مملکتِ سعودی عربیہ کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے
پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے متمنی نظر آتے ہیں۔ گذشتہ وہ
متحدہ عرب امارات اور بحرین ، مصر کا دورہ کرچکے ہیں اس دوران انہوں نے ان
ممالک کے ساتھ بہتر روابط اور دوستانہ تعلقات میں مزید گہرائی کی خواہش کا
اظہار کیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سعودی عرب مسلمانوں کیلئے اہم
حیثیت رکھتا ہے اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمان سب سے پہلے سعودی عرب پر ہی
نظریں جمائے رہتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب نے کئی ممالک
میں آفات سماوی و ارضی اور دیگر ممالک میں مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے
والے مظالم کے بعد امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑوسی
ممالک کے درمیان جتنے بہتر تعلقات ہونگے دونوں ممالک اتنا ہی جلد ترقی
کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں عوام خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔ اب رہا
مسئلہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات کا تو یہ ضروری ہے کہ ان ممالک
کے درمیان بھی بہتر تعلقات ہوجانے چاہیے کیونکہ اگر عالمِ اسلام کے درمیان
تعلقات کشیدہ ہوں تو دشمنانِ اسلام اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔سعودی عرب اور
دیگر عرب ممالک جو قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرلئے ہیں انہیں بھی
چاہیے کہ قطر اور ان ممالک کے درمیان بھی بہتر ، دوستانہ تعلقات پھر سے
قائم ہوجائے کیونکہ قطر کو اگر الگ کردیا جائے تو یہ عالمِ اسلام کے لئے
نقصاندہ ہوگا۔ قطر میں بھی کئی ممالک خصوصاً ہندو پاک کے ہزاروں افراد
روزگار سے منسلک ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ سعودی عرب، مصر، متحدہ
عرب امارات، بحرین کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی قطر کی معیشت
کو نقصان پہنچانا ہے اور یہ دشمنانِ اسلام کی سازش کا نتیجہ ہے۔ سعودی
ولیعہد محمد بن سلمان نے اپنے دورہ متحدہ عرب امارات کے موقع پر کہا ہے کہ
عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان مثالی اور خصوصی تعلقات نے ایک دوسرے
سے مربوط کررکھا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد بن سلمان نے اپنے دورے کے
اختتام اور بحرین روانگی سے قبل ان خیالات کا اظہارکیا۔سعودی ولی عہد نے
کہا کہ ہماری خواہش ہے متحدہ عرب امارات کی دوستی سمندروں سے گہری ہو اور
مشترکہ تعاون کا دائرہ مزید وسیع ہونا چاہیے۔ دونوں ملک پہلے بھی مثالی اور
خصوصی تعلقات لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔انہوں نے بحرین کے دورے کے دوران
بحرینی حکمراں ا حمد بن عیسی آل خلیفہ سے ملاقات کی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
شہزادہ محمد بن سلمان اور احمد بن عیسی آل خلیفہ کے درمیان ملاقات الصخیر
ہوائی اڈے پر ہوئی جہاں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ
خیال کیا۔ اس موقع پر بحرینی فرمانروا نے سعودی ولی عہد کو ان کی خدمات کے
اعتراف میں ریاست کا سب سے اعلی اعزاز "الشیخ عیسی بن سلمان" تمغہ بھی عطا
کیا۔ ملاقات میں دونوں قوموں کے باہمی تاریخی، ثقافتی اور تزویراتی تعلقات
کے قیام اور تمام شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر زور دیا گیا۔ سعودی ولیعہد
نے شاندار استقبال کرنے اور مہمان نوازی پر بحرینی قیادت کا شکریہ ادا
کیا۔محمد بن سلمان بحرین کے بعد مصر کے دو روزہ دورے پرپہنچے، یہاں پرانکے
استقبال کیلئے قاہرہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پرمصری صدرعبدالفتاح السیسی
خود موجود تھے۔ ولی عہد کا عرب ممالک کے طویل دورے کا یہ تیسرا پڑاؤ تھا،
سب سے پہلے انہوں نے 22؍ نومبر کو عرب ممالک کے دورے کا آغاز کیا تھا۔سعودی
ولی عہد نے مصری صدر السیسی سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات کواور مزید
مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔مصر اور سعودی عرب کے درمیان بھی
تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور عرب خطے میں جاری
کشیدگی بالخصوص شام کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا اور خطے میں کشیدگی کم
