ناصر دُرانی ، چیف جسٹس اور چیئرمین نیب

اِس وقت میں ملک کے دو بڑے اور معزز فاضل موجودہ اور سابق جج صاحبان سے مخاطب ہوں ، فاضل جسٹس جاوید اقبال چیئرمین نیب اور فاضل چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اِس وقت عوام، خواص، فوج اور میڈیا کے دل و دماغ پر راج کر رہے ہیں۔ اگر اِس وقت بھی اِن دو معزز شخصیات سے کچھ نہ بن سکا تو پاکستان کرپشن اور لوٹ مار میں زمبابوے اور نائیجیریا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ دونوں فاضل شخصیات نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ملک و قوم سے بدعنوانی کا ناسُور اُکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کو کرپشن کلچر تبدیل کرنے پر مینڈیٹ ملا ہے اور اِن کی ہر تقریر میں لوٹی ہوئی دولت ، منی لانڈرنگ ، بے نامی اِکاؤنٹس، ٹیکس چوری اور لینڈ مافیاکا ذکر ہوتا ہے۔اگر یہ سب کچھ سچ ہے اور میرا یقین ہے کہ سچ ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ خیبرپختونخواہ کے سابق آئی جی پولیس اور نام نہاد ایماندار ، دیانتدار ناصر خان دُرانی کے غیر قانونی اثاثہ جات کی درخواست کس نے چھپائی اور کس کے حکم پر یہ درخواست فائل گم ہو گئی ؟ناصر خان دُرانی نے خیبرپختونخواہ پولیس میں کرپشن کے لیئے جو گھناؤنا کھیل کھیلا ہے وہ بدنام زمانہ پولیو اِسکینڈل میں منظر عام پر آ چکا تھا مگر پولیس کے بعض اعلیٰ اَفسران نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر اس کیس کو دریا بُرد کر دیا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سب کچھ ناصر خان دُرانی کے کہنے پر ہوا تھا۔ نا م نہاد پولیس اصلاحات مکڑی کا جال ثابت ہوئے ہیں اور خیبرپختونخواہ صوبے میں پہلے بھی بد اَمنی تھی اور اب بھی حالات اِنتہائی بدتر ہیں۔یہ بھی لوگ جانتے ہیں کہ دھماکے نہ ہونا فوجی عدالتوں کی سخت سزاؤں ، آپریشن ضرب غضب اور آپریشن دَرالفساد کی وجہ ہے ۔ یہ پولیس کی لولی لنگڑی سی ٹی ڈی کا کام نہیں ہے مگر فوج کھلے عام اِس قسم کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتی ۔ پولیو اِسکینڈل کم اَز کم پچاس کروڑ کا اِسکینڈل تھامگر اِسے اب آنٹی کرپشن نامی محکمے کو دیا گیا ۔ در اَصل اس کیس کو ختم کرنے کے لیئے تمام تر زور ناصر خان دُرانی نے لگایا تھا کیونکہ اِس کا بڑا حصہ (لائن شیئر) لاہور چلا گیا تھا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ اَفسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں ناصر دُرانی کی اتنی جائیدادیں ہیں کہ یہ ایک عام اَفسر کی قطعاً نہیں ہو سکتیں۔ صرف جوہر ