وزیراعظم پاکستان عمران خاں کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خاں
کی جائیداد کی تفصیلا ت سپریم کورٹ نے طلب کرلی ہے۔مبینہ طو رعلیمہ خاں کی
دوبئی میں اربوں روپے کی جائیداد سامنے آئی ہے۔جسے چھپائے رکھنے پر نیب کو
کثیر رقمی قریبا جائیداد کا نصف بطو رجرمانہ جمع کروایا گیا ہے۔سابق وزیر
اعظم نوازشریف نے معاملہ سامنے آنے کے بعد نیب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ
تحقیقات کرے کہ علیمہ خاں کی جائیداد کے پیچھے کون ہے۔وہ مسلم لیگ ن کے
رہنماؤں کے خلاف تو تحقیقات کرتاہے۔اسے علیمہ خاں کے خلاف بھی تحیقات کرنی
چاہئیں کہ یہ جائیداد کیسے بنائی گئی۔ان کے پاس دوبئی میں اربوں روپے کی
جائیداد کہاں سے آئی۔اس کی منی ٹریل کیا ہے۔ان کے تو ذرائع آمدن بھی نہیں
ہیں۔وہ شوکت خانم بورڈ کی ممبر بھی ہیں۔انہوں نے جائیداد چھپانے کے لیے
جرمانہ ادا کیاتو کیا یہ این آراور نہیں ہے۔قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان
اثاثوں کے پیچھے کون ہے1962میں لاہورکی پہلی شیور لے گاڑی میرے والد صاحب
نے خریدی جب کہ لاہورکی پہلی سپورٹ کنورٹ ایبل مرسڈیز کار میرے لیے منگوائی
تھی۔سابق وزیراعظم کا مطالبہ غلط نہیں اگرسپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر
علیمہ خاں کی جائیداد سے متعلق معاملہ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اسے
انجام تک پہنچانا ہوگا۔ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جس میں علیمہ خان کے اثاثوں
او ر ٹیکس کی تفصیلات جمع کروانے میں رکاوٹیں کھڑ ی کرنے کا پتہ
چلتاہے۔حیلے بہانے کیے جارہے ہیں۔مروجہ قوانین کی آڑ لی جارہی ہے۔سپریم
کورٹ کے لیے علیمہ خاں کے معاملے میں اتنی ہی محنت کرنا پڑے گی جتنی ڈی پی
او پاکپتن کے معاملے میں یا جتنی اعظم سواتی کے معاملے میں ۔یہ معاملہ
انجام تک پہنچانے کے لیے کئی اطراف سے بہانے بازیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
کرپشن اور نااہلی کو سب سے بڑا مسئلہ قراردیا جارہا ہے۔اس وقت اختیارات پر
بیٹھے سبھی لوگ ایک پیچ پر ہیں۔سبھی کرپشن ختم کرنے اور نااہل قیادت کو
نشان عبرت بنانے کی بات کررہے ہیں۔حکومت اورملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر
ہیں۔عدلیہ اور نیب مکمل ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن جی اچھاکی
تصویر بنا ہواہے۔بڑ ی زبردست کوارڈینیشن بنی ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگراتنی
زبردست کوارڈینیشن کے باوجود کرپشن اور نااہلی سے چھٹکا ر ہ نہیں ملتا تو
کب ملے گا؟اگراب بھی کامیابی نہ ہوئی تو اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہ ہوگی
کہ طاقت کے مراکز خود ایسا نہیں چاہ رہے۔بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔اگرواقعی
نیک نیتی سے پاک صاف پاکستان کی تمنا ہے تو اس کے لیے درست طریقہ کار چننا
ہوگا۔ایک مساوی او ر منصفانہ طریقہ اختیا ر کیے بغیر کام نہ بنے گا۔آپ کا
موجودہ طریقہ کار انتہائی نامناسب ہے۔آپ کچھ لوگوں کو تو چھوٹی موٹی تنبیہ
کرکے چھوڑدیں اور کچھ کو ایسی ہی غلطی پر نشان عبرت بنائے رکھیں تو کیسے
منزل تک پہنچ پائیں گے۔آپ ایک شخص کو تو اثاثے چھپانے پر حکومت او ر سیاست
کے لیے نااہل کردیں جب کہ ایک شخص کو محض چھوٹی موٹی غلطی قرار دے کر صادق
امین قراردے دیں۔اس رویے سے بات نہیں بنے گی۔اس وقت جو سلوک شریف فیملی کے
ساتھ روا رکھا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔سابق وزیر اعلی پنجاب کو
زیرحراست کیے دو ماہ ہوچلے ۔اب تک ان پر ایک بھی ریفرنس دائر نہیں کیا
جاسکا۔ان کے زیرحراست لیے جانے کا واقعہ بھی بڑا بھونڈا ہے۔بلایا کسی
معاملے میں گیا۔حراست کسی دوسرے معاملے میں ہوئی۔ایک ڈیڑھ ماہ کی تفتیش کے
بعد پتہ چلا کہ اب شہبازشریف سے کسی تیسرے معاملے پر پوچھ گچھ ہوگی۔یوں
لگتا ہے شریف فیملی کو کسی نہ کسی عذ ر سے پھنسائے رکھنے کا ذہن بنا
ہواہے۔ایک مقدمے سے نکلتی ہے۔تو دوسرا تیار پاتی ہے۔وہاں سے بچتی ہے تو
تیسرا سامنے لے آیا جاتاہے۔وفاقی وزیر اطلاعات قسمیں کھاتے پھر رہے ہیں کہ
نوازشریف کو لازمی جیل ہوگی۔جب یہ طریقہ اپنایا جاتاہے تو پھر کرپشن
اورنااہلی کے خاتمے کا خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
پاک صاف پاکستان میں کچھ رکاوٹ نہیں طاقت کے مراکز یکسو ہیں۔معاملات بھی سب
سامنے ہیں۔شریف فیملی اگر ساٹھ کی دہائی سے مرسڈیز اور شیور لے گاڑیاں
رکھتی تھی۔اس کے کارخانوں میں ٹینک تک تیارہوتے تھے تو آج اس فیملی کی دولت
پر سوال کیوں؟یہ سوال تو ان لوگوں سے پوچھنابنتاہے جو ابھی کل اسی نوے کی
دہائی میں سائیکلوں ، موٹرسائیکلوں پر ہواکرتے تھے۔آج جہازوں کے مالک
ہیں۔درجنوں ملوں کے مالک اور مربعوں زمین کے مالک ۔ان سے ان کی دولت کا
حساب مانگا جائے۔آج کے مسٹر کلین عمران خاں ان دنوں اپنے لیے فلیٹ مانگا
کرتے تھے۔جب شریف فیملی کروڑوں کی مالک تھی۔آج مسٹر کلین اور نوازشریف
دونوں کے اثاثے قریبا برابرہیں۔ایسا کیوں کر ہوا۔پاک صاف پاکستان کے لیے
نیب اور عدلیہ کے لیے روڈ میپ بالکل واضح ہے۔جانے وہ ایسا کیوں نہیں کرپا
رہے؟یوں لگتاہے جیسے احتسابی ادارے محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ان کی اپنی کوئی سوچ
ہے نہ پلاننگ۔انہیں جو حکم ملتا ہے ۔وہیں کرگزرتے ہیں۔اسی حکم کا نتیجہ ہے
کہ کچھ لوگ زیادہ رگیدے جارہے ہیں او ر کچھ کو بالکل ٹچ نہیں کیا جارہا۔اگر
کچھ لوگوں کو نہیں چھیڑ ا جارہا تو اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس کا
حکم نہیں۔ |