ہی نہیں
سکتی تھی کہ وہ سب اہل اسلام کے لئے بریشم کی طرح نرم تھا۔ ہاں! وہ دلِ
شیطان میں کانٹے کی طرح ضرور کھٹکتا تھا کیونکہ وہ اس عالم سے شیطان کی
حکمرانی کے خاتمے کی جدوجہد کا علمبردار تھا۔جب تک جیتا رہا، اسی کی خاطر
اسی راہ میں جیتا، اسی میں پاؤں غبار آلود کرتا رہا اور جب رخصت ہوا تو اسی
آبلہ پائی میں عازم سفر ہو گیا۔نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو والے مولانا
سمیع الحق نے کبھی بیماری یا تکلیف کی بات کی نہ کبھی تن آسانی کی۔اس عمر
میں اس دن اس لمحے جب وہ رخصت ہوئے تب بھی سب کچھ اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے
وقف کر رکھا تھا اور حرمت رسولﷺ کے دفاع میں پیش پیش ایک پروگرام سے آکر
دوسرے میں جا رہے تھے کہ راستے بند پانے پر واپس لوٹ آئے اور استراحت کرتے
اﷲ کے حضور ہمیشہ کے آرام کے سفر پر روانہ ہو گئے۔
ان سے میل ملاقات اور تعلق و قربت کی کہانی تب شروع ہوئی جب وہ 2001ء میں
لاہور جامع مسجد القادسیہ میں تشریف لائے۔ ہونٹوں پر ہلکی مسکراہت سجائے
اور زبان پر دین کے غلبے کی داستاں لئے، پھر انہیں ہر وقت ہر جگہ متحر ک و
مستعد ہی دیکھا اور پایا۔دفاع پاکستان کونسل کا جب2010ء میں احیا ہوا تو اس
کے بعد ملک کے کونے کونے میں ہونے والے ہر پروگرام میں وہ سب سے آگے نظر
آتے۔جہاں جوانوں کے جذبے ماند پڑ جاتے وہاں وہ سرگرم دکھائی دیتے۔ تحفظ
نظریہ پاکستان کی بات ہو یا مقبوضہ جموں کشمیر وافغانستان جیسے اسلامی خطوں
میں امن کا معاملہ، ہر موقع پر انھوں نے اپنا موقف ببانگ دہل واضح کیا۔شہید
سب سے بڑھ کر امن پسند ،دیانتدار ،دردمند، مخلص اور محب وطن شخصیت تھے، وہ
جو عمر کے آخری حصے میں تھا…… مگر اسکے عزم جواں تھے، جو بوڑھا تھا لیکن
تھکا نہیں تھا۔ وہ جو ایک چٹان تھا اور کسی بھی لالچ پرپگھلانہیں تھا۔وہ جو
پاکستان کے لئے کھڑا تھا،کبھی بکا نہیں،کبھی جھکا نہیں تھا۔جس کے عزائم کی
بلندی کی دنیا معترف تھی۔ہزاروں علمائے کرا م کا استاد اور روحانی باپ تھا۔
ہاں وہ ایک شجر سایہ دار تھا۔اسکا قصور تھا تو فقط اسلام اور پاکستان سے
محبت۔وہ جو ہمیشہ اتحاد واتفاق کی بات کیا کرتا تھا۔ایک حلیم الطبع انسان
عمر کے اس حصے میں بھی اتحاد مسلم کا علمبردار اوراپنے کاز کے لیے انتھک
محنت کرتا رہا کبھی حالات اسے بیٹھنے پر مجبور نہ کرسکے۔آج ایک عہد تمام
ہوا ہے۔ایک تاریخ کا باب بند ہوا ہے۔ ایک علم کا سرچشمہ رک گیا ہے۔ایک
روحانی باپ بچھڑا ہے۔ہاں وہ شخص جو ہمیشہ محبت کا درس دیتا رہا۔آج ظلم و
درندگی کی نذر ہوگیا۔وہ جو سراپا رحم تھا…… آج قصہ ماضی بن گیا۔آج اس شعرکی
حقیقی تشریح و معانی کاادراک ہورہا ہے جو بہت بار سنا ،بہت بار پڑھا لیکن
اس کی عملی شکل و تعبیر تو اس بار ہی دیکھنے کو ملی
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا
یہی وہ ویرانی تھی جو اکوڑہ خٹک کے باسیوں کے دل چیر رہی تھی اور جب ان کا
جسد خاکی وہاں پہنچا تو کئی کلومیٹر پر پھیلا لاکھوں کا ایک ہجوم جہاں ان
کے لئے مغفرت و بلندی درجات کی دعائیں کر رہا تھا وہیں لگتا یوں تھا کہ
جیسے یہاں آئے فرد کے اپنے قلب و جگر پروہ چھریاں ویسے ہی چلی ہیں جیسے
مولانا کا جسم لہو میں تربتر اور زخموں سے چھلنی ہوا تھا۔یہ زخم اب تک کسی
کا نجانے کب تک تعاقب کرتے اور انہیں اسی طرح خون آلود کرتے رہیں گے۔
مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کا یہی کہنا تھا کہ افغان
حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو
امریکہ کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ ہمیں ملکی خفیہ اداروں نے بھی کئی
بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔
ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں،وہی
طاقتیں اس قتل میں ملوث ہیں۔ ہم نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے
حوالے سے آگاہ کر دیا تھا، جبکہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی سخت
کر دی گئی تھی لیکن مولانا صاحب سکیورٹی پسند نہیں کرتے تھے۔ سچ بھی یہی ہے
کہ سادگی کا مرقع مولانا شہید کے ساتھ دوستوں کے علاوہ کوئی سکیورٹی اہلکار
نہیں ہوتا تھا۔
اس جہاں سے جانا سب نے ہے لیکن جس انداز سے مولانا اس جہاں سے رخصت ہوئے وہ
المناک بھی ہے تو حسرت انگیز بھی، کہ اﷲ ایسے ہی دین کا علم اٹھاتے اسی راہ
میں یوں ہی دنیا سے لے جائے اور جب یہ بندہ اﷲ کے حضور ایسے زخموں سے چور
کھڑا ہو تو اﷲ دیکھ کر مسکرا دے اور پھر اپنے اور اپنے نبی ﷺ کے وعدوں کے
مطابق پاس کر کے ہی نہیں بلکہ 70لوگوں کی سفارش کا بھی اعزاز عطا کر کے
بغیر حساب جنت میں داخل کر دے۔
قبائے نور سے سج کر لہو سے با وضو ہوکر
وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنے سرخرو ہو کر |