آج کل چند دنوں میں جو موضوع سب سے زیادہ ہر سطح پر زیر
بحث رہا ہے ’’یو ٹرن‘‘ ہے۔ ہماری قوم چونکہ دانشوروں کی قوم ہے اسلئے جب
وزیر اعظم نے کہا کہ حالات کے مطابق یو ٹرن نہ لینے والا احمق ہوتا ہے۔اس
پر مزید یہ کہ اپنے بیان کی تائید میں انہوں نے نپولین اور ہٹلر کا حوالہ
بھی دے دیا۔تو پوری قوم کی دانشوری حرکت میں آ گئی۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز
اور اپنے اپنے تعصب کے مطابق اس پر تبصرہ کر رہا ہے ۔ عمران خان کے حامی اس
بات کو درست قرار دینے میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں ۔ جب کہ مخالفت
میں تو کمال یہ ہے کہ بہت سے لوگ زور شور میں خود خرچ ہوتے جا رہے ہیں۔جناب
خورشید شاہ نے نپولین اور ہٹلر جیسے ڈکٹیٹروں سے مما ثلت کو ایک سنگین
برائی قرار دیا۔ ایک مولوی صاحب نے اس مماثلت کو انتہائی غیر اسلامی حرکت
قرار دیتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیا اور کہا کہ ایک اسلامی مملکت کے
سربراہ کا ایسا حوالہ اسلام کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔چونکہ اس معاملے میں ہر
شخص اپنے اپنے حصے کی شمع جلانے پر تلا ہوا ہے تو میں نے سوچا کہ اندھیرے
میں رہنے سے بہتر ہے کہ ہم بھی ایک شمع جلا دیں۔
نظریات اور حکمت عملی دو مختلف چیزیں ہیں۔ کسی چیزکے بارے بیان دیتے وقت یا
اس کا تجزیہ کرتے وقت دونوں کا فرق ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہیے۔ نظریات انسان
کا عقیدہ ہیں۔ کسی شخص کے ایمان کا حصہ ہیں۔نظریات میں کسی بھی ٹرن کی
گنجائش نہیں ہوتی۔جبکہ حکمت عملی وقتی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں ٹرن
کیا،کئی دفعہ گھومنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کی حکمت عملی میں ٹرن کی
گنجائش نہیں ہوتی ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں ۔دانا لوگ کہتے ہیں کہ جب آپ کو
ناکامی نظر آئے تو مکمل شکست سے بہتر ہے کہ باوقار انداز میں راستہ بدل لیں
یا پیچھے ہٹ جائیں۔ مجھے نظریات اور حکمت عملی کے حوالے سے دو مختلف واقعات
یاد آ رہے ہیں۔ میری کوشش ہے کہ ان واقعات کے حوالے سے بات کرتے کچھ ایسے
حوالے نہ دوں جو غیر اسلامی ہوں اور نہ ہی ان واقعات سے آمریت کی بو آئے۔
امام احمد بن حنبل کے حوالے سے ایک واقعہ مشہور ہے۔کہ ہر دعا میں ایک شخص
کے لئے رب العزت سے بہت فریاد کناں ہوتے۔ لوگوں نے پوچھا تو بتانے لگے کہ
اس شخص کا مجھ پر ایک خاص احسان ہے۔ جوانی کے دنوں میں، میں نے خلیفہ وقت
کے خلاف فتویٰ دے دیا۔ سزا میں خلیفہ نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔میں پہلی
دفعہ جیل گیا تھا اور جیل کی صعوبتوں کی وجہ سے پریشان تھا۔ بہت سے لوگ
میرے پاس آئے اور کہا کہ خلیفہ کے غلط کام پر بھی خلیفہ پر تنقید نہیں کرتے۔
اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ بہتر ہے فتویٰ واپس لے لیں
اورخلیفہ سے معافی مانگ کر انعام کے حقدار ہو جائیں۔جیل کی صعوبتوں کی وجہ
سے میں ’’یوٹرن‘‘ کا سوچنے لگا۔ وہ شخص ،میں جس کے لئے دعاگو ہوں، جیل میں
میرے ساتھ بند تھا۔ اس نے ہنس کر مجھے کہاکہ میں ایک برا آدمی ہوں ۔ برائی
