کون ذمہ دار۔؟

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے اسکی نوجوان نسل بہت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے پاکستان کیلیے بھی اسکی نوجوان نسل بہت اہمیت رکھتی ہے اس وقت پاکستان دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،بے روزگاری کے ساتھ ساتھ نا اتفاقی کا بھی شکار ہے پاکستان کے حالات ہر وقت ہی کسی نہ کسی مسئلہ سے سے دوچار رہتے ہیںایسے میں پاکستان کو ان تمام مشکلات سے نکالنے کی بھاری ذمہ داری ہماری نوجوان نسل پر آجاتی ہے پاکستان جتنے بھی مسائل سے دوچار ہے انکے سامنے کے لیے ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو ترقی کرتے دیکھنے کی لگن بھی رکھتے ہوں ایسے ہی نوجوان ہمیں ان اندھیروں سے نکال کر ترقی کی راہوں پر لے جا سکتے ہیں اور اسی لیے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت بہت ہی ضروری ہے کوئی بھی ملک بغیر تعلیم اور جستجو کے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ہے۔

اسی لیے اگر کوئی ملک ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی نوجوان نسل کو بہترین تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو منوانے کے لیے بھی مواقع فراہم کرنے چاہیںتاکہ ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ و ہمت پیدا ہو مگر پاکستان کا تعلیمی نظام بہت سی مشکلات کا شکار ہے آج کل ہر گلی کی نکڑ پر سکول اور کالج تو کھل گئے ہیں بڑی بڑی عمارات پر تعلیمی اداروں کے بڑے بڑے بوڑد تو نظر آنے لگ گئے ہیں مگر اگر ان تعلیمی اداروں کا معیار اگر دیکھا جائے تو وہ دوسرے ممالک سے بہت ہی پچھے ہیں اور کسی بھی طرح سے اس لائق نہیں ہیں کہ نوجوانوں کو اچھی تعلیم فراہم کر سکیں۔

یہ تعلیمی ادارے نوجوانوں کو صرف اور صرف رٹا لگانا اور اپنا جی پی اے کے پچھے بھگنا ہی سکھا رہے ہیں یہ ادارے کیسے نوجوانوں کی تربیت کریں گے جب ان کے پاس نہ تو وہ استادہ ہیں جو سیکھا سکیں اور نہ ہی ذہنو ں کو تعمیر کرنے والی کتابیں ان اداروں سے نوجوانوں کو تعلیم کے نام پر صرف اور صرف ڈیٹا ہی مل سکتا ہے علم نہیں۔ماں باپ کے بعد ایک استادہ ہی ہوتا ہے جو کہ ان نوجوانوں کو بنا یا بگاڑ سکتا ہے مگر آج کل کے زمانے میں استادہ ہو یا ماں باپ ہر کرئی نوجوانوں کو صرف اور صرف اپنا جی پی اے بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے رٹا لگا کراولاد کے اچھا جی پی اے لینے پر والدین خوش تو بہت ہو جاتے ہیں۔

مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جس اولاد کو انہوں نے سیکھایا ہی رٹا ہے تو وہ کیونکر ترقی کر پائیں گے کیسے وہ خود میںکچھ نیا کرنے کی ہمت جوٹا پائیں گے ان کی اولاد ،اس ملک کا مستقبل وہ نوجوان لکیر کا فقیر ہی بن جائے گا اور کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گا یہی نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ایک ایسا نوجوان جو کہ رٹا لگا کرتو اپنا جی پی اے بڑھا لیتا ہے وہ انٹرویو میں ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ اچھی نوکری جس کا وہ اور اسکے والدین خواب دیکھتے آئے ہیں حاصل نہیں کر پائے گا۔

نوکری کے حصول میں ناکامی ،معاشی ناہمواریاں ،بدعنوانیاںاور نا انصافیاں یہ سب ایسے اسباب ہیں جو مل کر نوجوانوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں اور جب نوجوانوں کو بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ منفی فکر وانداز اپنا لیتا ہے جو کہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ اس کے اپنوں کے لیے بھی ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں ۔ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو ہی ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی تعلیم وتحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلیں مگر ہمارے ملک میں ترقی کی اس دوڑ میں پیسے کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور علم کو کہیں بہت ہی پچھے چھوڑ دیا گیا ہے نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک ہی بات ڈالی جا رہی ہے کہ ترقی کا معیار صرف اور صرف پیسہ ہی ہے۔

اگر اسے خوشحال زندگی گزارنی ہے تواسے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانہ چاہیے مگر یہی پیسہ کبھی بھی ان نوجوانوں کووہ خوشی اور سکون حاصل نہیں ہو سکتا جو کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کر کے اور اسے خوشحال اور ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر حاصل کر سکتے ہیں پیسہ ضروری ہے مگر اپنے ملک سے محبت اور وفاداری پیسہ کے ذریعہ نہیں حا صل کی جا سکتی ہمارے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت و حالات کے آگے سینہ پہر ہوں کیونکہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں لڑیں جائیں گی۔

بلکہ ایک ماک دوسرے ملک کومعاشی شکست سے دوچار کرنے کہ لیے پر تول رہا ہے جاس لیے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اپ نے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کریں جو کہ پاکستان کے مالیاتی ،معاشی اقتصادی شبعہ کو اتنا مضبوط بنا دیں کہ پاکستان کسی بھی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔

ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ نوجوانوں کو پیشہ کمانے والی مشین بنانے کی جگہ ایک محب الوطن شہری بنانے پر زیادہ زور دے ۔حکومت کو نوجوانوں کو تمام بنیادی سہولیات اور ترقی کے بہترین مواقع فراہم کر نے چاہییں جن کے ذریعہ ہمارے یہ نوجوان نہ صرف ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزان ہو سکیں بلکہ اپنے ملک کے لیے بھی فخر کا باعث بنیں۔

Anum Abdullah
About the Author: Anum Abdullah Read More Articles by Anum Abdullah: 6 Articles with 5662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.