قدرت الٰہی نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے
بچانے کے لیے نہایت ہی مؤثر و مضبوط دفاعی نظام سے نوازا ہے جس کو مدافعتی
نظام کہا جاتا ہے، اسی کے طفیل جسم میں انسانی قوت مدافعت کار گزار ہوتی ہے،
اور اس مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو تا
ہے۔ مہلک مرض ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس ڈائریکٹ انسانی مدافعتی نظام کو
تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس خطرناک وائرس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری
انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی
ہے۔ ایڈز کا وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے، اس کے
علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی
موجودسکتا ہے۔ مگر تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ بیماری پھیلانے کا باعث
نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔
ایڈز وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے
یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں
جا سکتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ جنسی روابط اور بے راہ روی کا شکار ممالک اس
مہلک بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں۔خون کے اجزاء کے ذریعے ایڈز کی
بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا
خون کے اجزاء کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے۔ جب ایڈز کے وائرس سے
متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں۔وائرس سے متاثرہ اوزار جلد
میں چبھنے یا پیوست ہونے سے مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے
علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال
ہونے والے آلات استعمال کئے جائیں۔ ایڈز کا وائرس متاثرہ ماں کے بچے میں
حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔ ایڈر کی
علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کا وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں
تک رہ سکتا ہے۔ کسی شخص کے ایڈز کے جراثیم کی اینٹی باڈیز (Antibodies) اس
سے متاثر ہونے کے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ میں بنتی ہیں۔ جسم میں ایڈز
کے جراثیم کی موجودگی معلوم کرنے کے لیے خون میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کو
ٹسٹ کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ اینٹی باڈیز کسی کو بھی یہ بیماری پیدا
ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ جس کسی میں بھی ایڈز کا یہ وائرس داخل ہو جاتا ہے
وہ اس کو دوسرے میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت بیماری کے
شروع میں یا بیماری کے آخر میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کی ابتدائی
علامات فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایڈز سے متاثرہ مریض کی بڑی علامات
میں چند یہ ہیں کہ مختصر عرصہ میں جسم کا وزن دس فیصد سے زیادہ کم ہو جاتا
ہے، ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک اسہال رہ سکتا ہے، بخار ایک مہینے سے زیادہ
عرصہ تک رہ سکتا ہے ۔ زندگی اﷲ تعالیٰ کی ایک انمول نعمت ہے، ہمیں اپنی
زندگی سے پیار کرنا چاہئے۔ ایڈز جیسے مہلک مرض سے بچنے کے لیے ہمیشہ اپنے
جیون ساتھی تک محدود رہنا چاہئے، خود کو ہمیشہ جنسی بے راہ روی سے بچانا
چاہئے، اگر ٹیکہ لگوانا ضروری ہو تو ہمیشہ غیر استعمال شدہ نئی سرنج کے
استعمال پر اصرار کرنا چاہئے، خون کا انتقال تب کروانا چاہئے جب اس کی اشد
ضرورت ہو، اگر زندگی بچانے کے لیے خون کا انتقال ضروری ہو تو اس بات کا
یقین کر لینا چاہئے کہ انتقال کیا جانے والا خون ایڈز اور یرقان وغیرہ کے
وائرسز سے مکمل طور پر پاک ہے،ناک کان چھدواتے ہوئے ہمیشہ گرم پانی سے دھلے
اوزار استعمال کرنا چاہیے ، جبکہ شیو کرواتے وقت ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال
کرنا چاہئے۔ عالمی قوانین کے مطابق ایک مریض کے لیے استعمال ہونیوالی کٹ کو
دوبارہ استعمال کرنے سے پہلے 119 تا 130 سینٹی گریڈ تک گرم پانی اور کیمیکل
سے دھونا ضروری ہوتا ہے، اس لیے آلات جراحی کے صاف ستھرا ہونے کی تسلی کرنا
چاہیے۔ ایک تحقیق کے مطابق اسلامی طریقہ سے ختنے والے مردوں میں ایڈز کی
بیماری کے انفیکشن کا خطرہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں آگاہی کے لیے ایک عرصے سے مہم
چلائی جا رہی ہے، اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایڈز سے
آگاہی اور اس سے بچاؤ کا عالمی دن یکم دسمبر کے دن منایا جاتا ہے۔ حکومت کی
جانب سے ایڈز کی روک تھام کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے نیشنل ایڈز
کنٹرول پروگرام کے مینیجرکے مطابق ایڈز سے متاثرہ افراد کے علاج میں سب سے
بڑی رکاوٹ اس مرض سے جڑے معاشرتی رویے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
آگاہی مہم اور علاج معالجے کے مراکز کے باوجود اب بھی معاشرے میں اس مرض سے
متعلق پائے جانے والے منفی رجحانات کی وجہ سے ایڈز سے متاثرہ افراد اپنی
بیماری کو چھپاتے ہیں۔مرض کو پوشیدہ رکھنے والے ایسے افراد نہ صرف اپنے
بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام
نے 2017 ء میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر سروے کیا تھا جس کے مطابق
اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت 39 ہزار کا اضافہ
ہوا۔ پاکستان میں سرکاری طور پر کیے جانے والے اس سروے کے مطابق ملک میں
موذی مرض ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 32 ہزار سے تجاوز کر چکی
ہے۔آبادی کے لحاظ سے ملک کے گنجان آباد صوبے پنجاب میں اس مرض کے سب سے
زیادہ مریض ہیں اور ان کی تعداد 60 ہزار کے قریب ہے۔ صوبہ سندھ میں ایڈز کے
52 ہزار، خیبر پختونخوا میں 11 ہزار، بلوچستان میں تین ہزار ایڈز کے مریض
ہیں، جبکہ اس وقت تک صرف 20 ہزار 322 مریض رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے 9904
زیر علاج ہیں۔ ملک میں جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ،ان کی تعداد زیادہ اس لیے
نہیں کہ لوگ اپنا ٹیسٹ کروانے سے گھبراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی
کو ایچ آئی وی لاحق ہوتا ہے اور ٹیسٹ میں یہ مرض ثابت ہو جاتا ہے تو ان کے
ساتھ ایک بدنامی جڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی کم تعداد سامنے آتی
ہے تو یہ خیال کیا جانے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں جبکہ حقیقت
میں یہ ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق آج سے دو ڈھائی
عشرے قبل تک ایڈز ایک لاعلاج مرض تھا لیکن اب اتنی بہتری ضرور آئی ہے کہ اس
کے جراثیم کو کنٹرول کرنے کے لئے ادویات دستیاب ہیں۔ اور ایچ آئی وی سے
متاثرہ مریض بلڈپریشر اور ذیابیطس کے مریضوں کی طرح ادویات کے مسلسل
استعمال سے ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس مہلک مرض کا سستااور موثر
علاج یہی ہے کہ اس مرض سے ہر ممکن احتیاط برتی جائے۔ اور مرد کے جنسی
تعلقات صرف بیوی تک اور عورت کے جنسی تعلقات صرف شوہر تک محدود ہوں اور بے
راہ روی کی زندگی سے لازمی احتیاط برتی جائے۔ یہ بھی واضع رہے کہ ایڈز کوئی
چھوت کی بیماری نہیں ہے یہ مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی
اس لیے جو اس کے مریض ہوں ان سے نفرت کی بجائے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے،
اﷲ تعالیٰ ہمیں مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھے اور اپنی اطاعت کے مطابق زندگی
گزارنے والا بنائے ۔ |