کرتا ہوں ، پکڑا جاتا ہوں اور جیل میں ڈال دیاجاتا ہوں ۔ یہ کئی دفعہ ہو
چکا۔یہ جیل میرے جیسے برے آدمی کا راستہ نہیں بدل سکی تو آپ جس نے ایک نیکی
کی ہے ،ایک حق اور سچ کی بات کی ہے جیل اس کا کیا بگاڑے گی۔امام کہتے ہیں
کہ اس کی بات سن کر میں لرز گیا۔ میں نے کسی بھی معذرت سے انکار کر دیا اور
اپنے فتویٰ پر قائم رہ کر سزا بھگتتا رہا۔ آج میری عزت اور میرے احترام کا
سبب وہی استقامت ہے۔ اگر اس وقت میں ’’یوٹرن‘‘ لے لیتا تو شاید آج ذلت کے
اندھیروں میں کھو چکا ہوتا۔امام احمد بن حنبل کا راستہ وہ تھا جس میں ’’یو
ٹرن کی گنجائش نہیں تھی۔
ازبک فرمانرواشیبانی اپنے وقت کا انتہائی بہادر جرنیل تھا۔اس نے ہندستان کے
عظیم مغل شہنشاہ بابر کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا ۔ وہ جدھر سے گزرا علاقے
فتح کرتا آگے بڑھتا گیا۔ اپنے دور میں وہ خوف کی علامت تھا۔ وہ اپنے شہر ’’مرو‘‘
میں مقیم تھا۔اسے اطلاع ملی کہ ایران کا شہنشاہ اسماعیل صفوی قزل باشوں کو
لے کر اس کے بہت قریب آ چکا ہے۔ اس کے سرداروں نے عرض کی کہ ہم تعداد میں
بہت تھوڑے ہیں اور اسماعیل ایک بڑی فوج کے ساتھ آ پہنچا ہے۔ بہتر ہے کہ
ساتھی سرداروں کا انتظار کیا جائے ۔ اس وقت ضروری تھا کہ وہ وقتی طور پر
پسپائی اختیار کرتا مگر ازبک سردار کو اپنی شمشیر پر بہت ناز تھا۔ اس نے
کسی کی بھی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی معمولی سی فوج لے کر
ایرانیوں کے مقابلے پر پہنچ گیا۔نتیجہ وہی ہوا جس کی سب کو امید تھی۔ازبکوں
کو کامل ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس کے بڑے بڑ ے سردار مارے گئے۔ شیبانی شدید
زخمی ہو کر مر گیا اور ازبک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تتر بتر ہو گئے۔ یہ وہ وقت
تھا کہ جب یو ٹرن بہت ضروری تھا جو نہ لینے کے سبب ازبکوں کا وہ زبردست دور
ختم ہو گیا ورنہ آج تاریخ بہت مختلف ہوتی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں عمران خان کی حکومت کو مخالف
سیاستدانوں سے کو ئی خطرہ نہیں ۔ اس حکومت کو اگر خطرہ ہے تو ا پنے نادان
وزیروں سے ہے جنہیں بولنے کا سلیقہ ہی نہیں جو بغیر سوچے سمجھے غیر ضروری
بولتے ہیں۔یہ ہمارے وزرا ڈھول کی تھاپ پر دشنام طرازی کے اکھاڑے میں روز
اترتے اور کمال بڑھک بازی کرتے ہیں۔ وہ وقار جووزرا کا وصف ہونا چاہیے ان
میں کہیں نظر نہیں آتا۔ انہیں پتہ نہیں کہ مخالفوں کے پاس توکھونے کے لئے
مزید کچھ نہیں۔ وہ آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے خول سے باہر نکلو اور
عوام میں اپنا تاثر بگا ڑو، اوروہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ بعض اوقات
مخالفوں کی باتوں کا بہترین جواب خاموشی ہوتا ہے۔ یہاں خاموشی کی زبان کوئی
جانتا ہی نہیں۔ کہتے ہیں جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ اس حکومت کی گھن گرج
اتنی بڑھ گئی ہے کہ برسنے کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ بہتر ہے کہ شور
مچانے اور مخالفوں کے ہر سوال کا جواب دینے سے گریز کیا جائے۔جو کرنا ہے
خاموشی سے کر جائیں۔ جب کچھ ہو گا، روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہو جائے گا۔ |