100 دن اور تبدیلی سرکار

تحریک انصاف کی حکومت کے100 دن مکمل ہوچکے ہیں،کوئی وزیر اعظم سائیکل پر دفتر گیا نہ کوئی گورنر ہاؤس یونیورسٹی بنی،کہیں پروٹوکول ختم ہوا نہ ریڈ زونز کے گرد ہی کوئی سرخ دائرہ لگ سکا،پٹرول پنتالیس روپے لٹر ہوا نہ سوئی گیس کی مفت فراہمی ہی شروع ہو سکی،عام آدمی پہلے بھی علاج کے لے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا تھا اب بھی صورتحا ل کچھ مختلف نہیں بلکہ پہلے سے ابتر ہے،انصاف پہلے بھی دیوانے کا خواب تھااب بھی یہ صرف خواب اور کتاب تک محدود ہے،پولیس پہلے بھی اقتدار والوں کے در کی لونڈی تھی یہ اب بھی ویسی کی ویسی ہے ،پہلے ن غنے اپنی من مرضی سے لوگوں کو اندر اور باہر کرواتے تھے اب وہی کام اس سے زیادہ جوش سے تبدیلی سرکار کر رہی ہے،ہاں مگر کہیں نہ کہیں تبدیلی آئی ضرور ہے اور وہ تبدیلی ہے جناب خان صاحب کے موئقف اور ارادوں میں،وہ کہتے تھے مر جائیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اب انہوں نے مرنے کا ارادہ ترک کر دیا،انہوں نے کہا تھا کہ گورنر ہاؤسزکو اسکول اور یونیورسٹی بنا دیا جائے گا اب انہوں نے ہفتے میں ایک دن ہی سہی عوام کے لیے کھول دیا گیا،اس کے علاوہ سائیکل پر دفتر جانے کی بجائے 55روپے کلومیٹر سفر کروانے والا ہیلی کاپٹر منگوا لیا گیا پچاس لاکھ گھر بنانے کی ابتدا یوں کر دی گئی کہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ساٹھ ستر لوگوں کے لیے رات گذارنے کے ٹینٹ لگا دیے گئے،ایک کروڑ نوکری کا پراجیکٹ ابھی شروع ہوا نہیں تاہم یوٹیلیٹی استور جیسے کچھ ادارے بند کر رکے بیس سے پچیس ہزار لوگوں کو بے روزگار کر دیا گیا ہے،بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کی طرف رواں دوان ہیں،ڈالر ویسے پکڑائی نہیں دے رہا،تبدیلی اس حد تک ضرور آئی کہ اسحٰق دار کی جگہ اسد عمر اور ماروی میمن کی جگہ ذلفی بخاری جیسے لوگوں کو بٹھا دیا گیا ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ملک بھر کی طرح ضلع چکوال ایک بھی کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا ہے عام آدمی جس نے پی ٹی آئی کی مقامی و قومی قیادت کے وعدوں پر اعتبار کیا اور بڑھ چڑھ کر نہ صرف الیکشن مین حصہ لیا بلکہ چکوال جو ہمیشہ سے ن لیگ کا گڑھ تھا کی چھ نشستوں میں سے پانچ پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کامیابی دلوائی جس کے فوری بعد ہی یہ امید لگا لی کہ اب ملک میں خالصتاً عوامی حکومت قائم ہو گی اور خلق خدا راج کرے گی،چوروں اور لٹیروں کا احتساب ہو گا ظالموں کی گردن ناپی جائے گی مگر اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وفاق اور پنجاب میں اہم ترین عہدوں پر وی گھسے پٹے اور پرانے چہرے براجمان ہو گئے احتساب کا سارا زور فقط اپوزیشن بلکہ میاں نواز شریف کے گرد شکنجہ کسے جانے تک محدود ہو گیا،کیا ہی بہتر ہوتا کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ دو چار حکومتی افراد کو بھی احتساب کی بھٹی سے گذارا جاتا تو عوام کا اعتماد نیب اور اھتساب دونوں پر قائم ہوتا،حکومتی افراد کا احتساب تو کجا جو بھی بھاگ کر پی ٹی آئی میں گھس گیا جان کی امان پا گیاپہلوں کی طرح اب کی بار یہاں بھی یہی پریکٹس دھرائی گئی جو کل تک ن لیگ اور پی پی پی میں تھے آج نہ صرف پاکستان تحریک انصاف میں ہم عہدوں پر بلکہ ایم این اے اور ایم پی اے ہیں پہلے کی طرح اب بھی پولیس ہو یا دیگر انتظامی افسران کسی کی مجال نہیں کہ ان کے سامنے دم مار سکے۔ غلام صغیر شاہد سابق ڈپٹی کمشنر کی طرف سے سپریم کورٹ کو لکھے جانے والے خط جس میں انہوں نے ایم این اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ کے سیاسی دباؤبارے ذکر کیا تھا اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں معافی کے بعد ضلع چکوال کے تمام حکومتی پارلیمنٹرینز دفاعی پوزیشن پر چلے گئے تھے تاہم مذکورہ ڈپٹی کمشنر کو کھڈے لائن لگا دینے کے بعد یہ لوگ دوبارہ اپنی اپنی کھچاروں سے باہر نکل رہے ہیں ۔ صوبائی وزیر راجہ یاسر سرفراز کو سو دنوں کیلئے بنائی جانیو الی ٹاسک فورس میں بھی شامل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے راجہ یاسر سرفراز کا اپنے حلقے سے رابطہ مکمل طور پرکٹ گیا اور ان سو دنوں میں وہ صرف تین چار بار اپنے حلقے میں دیکھے گئے ، راجہ صاحب نے چکوال میں سیر و سیاحت کی ترقی کے لیے دس کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا جو ابھی تک محض اعلان ہی ہے کیوں کہ عملی کام کہیں بھی ابھی تک شروع نہیں ہوا اس کے علاوہ راجہ یاسر سرفراز نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کو پنجاب کے ماڈل کالجز کی فہرست میں شامل کرا یا مگر اس پر بھی ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ ضلع چکوال کو ابتداء میں ہی پنجاب حکومت میں دو وزارتیں ملی ہیں جس کے بعدضلع کے15لاکھ عوام کو تبدیلی سرکار سے حقیقی تبدیلی کے لیے بڑی توقعات تھیں کہ اب ان کے مسائل حل ہونگے مگر صورتحال یہ ہے کہ عوام کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے عام اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے مہنگائی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے عام آدمی کے گھر کا بجٹ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ اشیاء ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور غریب آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی بڑا مسئلہ فیثا غورث بن چکا ہے۔ نہ جانے وہ دعوے وعدے اور سہانے خواب کدھر گئے جو یہ لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے لوگوں کو دکھایا کرتے تھے،لوگ ابھی تک اسد عمر صاحب کی طرف سے فری سوئی گیس اور پینتالیس روپے لٹر والے پٹرول کا انتظار کر رہے ہین، تجاوزات کے حوالے سے بات کی جائے تو چھوٹی موٹی کارروائیاں جاری ہیں مگر کہیں بھی بڑے مگرمچھوں پر ابھی تک ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن جس نے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا تھا مکمل طورپر تتر بتر ہوچکی ہے، حلقہ این اے65میں تو مسلم لیگ ن کے عمائدین اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے سراپا شرمندگی بن چکے ہیں اوراپنے ہاتھوں اپنے آپ کو لگائے زخم چاٹ رہے ہیں۔ ضلع کی اہم ترین سیاسی شخصیت جن کا سب سے بڑاذاتی ووٹ بنک ہے کے اوپر بھی ابھی بدقسمتی کے سائے بدستور گہرے ہیں،ن لیگ کو چھوڑنے کے بعد ابھی تک ان کا ڈھلوان کا سفر ہے کہ رکنے کا نام ہی نہی لے رہا،اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے عام کارکنوں میں بھی شدیدمایوسی دکھائی دیتی ہے کیوں کہ جہاں تحصیل تلہ گنگ اور لاوہ میں مسلم لیگ ن کو خجالت کا سامنا ہے وہاں پر پی ٹی آئی بھی عملی طور پر تقریباً ختم ہوچکی ہے، جس کی اول وجہ جنرل الیکشن اور بعد ازاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے اپنا امیدوا ر کھڑا نہ کیا اور ق لیگ کی حمایت کی جس کی وجہ سے کارکنوں میں بد دلی پائی جاتی ہے تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل لاوہ میں اب مسلم لیگ ق کے چوہدری سالک حسین اور صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اب ہر سنیئر جونیئر سیاستدان خواہ اس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے یا ق لیگ سے حافظ عمار یاسر کے ڈیرے کا طواف کرتا نظر آ رہا ہے تلہ گنگ کی سیاست ٹمن سے نکل کر اب مکمل طور پر حافظ عمار یاسر کے ہاتھ میں آ چکی ہے حافظ عمار یاسر جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے پی ٹی آئی کے ایم این اے اور ایم پی ایز سے کہیں بہتر پرفارم کر رہے ہیں اور اکثر و بیشتر علاقے میں پائے بھی جاتے ہیں اس کے علاوہ گاہے حلقے میں گھوم پھر کر لوگوں کے احوال لے رہے ہیں دوسری طرف ضلع میں مسلم لیگ ن کے پاس جنرل عبدالقیوم، مہوش سلطانہ اور تنویر اسلم سیتھی کی شکل میں پارلیمنٹرینز بھی موجود ہیں مگر نیب کا ڈر یا کوئی اور مصلحت، بھرپور اپوزیشن کا کردار ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بدستور ہو رہا ہے ،کس کا احتساب ہو رہا ہے اور کون کون جیل جائے گا ،روپیہ سستا ہو گا یا ڈالر مزید اوپر جائے گا پیسے سعودی عرب دے گا یا ورلڈ بنک عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں اسے اپنے بوڑھے والدین کے علاج اور بچوں کی اسکول کی فیس کے علاوہ دو وقت کی روٹی سے غرض ہے،جس دن اس کے یہ مسائل حل ہو گئے اس دن واقعی تبدیلی آ جائے گی۔۔۔اﷲ سب پر رحم کرے۔