خواب چنُو ! تعبیر کرو!
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیم سے فارالتحصیل طلبہ و طالبات لے لیے مستقبل کا لائحہ عمل) |
|
راجہ محمد عتیق افسر ایگزیکٹو کوآرڈینیٹر لائف اینڈ لیونگ، شعبہ اسلامیات ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد 03005930098 [email protected]
وطن عزیز پاکستان میں ثانوی اور اعلی ثانوی جماعتوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات امتحانات سے فارغ ہو چکے ہیں اور اب نتائج کے انتظار میں ہیں ۔ انہیں اپنے مستقبل کی فکر تو لاحق ہوتی ہے اور یہ سہانے خواب بھی دیکھتے ہیں لیکن امتحانات کے بعد تمام تر وقت تفریح طبع میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ان کی زندگی کا قیمتی وقت ہوتا ہے اور اس وقت کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سکول میں داخلے کے دوران رجحان کی جانچ کی جائے اور ابتدائ سے ہی بچوں کی تعلیم اسی نہج پہ ہو تاکہ انہیں بعد میں فکر نہ ہو لیکن اس طرف ہمارے ارباب اختیار نے کبھی توجہ نہیں دی ۔ اس صورتحال میں طلبہ و طالبات کی رہنمائی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے ۔ روزگار سے متعلق رہنمائی (Career Counseling ) کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کی بروقت رہنمائی فرمائیں ۔ عام طور پر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد حصول روزگار کو گردانا جاتا ہے جو انتہائی تنگ زاویہ نظر ہے ۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو تعلیم کا مقصد محض حصول روزگار نہیں بلکہ خود کو انسانیت کے لیے ایک مفید فرد بنانا ہے ۔ دینی تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو بھی حصول علم کا مقصد معرفت الٰہیہ کا حصول اور دین و دنیا کی فلاح کا حصول ہے ۔علم کے ذریعے معرفت ، کسب حلال کے ذریعے قرب الٰہی، حاصل ہوتا ہے ۔ انسان علم کے ذریعے باعمل اور مال کے حصول اور اسکے صحیح راستے پہ خرچ کرنے سے قوی مومن بن جاتا ہے جو اللہ کو بہت محبوب ہے ۔ہمارا استبدادی نظام تعلیم ان اعلٰی مقاصد کے حصول کے بجائے قوم کے شباب کو کے طور پر تیار کر رہا ہے ۔اس نظام تعلیم سے مادہ پرست اور ذہنی غلام ہی تیار ہوتے ہیں جوفلاح انسانیت کی ظاطر آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔والدین کے پسندیدہ پیشے کا اختیار کرناایک بہت بڑی وجہ ہے ۔ اکثر والدین بچوں کے ذہن میں یہ بات انڈیل دیتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم حاصل کر کے افسر بننا ہے، ڈاکٹر بننا ہے وغیرہ ۔پیشے کے اختیار کو بچے کے رجحان پہ چھوڑنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ذہن اور استعداد کے مطابق درست فیصلہ کر سکے۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کامیابی کا جو تصور آپ کے ذہن میں ہوگا وہی کامیابی ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز کامیابی نہیں ہوتی ۔کبھی ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک دفعہ کسی سکول میں دوڑ کا مقابلہ ہو رہا تھا ۔ تمام افراد کے ذہن میں ایک طالب علم کا نام تھا جو ہر مقابلے میں اول انعام لیتا تھا ۔ اس بار بھی وہ تمام لوگوں کے لیے مرکز نگاہ تھا لیکن وہ خود اس بار دوسرے نمبر پہ آنا چاہتا تھا کیونکہ دوسرے نمبر پہ آنے والے کے لیے جوتوں کا انعام تھا جو اس کی چھوٹی بہن کو بہت پسند تھے ۔ جب دوڑ شروع ہوئی تو اس طالب علم نے خود کو دوسرے نمبر پہ رکھنے کی کوشش کی لیکن دوڑ کے اختتام پر وہ آگے نکل گیا اور اول آگیا۔ لوگون نے اسے کنھوں پہ اٹھا لیا لیکن وہ بری طرح رو رہا تھا ۔ اصل میں لوگ اسے کامیاب سمجھ رہے تھے لیکن وہ اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا اس لیے وہ رو رہا تھا۔ کسی ایک فرد کو اپنے پیشے میں کامیاب دیکھ کر معاشرے کے دیگر افراد بھی اپنے بچوں کو اسی شعبے کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ اس بھیڑ چال کی وجہ سے جلد ہی وہ شعبہ افراد کار سے بھر جاتا ہے اور پھر لوگ ڈگریاں ہاتھوں میں لیے روزگار کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں ۔طب اور انجنئیرنک کی جانب جھکاؤ ایک المیہ ہے کیونکہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے طبیب (ڈاکٹر ) یا مہندس(انجنئیر) بنیں اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ دوڑ لگتی ہے اور لائق افراد انہی دو شعبوں میں چلے جاتے ہیں ۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ یہی لائق افراد ہر شعبے میں ہوں ۔ بیرون ملک ملازمت کے متوقع مواقع بھی ذہنی انتشار کا سبب بنتے ہیں ۔طلبہ کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جوجلد از جلد دولت کمانے کی خاطر بیرون ملک چھوٹی موٹی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں اور تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو اچھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود یہاں مناسب روزگار نہ پاکر بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح یہ روش ذہنی انخلاء (برین ڈرین) کاسبب بن رہی ہے ۔ قابل اذہان دیگر اقوام کی تعمیر و ترقی کا سبب بن رہا ہے اوریہاں مزید مایوسی پھیل رہی ہے ۔سرکاری ملازمت کی چکاچوند بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ لوگ سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے سرکاری ملازم اختیار کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شعبوں میں کام کم اور فوائد زیادہ نظر آتے ہیں ۔یہ رویہ بھی افراد سے محنت کا جذبہ سلب کر کے انہیں تساہل پسندی کی جانب دھکیل دیتا ہے ۔ ہمیں مستقبل کی فکر کرنے سے پہلے اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ڈھیروں راستے اور مواقع موجود ہیں ،تمام ہی انتخاب برابر و یکساں ہیں اور ایک دوسرے کے مقابلے کے ہیں،ہر کسی کو چاہیے کہ اپنی شخصیت ، تعلیم اور خواہش کے مطابق ذریعہ معاش کا انتخاب کرے،جذبہ نہ تو کسی کے اندر انڈیلا جا سکتا ہے نہ ہی کسی سے نقل کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی شعبے کو اختیار کرنے سے قبل خود کو اپنی پسند اور اپنی ترجیحات کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت دیجیےاپنے مستقبل کی فکر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کام ضرور کیجیےخود شناسی کیجئے ، کود کو ٹٹولیں اپنے اندر چھپی مہارتوں کو تلاش کریں ، اپنے وسائل اور شخصیت کا جائزہ لیجئے۔اسکے بعد امکانات کا جائزہ لیجئے اور دیکھیے کہ کون کون سے شعبہ جات آپ کی شخصیت سے مطابقت رکھتے ہیں ۔اپنے لیے اہداف مقرر کریں ، اس کے لئے منصوبہ بندی کریں اور دیکھیں کہ اس راستے میں کیا مشکلات درپیش ہیں ۔اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں اور اس شعبے کے لیے جو ضروری ہے وہ سیکھیں اور مشکلات کو عبور کریں ۔اس کا تعین کرنے کے لیے خیال رکھیں کہ آپ کا ماحول ، جہاں آپ رہتے ہیں وہ کیسا ہے ،آپ کی تعلیم کیسی ہے،آپ کی مہارتیں (سکلز) کتنی اور کیسی ہیں ؟(مواصلت کی مہارتیں (کمیونیکیشن سکلز)،مسائل کا حل نکانے کی مہارت(پرابلم سالونگ سکلز)،اجتماعی کام (ٹیم ورک)،حسابی مہارتیں (کمپیوٹنگ)،تنظیمی مہارتیں (آرگنائزنگ سکلز)۔آپ کی دلچسپی کے امور (تخلیقی کام،سماجی کام،گھر سے باہر کی سرگرمیاں تحقیقی و علمی کام)کیا ہیں ؟آپ کی اقدار کیسی ہیں ؟ اور آپ کی اپنی شخصیت کیسی ہے ؟ زندگی میں ایک نصب العین متعین کیجیے، اس مقصد کے حصول کے پیچھے ایک خواب ہوگا، اس خواب کو اپنے دل کے اندر موجود جذبے کے ساتھ نکھاریے تو آپ کے لیے امکانات کے دروازے کھل جائیں گے۔اپنی امنگوں، امیدوں اور خوابوں کی طلسماتی قوت پہ یقین کرنے کے لیے آج ہی اپنے بہتر مستقبل کا انتخاب کیجئے ۔موجودہ دور میں انسان دو طرح سے اپنی زندگی کو بنا سکتا ہے یا تو وہ تعلیم کے زریعے اپنا مستقبل بنا سکتا ہے ہا اپنی صلاحیت ، قابلیت اور مہارت کی بنیاد پہ اسے استوار کر سکتا ہے ۔ اس طرح اس کے سامنے دو راستے ہی ں جن میں سے سکی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا ۔ 1. مبنی بر تعلیم مستقبل 2. مبنی بر قابلیت / مہارت مستقبل اگر آپ کسی ایسا مقصد زندگی رکھتے ہیں جس کے حصول کے لیے آپ کے لیے حصول تعلیم لازم ہو تو آپ کو مبنی بر تعلیم مستقبل کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے اور اگر آپ اپنی صلاحیت مہارت پہ بھروسہ رکھتے ہیں تو آپ کو مبنی بر قابلیت مسقبل کے آفاق پہ اپنی منزل تلاش کرنا ہو گی ۔ چونکہ ہم حصول علم کو مقدم جانتے ہیں اس لیے ہم مبنی بر تعلیم مستقبل سے آغاز کرتے ہیں ۔ مبنی بر تعلیم مستقبل میٹرک کو تعلیم کے میدان میں داخلے کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے ۔ میٹرک کسی بھی تعلیمی سلسلے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے ۔ میٹرک کرنےکے بعد ہی تعلیم کے زینے پہ قدم رکھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ایک ایسا سمندر شروع ہوتا ہے جس کی کو ئی حد نہیں یہ غوطہ زن پہ منحصر ہے کہ وہ اس سمندر سے کتنا حاصل کر سکتا ہے ۔میٹرک کے بعد جس بھی شعبے کو انسان اختیار کرتا ہے اس میں آگے اور مزید آگے بڑھنے کے مواقع ہیں یہاں تک کہ انسان اپنے شعبے میں ، بی ایس (ماسٹر)، ایم ایس یا ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی کر کے تحقیق و تدوین کے افق پہ جا پہنچتا ہے اور علم کی دنیا میں نئی جہتیں دنیا کو متعارف کرا دیتا ہے۔میٹرک کے بعد انٹر کی تعلیم کے لیے مختلف مضامین آپ کے منتظر ہوتے ہیں ۔یہی مضامین آپ کے اختیار کردہ شعبہ زندگی کے لیے کلید کا کام کرتے ہیں ۔اس مرحلے پہ آپ کو مندرجہ ذیل گروپس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے ۔ • فنون و عمرانی علوم(آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز ) • سائنس گروپ • علم الانتظام (مینیجمینٹ سائنسز) • دینی علوم • پولی ٹیکنیک • فوج/پولیس /سرکاری محکمہ جات میں ملازمت مبنی بر قابلیت /مہارت مستقبل اب ہم ان پیشوں کی بات کریں گے جن کے لیے مہارت اور قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کے اختیار کرنے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ زراعت/ فارمنگ: اس کے ذریعے فصلیں سبزیاں اور پھل کاشت کیے جا سکتے ہیں جو ملکی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ زر مبادلہ کا بھی ذریعہ ہیں ۔ اس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔مرغ بانی یا پولٹری فارمنگ اس وقت پاکستان کا سب سے کامیاب پیشہ ہے ۔ یہ خود ایک سمندر ہے ۔ مرغی کا گوشت، انڈے اور ہیچری کے ذریعے چوزے اور پولٹری سے متعلق سے متعلقہ ادویات اور فیڈ کی تیاری یہ سب پولٹری فارمنگ کا حصہ ہے ۔مگز بانی ، یا بی فارمنگ کے ذریعے شہد کی مکھیوں کو پال کر شہد حاصل کرنا بھی ایک ایک نفع بخش کاروبار ہے ۔ شہد کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے مگز بانی بھی نہایت مفید کام ہے ۔ماہی پروری / فش فارمنگ سے مچھلی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے اس شعبے کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے یہ بھی نفع بخش ہے ۔گلہ بانی / گوٹ/شیپ یا کیٹل فارمنگ کے ذریعے دودھ اور گوشت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بکری / بھیڑ/ گائے اور بھینس کے فارم کھولے جا سکتے ہیں۔ اس سے اپنی اور معاشرے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔ ان پیشوں کے لیے محکمہ زراعت نے ٹریننگ کورس رکھے ہیں ان سے ٹریننگ لینے کے بعد آغاز کیا جا سکتا ہے اور اپنی مہارت اور محنت کو بروئے کار لاتے ہوئے زمین سے سونا نکالا جا سکتا ہے ۔ دندان سازی (دانت بنانے کے لیے ڈینٹل ٹیکنیشن کا کورس بھی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں لوگ دیگر شعبوں کی طرح یہ بھی استاد سے سیکھ لیتے ہیں ۔)،الیکٹریشن /پلمبر/فریج ائر کنڈیشن ریپئیرنگ، سلائی / کڑھائی / رنگائی / بنائی،بیوٹی پارلر / ہیئر ڈریسنگ،کارپینٹنگ ،ویلڈنگ/ خراد،سٹیل فیبریکیشن ،موٹر/ آٹو ورکشاپ مکینیک ،سیلز اینڈ مارکیٹینگ ،پرنٹنگ / ڈیزائننگ ایند ایڈورٹائزنگ ،فوٹو گرافی /ماڈلنگ / ایکٹنگ ،ڈرائیونگ،کوکنگ /ہوٹل مینیجمنٹ،بیکری / فاسٹ فوڈ وغیرہ بھی کافی نفع بخش امور ہیں جنہیں اختیار کر کے آمدن کمائی جا سکتی ہے۔ان کے لیے مختلف کورسز بھی کرائے جاتے ہیں ۔لیکن عموما لوگ یہ کسی استاد کے پاس کام کرتے ہوئے سیکھ جاتے ہیں اور پھر خود استاد بن جاتے ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ کسی مستند وکیشنل ٹریننگ سینٹر سے اس کی تربیت لی جائے اور کام کا آغاز کیا جائے ۔ سب سے آخر میں نسخہ اکسیر جو تمام پیشوں سے زیادہ نفع بخش ہے اور ہر تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کے لیے اسکے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں وہ ہے کاروبار ۔ یہ سب سے اعلی پیشہ ہے صرف شرط یہ ہے کہ اسے حلال طریقے سے کیا جائے اور حرام کو قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے ۔ کاروبار کے ذریعے روزگار پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔ ملازمت سے ایک خاندان پلتا ہے جبکہ کاروبار سے کئی خاندانوں کے چولہے جلتے ہیں ۔ اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تعلیم یافتہ افراد اسے اچھے انداز میں کر سکتے ہیں ۔ پاکستان میں کاروبار کے سنہری مواقع موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اگر قوم کے شباب کو کاروبار کی طرف راغب کیا جائے تو اس ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔ صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سے چیز کہاں دستیاب ہے اور اس کی مانگ کہاں پر ہے ۔ یہ سب کچھ تجربے سے سیکھا جا سکتا ہے ۔ کاروبار کے ذریعے انسان اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔جب قوم کی اکثریت اپنے پاؤں پہ کھڑی ہونے لگے گی تو یہ ملک بھی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوگا اور اقوام عالم کے ساتھ ترقی میں مقابلہ کرے گا ۔ وطن عزیز اس وقت بے روزگاری اور مہنگائی کے بحران کا شکار ہے ۔ مستقبل میں نوکری پیشہ سفید پوش افراد کے لیے سخت آزمائش کا امکان ہے ۔ نوکریاں مفقود ہو رہی ہیں ۔ اور نوکری پیشہ افراد مالی بحران کا شکار ہیں ۔ اس صورتحال میں نوکری کی آس لگا کر بیٹھ جانا کسی بھی صورت میں عقلمندی نہیں ۔ اس فارغ وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ طالبات کو اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنا چاہیے ،اپنی تحریری و ابلاغی مہارتوں میں اضافہ کریں ۔انہیں چاہیےکہ اپنے مشاغل کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنائیں ، نئی مہارتیں سیکھیں اور عہد حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی زبانیں سیکھیں۔ اس عمل سے وہ مستقبل میں اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کے قابل ہو جائیں گے ۔چھوٹے کاروبار سے آغاز کریں اللہ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔ دور جدید کی ٹیکنالوجی کا مثبت فائدہ اٹھائیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں ۔ طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے افراد سے ملیں جو ان کی رہنمائی کر سکے اور مستقبل کی نئی راہیں دکھا سکے۔آج کل اس حوالے سے رہنمائی کے لیے انٹرنیٹ پر بہت سارا مواد بھی موجودہے ۔ بڑے بڑے لوگ کیرئیر کونسلنگ اور فری لانسنگ وغیرہ کے حوالے سے دروس کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ خود بڑی بڑی جامعات اور دیگر تعلیمی مراکز کا دورہ کریں اور اس میں زیرِ تعلیم افراد سے ملاقاتیں کریں ۔ اس طرح مستقبل کے بارے میں آپ کی سوچ بالکل واضح ہو جائے گی اور آپ کوئی صحیح فیصلہ کر پائیں گے ۔ مستقبل کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ زندگی بھر کا انتخاب کر رہے ہیں لہذا سوچ سمجھ کر کسی میدان میں قدم رکھیے ۔ تذبذب کا شکار نہ ہوں اور دنیا کی باتوں سے ہرگز نہ گھبرائیں ۔ ہرممکن کو حاصل کیا جا سکتا ہے لہذا محنت اور مشقت کو عادت بنائیں اور منصوبہ بندی کریں ۔ اک بچہ ٔ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سال خورد اے تیرے شہپر پہ آساں رفت چرخ بریں شباب ہے اپنی خودی کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخی ٔ زندگانی انگبیں کبوتر پر جھپٹنے میں جو مزہ ہے اے پسر وہ مزہ کبوتر کے لہو میں بھی نہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں نکلیں اور اپنے خوابوں کو تعبیریں مہیا کریں ۔ہم سب کی منزل ۔۔الکاسب حبیب اللہ ۔۔۔۔کسب کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔۔۔ اللہ ہم سب کو اپنا دوست بنائے آمین ۔
|