نئی حکومت کے آنے اور شیخ رشید کے وزیر ریلوے بننے کے بعد
سے اب تک 100دنوں میں ریلوے کے متعلق روز کچھ نہ کچھ سننے کو مل رہا ہے۔
شیخ صاحب نے کئی نئی ٹرینیں ٹریک پر ڈال دی ہیں جبکہ ریلوے مسلسل خسارے میں
جارہا ہے۔ عوام کو یا د ہو گا کہ جب بلور صاحب ریلوے کے وزیر تھے انہوں نے
بھی ریلوے کو خسارے میں بتایا ، شیخ صاحب جب پہلی بار وزیر ریلوے بنے تب
بھی ریلوے خسارے میں تھا اور خواجہ صاحب کا بھی یہی رونا تھا۔ اس بار خواجہ
صاحب کے بقول ریلوے منافع بخش ادارہ بن چکا تھا لیکن پہلے تو شیخ صاحب نے
اپنی پہلی میٹنگ میں خواجہ صاحب کا ذکر سننا ہی گوارا نہیں کیا۔ شیخ صاحب
نے پھر یہی فرمایا ہے کہ ریلوے خسارے میں ہے۔ شیخ صاحب سے یہ پوچھنا تھا کہ
اگر ریلوے خسارے میں ہے اور آئی ایم ایف نے ابھی قرضہ بھی نہیں دیا اور نہ
ہی کوئی بڑی امدادی کھیپ کسی دوست ملک سے ملی ہے تو شیخ صاحب یہ نئی ٹرینوں
کا افتتاح کس طرح کروا رہے ہیں؟ قرضہ یا امداد نہ ملنے کی وجہ سے پیف کے
پیما پارٹنرز پچھلے پانچ چھ ماہ سے اپنی پے منٹ کے لیے رو رہے ہیں۔ کیا جو
سعودی عرب سے امداد ملی وہ ساری صرف ریلوے کو دے دی گئی ہے؟
چلیں اس کو چھوڑیں نئی ٹرینوں کا چلنا یا نا چلنا مگر یہ دیکھیں جو پہلے سے
ٹرین چل رہی ہیں ان کی کارکردگی کیسی ہے؟ ان میں مسافروں کے لیے کیا
سہولیات دی گئی ہیں؟ پہلے ذکر پرانے پاکستان کا جب پچھلے سال ماہ نومبر میں
کراچی جانے کا اتفاق ہوا اور یہ سفربذریعہ خیبرمیل کیا تھا ۔ اس وقت
خیبرمیل میں اکانومی کلاس کے ڈبوں میں لائٹ، موبائل چارج کرنے کی سہولت ،
سیٹوں کے درمیان ٹیبلز اور نماز کے لیے جگہ تک موجود تھی۔ یاد رہے یہ ذکر
پرانے پاکستان کا ہو رہا ہے جب خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے تھے (جو بقول شیخ
صاحب ریلوے کو لوٹ کر کھا گئے )۔
شومئی قسمت ایک بار پھر اسی نومبر میں نئے پاکستان کے کراچی جانے کا اتفاق
ہوا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرین بھی خیبرمیل تھی مگر اس نئے پاکستان کی
ٹرین میں پرانے پاکستان والی تمام سہولیات چھین لی گئی ہیں۔ اس ٹرین کے
پہلے چار اکانومی ڈبے تھے جن میں نہ نماز کی جگہ، نہ چارج کرنے کی سہولت ،
نہ ٹیبلز اور نہ ہی لائٹ تھی۔ عصر کے بعد جیسے جیسے اندھیرا چھانے لگا لوگ
لائٹ جلنے کا انتطار کرتے رہے مگر لائٹ آن نہیں ہوئی۔ آخر کار ایک مسافر نے
ہاکر سے پوچھا تواس نے کہا کہ ان ڈبوں میں لائٹ نہیں ہے پہلے تو سب مذاق
سمجھ رہے تھے کہ ایسے ہی بندہ بول کر چلا گیا ہے مگر جب کافی اندھیرا چھا
گیا اور لائٹ آن نہیں ہوئیں تو بچوں نے رونا شروع کردیا۔ اب بچوں کے والدین
اور دوسرے مسافر بھی نہ صرف حکومت کو برا بھلا کہنا شروع ہوگئے بلکہ نئے
پاکستان کی طنزیہ تعریف بھی کرنے لگے۔ کوئی بولا نئے پاکستان میں اس طرح ہی
ترقی کریں گے تو کوئی بولا حکومت پاکستان کے پاس پیسہ نہیں تو کیا کرے تو
جواب میں ایک شخص نے کہا جب حکومت کے پاس پیسہ نہیں تو پھر نئی ٹرینیں
چلانے کی بجائے پرانی ٹرینوں پر توجہ دے۔ عوامی تبصرے سننے کے بعد میں جدید
پاکستان کی خیبر میل کے گارڈ کو تلاش کرنے نکلا تو معلوم ہوا کہ وہ اے سی
کوچ میں تشریف فرما ہیں ۔ تلاش کرتے کرتے جناب کی خدمت میں حاضری دی اور
سلام دعا کے بعد ان سے پوچھا کہ ان اکانومی ڈبوں میں لائٹ کیوں نہیں ہے ؟
