تحریر:مشعل اسلام
سیاست ایک قسم کی عبادت ہے۔ حقوق العباد سے اس کا تعلق ہے ، کہا جاتاہے
کہ’’ قوم کا امیر ان کا خادم ہوتا ہے‘‘۔ مگر افسوس، صد افسوس!آج اگر سیاسی
جماعتوں پہ نظر دوڑائی جائے تو سیاست کی مسخ شدہ صورت ہی نظر آتی ہے۔حیرت
ہے!کتنے عظیم رہنما و قائد و حکمران گزرے ہیں ہماری تاریخ روشن ہے، آسمان
سیاست پہ نگاہ ڈالیں توآقا علیہ السلام و خلفاء راشدین کے بعد بھی عمر
ثانی، ہارون الرشید جیسے نیک فرماں رواؤں سے سیاسی فلک جگ مگ جگ مگ کرتا
نظر آئے گا۔
عدالت ہو تو ایسی ہو
سیاست ہو تو ایسی ہو
مسلم ممالک کے حکمران لازم نہیں کہ عالم ہوں مگر ان کو اتنا علم ضرور ہو جس
سے ان کے ظاہر و باطن پہ اسلام کا رنگ نکھر آئے ۔آج سیاست کے نام پہ جو
کھیل کھیلنے میں سیاستدان طاق ہوچکے ہیں یہ سیاست ہر گز نہیں۔یہ تو اپنے
اپنے مفادات کے حصول کی جنگ بن چکی ہے۔ دھوکہ، جھوٹ،کھلم کھلا معاصی کا
ارتکاب،گالم گلوچ،دین بیزاری، بے حیائی،بدگمانی،غیبت غرض کون سا گناہ ہے جو
سیاست دانوں کے دونوں ہاتھوں کا کھیل نہہں؟
سیاست خود اپنی لاش پہ آنسو بہارہی ہوگی
یہ سیاست ہے جسے دیکھ کے شرمائے شعور
کم از کم اسلامی ملک کے سیاستدان کو دیکھ کے کوئی سمجھ تو لے کہ یہ مسلم
سیاستدان ہیں۔آہ! یہ سیاستدان ایمانداری سے رب سے اوراپنے پیغمبر ﷺ سے سچے
اور مخلص ہوتے تو عوام سے بھی مخلص رہتے ۔ جو اپنے حقیقی محسن اور رہبر کو
بھول بیٹھا ہو بھلا وہ عوام کو کیسے یاد رکھے گا؟ہماری سیاست کرسی و اقتدار
کے سوا اب کسی دوسری چیز کا نام نہیں ۔جو بھی اس بحر سیاست میں اترتا
ایمانداری کا لباس کنارے رکھ کے بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ ،ظلم و زیادتی کے بد
بودارتالاب می اتر جاتا ہے اور اپنے ناپاک فیصلوں سے ظلم جبر اور ناانصافی
کے گند سے سیاسی بحر میں تعفن پھیلادیتا ہے ۔
یہ آج کی سیاست ہے ،ایمانداری جس سے باہر ہے۔ بے ایمانی صاف ظاہر ہے۔ ہونا
تو یہ چاہیے تھا کہ ارض پاک و مسلم ممالک کے سیاستدان اپنے اپنے ملکوں میں
وہ عدل و انصاف قائم کرتے کہ لوگ جان لیتے کہ واقعی یہ آسمانی مذہب آخری
کتاب کے حاملین محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام لیوا ہی خلافت ارضی کے
لائق ہیں۔ اسلام سچا دین ہے مسلمان امن و عدل و محبت کا استعارہ بن جاتے
۔لیکن ہمارے مسلم حکمران و عام مسلمان نے اسلام کے تعلیمات کو بھلادیا وہ
طور طریقہ جو ان کا خاصہ تھے ان سے منہ موڑ لیا۔ سازشی ذہنوں کی سازشیں
اپنی جگہ ،ہر وقت امریکہ و اسرائیل و بھارت کوالزام دینا یہ دانشمندی نہیں
ہے۔
اﷲ نے عقل دی ہے کیا وہ بھی رہن رکھ لی؟
عمل سے عاری ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ
یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر اب بھی ہم چاہیں تو سیاسی تالاب سے گندی مچھلیاں
نکال کے بہتری کی جانب جاسکتے ہیں ۔
نہ جب تک مسلمو! تم حالت دینی سنواروگے
کرو گو لاکھ تدبیریں ہمیشہ سب سے ہاروگے
گناہوں کا یہ جب بار گراں اپنا اتاروگے
جبھی قعر مذلت سے تم اپنا سرابھاروگے
تمہاری قوم کی تو ہے بنا ہی دین و ایماں پر
تمہاری زندگی موقوف ہے تعمیل قرآں پر
تمہاری فتح یابی منحصر ہے فضل یزداں پر
نہ قوت پر نہ کثرت پر نہ شوکت پر نہ ساماں پر
مسلمانو!اٹھو بہر عمل تیار ہوجاؤ
نہیں یہ وقت غفلت کا بس اب بیدار ہوجاؤ |