کرنے سے متعلق مختلف عوامل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ولیعہد محمد بن
سلمان کا یہ دورہ ان ممالک کے درمیان صرف بہتر تعلقات ہی ہے یا پھر کوئی
اہم راز موجود ہے۔ کیونکہ عالمِ اسلام کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں اور
اسلامی ممالک کے درمیان کسی نہ کسی طرح پھوٹ ڈالنے کی پالیسی دشمنانِ اسلام
کرتے رہے ہیں جس کی مثال ان دنوں مصر ، متحدہ عرب امارات، بحرین کے ساتھ
قطر کے تعلقات سے لی جاسکتی ہے۔ قطر کے تعلقات ترکی اور ایران کے ساتھ بہتر
ہیں یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم
ہونے کے بعد بھی قطر اپنی معیشت کو مستحکم بنائے رکھنے میں اقدامات کررہا
ہے۔
قطر کو امریکہ کی جانب سے 2021میں جدید جنگی طیاروں کی فراہمی
ایک طرف امریکہ سعودی عرب کو کروڑہا ڈالرس سے ہتھیار اور فوجی سازو سامان
فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب اسکے مخالف ملک قطر کو بھی جنگی طیاروں کی
فراہمی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق قطر کو امریکہ مارچ
2021میں 6جدیدF-15 جنگی طیارے فراہم کر ے گا۔ ان طیاروں کی فراہمی قطر اور
امریکہ کے درمیان طے پائے جانے والے ایک معاہدے کے تحت عمل میں لائی جائے
گی ،قطر کا امریکہ سے 12بلین ڈالر مالیت کے 36ایف ۔15جنگی طیاروں کی
خریداری کا معاہدہ ہوا تھا۔ اعلیٰ قطری فوجی اہلکار بریگیڈیئر جنرل عیسی
المہانندی نے کہا ہیکہ 6 طیاروں پر مشتمل پہلی کھیپ موصول ہونے کے ہر تین
ماہ بعد امریکہ کی جانب سے چار جنگی جہاز فراہم کیے جائیں گے۔امریکہ ایک
طرف امن و سلامتی کی بات کرتا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی ملک کو جنگی طیارے ، فوجی سازو
سامان اور خطرناک ہتھیار فراہم کرنے کے بعد یہاں کے حالات بگڑسکتے ہیں اور
جب ان ممالک میں حالات خراب ہوتے ہیں ، ملک میں امن و سلامتی کو خطرہ لاحق
ہوتا ہے یا پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگی حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہی امریکہ ان
ممالک کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتا ہے کہ جس کی مثال افغانستان، پاکستان اور
عراق سے لی جاسکتی ہے اب نہیں معلوم سعودی عرب اور قطر کے درمیان بھی کس
قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ عرب حکمراں اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی
کوشش کریں اور ماضی قریب کے حالات کا جائزہ لیں ورنہ ان حکمرانوں کو بھی
اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور بعد سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا
جاسکتا۰۰۰
مملکتِ سعودی میں باصلاحیت افراد کی کمی
سعودی عرب میں ہزاروں تارکین وطن بشمول ہندو پاک کو بے روزگار کرنے کے بعد
باصلاحیت افراد کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ ہندو پاک اور دیگر ممالک کے
تارکین وطن کم تنخواہوں میں سخت محنت سے کام کرتے ہیں لیکن سعودی نوجوانوں
کو روزگار سے مربوط کرنے کیلئے تارکین وطنوں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں دیئے
بغیر واپس بھیج دیا گیا ۔کئی سعودی شہری بہتر، تجربہ کار اور باصلاحیت ہیں
اور وہ محنت سے کام بھی کرتے ہیں لیکن ہزاروں ایسے بھی ہیں جو کام کرنے کو
معیوب سمجھتے ہیں یا پھر گھر بیٹھے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق سعودی وزارت شہری خدمات نے بتایا ہے کہ باصلاحیت افراد کی کمی کے
باعث ہمارے یہاں 40ہزار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ سعودی
وزارت شہری خدمات نے ایک بیان میں کہاہیکہ خالی اسامیوں کا باقاعدہ اعلان
سال بھر کیا جاتا رہتا ہے تاہم اسامیوں کیلئے موزوں امیدواروں کے فقدان کی
وجہ سے کسی کی تقرری نہیں ہوئی۔ ان میں سے 3142اسامیوں کا تعلق کنسلٹنٹ
ڈاکٹرس ، 4140کا تعلق اسسٹنٹ ڈاکٹر اور 4923کا آن ڈیوٹی ڈاکٹرس سے ہے۔جبکہ
بتایا جاتا ہے کہ 60386 اسامیوں پر غیر ملکی کام کررہے ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ
سعودی عرب میں باصلاحیت افراد کی کمی کو دور کرنے کے لئے ویزے جاری کئے
جاتے ہیں یا پھر نہیں۔
ممبئی حملوں کے بعد ۰۰۰
ہندو پاک کے درمیان تعلقات کبھی بہتر ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو پھر کسی نہ
کسی طرح یہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستانی بحریہ
کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا نے پاکستان کو موردِ الرام ٹھہراتے ہوئے کہا
ہے کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کو تربیت دینے کا انفراسٹرکچر موجود
ہے۔ ممبئی حملوں کے دس سال کی تکمیل کے موقع پر بی بی سی کو دیئے گئے ایک
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہاکہ ہندوستانی حکومت پاکستان کو دہشت گردوں کی
تربیت اور نقل و حمل کی جگہ تصور کرتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ممبئی حملوں
کے بعد دس برس میں ہندوستان نے ساحلی سیکیوریٹی کے حوالے سے کافی ترقی کی
ہے ۔ ممبئی حملوں کے بعد حکومت ہند کوکافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس
کے بعد حکومت نے سمندری سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے کئی بڑے اقدامات کرنے
کا فیصلہ کیا تھا۔لیکن دس برس گزرجانے کے بعد بھی ایک تاثر یہ ہے کہ ان میں
سے کئی تجاویز پر اب تک عمل نہیں کیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایڈمرل
سنیل لامبا نے بتایا کہ ہم پہلے سے زیادہ تیار ہیں۔ بحریہ اور ساحلی
محافظین کے درمیان اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار قائم کردیا گیا ہے۔ ساحلی
سیکوریٹی مشقیں ہوتی رہتی ہیں اور اگلے سال جنوری میں سی وجل کے نام سے مشق
ہوگی جس میں ساحلی سیکیورٹی اور ریاستوں کے پورے میکانزم حصہ لیں گے۔ اس
طرح انکا کہنا ہے کہ ہم بہتر طرح سے تیار ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کی
سیکیوریٹی کو مضبوط بنانے کیلئے حکومت ہند پوری مستعدی سے کام لیں اور عصری
تقاضوں سے لیس ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔ ملک کی ترقی ، امن
وسلامتی اور خوشحالی سیکیوریٹی ایجنسیوں کی مضبوطی میں مضمر ہوتی ہے اگر
ملک میں دہشت گردی ، اور خون خرابہ کا ماحول بنا رہے ، ہر آئے دن مذہب کے
نام پر قتل و خون ہوتا رہے تو ملک ترقی کے بجائے کشیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔
آج بھی ہندوتوا طاقتیں ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے اس کے باوجود
مرکزی و بعض ریاستی حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔
شام میں صرف خواتین کیلئے گاؤں بسانے کا اعلان
ملک شام میں جہاں لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام ہوچکاہے ۔ لاکھوں افراد بے
گھر ہوچکے ہیں ۔ کئی ہزار خواتین بیوائیں ہوچکی ہیں ۔ شام کی اس جنگ اور
خون خرابے کے دوران حسکہ گورنری میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی
تنظیموں نے ایک ایسا گاؤں بنانے کا اعلان کیاہے جس میں صرف خواتین کو جانے،
رہنے اور وہاں کام کاج کی اجازت ہوگی۔ اس گاؤں میں ان خواتین کو رکھا گیا
ہے جن کے شوہر جنگ میں مارے گئے اور ان کے بچوں کی کفالت ان بیواؤں کے
کندھوں پرآگئی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی شام میں انسانی حقوق تنظیموں نے
شمالی دمشق میں یوروجافا کے مقام پر جینوار کے نام سے ایک گاؤں
بسالیا،اگرچہ یہ گاؤں کردوں کے زیر انتظام ہے مگر اس میں آنے والی خواتین
کیلئے قوم اور مذہب کی کوئی قید نہیں۔ وہاں پر تعمیر کردہ مکان اور گھر کچے
ہیں۔ ان کی تعمیر میں زیادہ تر خواتین ہی نے حصہ لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مٹی
اور گارے کے علاوہ درختوں کے تنوں سے ان کی دیواریں بنائی گئیں۔اس علاقے کا
انتظامی کنٹرول کرد پروٹیکشن یونٹس کے پاس ہے جسے عالمی اتحادی فوج کی
معاونت حاصل ہے۔ اس قصبے میں خواتین کے رہنے کیلئے 30 گھر تعمیر کئے گئے
ہیں۔ اس میں بچیوں کا ایک پرائمری اسکول اور ایک ڈسپنسری بھی بنائی گئی ہے۔
ایک تھیٹر، ہوٹل، میوزیم، پارک اور سبزیوں کی کاشت کیلئے ایک فارم بھی
بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کو دودھ کی ضروریات کیلئے 200 بکریاں بھی رکھی گئی
ہیں۔یہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے، تاہم ایسے مرد جن کی قریبی خواتین رشتہ
دار یہاں ہوں تو وہ ان سے ملاقات کیلئے آسکتے ہیں، مگر انہیں یہاں پر قیام
کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اس طرح شام کی ان مظلوم خواتین کیلئے ایک چھوٹا
سا گاؤں بسایا گیا ہے جو تعلیم، طبی نگہداشت و دیگر ضروریات زندگی کی
سہولتوں کے ساتھ ہے۔ |