تو انہوں نے بڑے غصے میں کہا کہ مجھے کیا پتہ الیکٹریشن سے پوچھو۔
الیکٹریشن کی بابت پوچھا تو بولے مجھے کیا معلوم جا کر ڈھونڈ لو۔ان کے اس
رویے کو دیکھ کر غصہ بھی آیا مگر کیا کرتے آج کل کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے۔
پھر بھی ان کو بولا ’’آپ کم از کم اپنے انداز گفتگو دیکھ لیں ‘‘۔ریلوے گارڈ
ہماری مدد کے لیے اور محکمہ کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے مگر گارڈ کے رویے
سے لگتا تھا جیسے سارے مسافر اس کے ذاتی غلام ہیں۔ بہرحال تلاش کرتے کرتے
اے سی کے آخری ڈبے میں الیکڑیشن صاحب کے دیدار ہوگئے ان سے کہا کہ سرکار
اکانومی ڈبوں میں لائٹ نہیں ہے ۔ تو موصوف نے فرمایا کہ یہ لائٹ پچھلے چار
دنوں سے نہیں جل رہیں کیونکہ یہ موسی پاک کے ناکارہ ڈبے لگائے گئے ہیں ۔
میں نے کہا کیا آپ نے اپنے محکمے میں اس کے متعلق بتایا ہے تو انہوں نے کہا
سب کو پتا ہے۔
یہ سب دیکھ کر میں نے نہ صرف شیخ صاحب کو ٹویٹ کیا بلکہ ایک آن لائن کمپلین
بھی درج کرائی۔ فیس بک پر پوسٹ لگائی اور دوستوں کو درخواست کی کہ اس کو
شئیر کریں تاکہ شیخ رشید صاحب تک جلد بات پہنچے اور وہ اس کا نوٹس لیتے
ہوئے فوری ایکشن لیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر معیاری چیز نہ ہوتو اس کی
قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص گلی ہوئی سبزی یا پھل لیتا ہے تو پھر
فروخت کرنے والا اس کے دام اچھی چیز سے کم کردیتا ہے مگر ریلوے کی کیا بات
ہے بقول الیکٹریشن کے پچھلے چار دن سے ایسے ہی سفر گزررہا ہے تو پھرمسافروں
سے کرایہ پورا کیوں وصول کیا جارہا ہے؟ خیبرمیل کے مسافروں کو ریلیف کیوں
نہیں دیا جارہا ہے؟
مجھے توقع تھی کہ یقینا کل یہ کوچز تبدیل ہو جائیں گی۔ ٹھیک چار دن بعد
(20نومبر کو کراچی گیا اور 24 نومبر کو ) اسی ٹرین سے میری کراچی سے واپسی
ہوئی تو دیدہ بینا نے دیکھا کہ جو کچھ اوپر لکھا گیا بالکل وہی پوزیشن تھی
۔ تاحال شیخ صاحب نے نہ ٹویٹ کا جواب دیا اور نہ بوگیاں تبدیل ہوئیں ۔ سر
شام سے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے رات بھر روتے رہے ۔وی آئی پی کلچر ختم کرنے
کی بات کرنے والوں نے یہ ثابت کردیا کہ غریب کو نہیں امیر کو سہولت دو
کیونکہ ان بوگیوں میں غریب بندہ ہی سفر کرتا ہے ۔ امیرتو اے سی ڈبوں میں
مزے سے سفر کررہے ہوتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعہ کہ جب میں الیکٹریشن کو تلاش
کررہا تھا تب اے سی کے مسافر بھی اس کو تلاش کررہے تھے۔ میں نے پوچھا آپ کو
کیا ضرورت پیش آگئی ؟ تو وہ بولے کہ رات ہوگئی ہے ۔ ہم نے اس سے اے سی کم
کرانا ہے ۔میں نے سوچا کہ واہ کیا بات ہے غریب لائٹ کو تر س رہا ہے اور
امیر اے سی کم کروارہا ہے۔
شیخ صاحب اس کالم کی مدد سے آپ سے التماس ہے کہ نئی ٹرینوں کے ساتھ ساتھ
ریلوے کے عہدے داران کو حکم دو کہ پرانی ٹرینوں کا بھی خیال کریں۔ جس ملک
کو آپ کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کررہے ہو۔ ادھر آپ کے زیر سایہ چلنے والا
محکمہ ریلوے میں غریب عوام رُل رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ لوگ
محکمہ ریلوے سے نہیں آپ سے توقع کیے بیٹھیں ہیں ۔ اگرٹرین میں مسافروں کو
سہولیات نہ ملی تو ا اس کی ذمہ داری عوام آپ پر رکھیں گے ۔
|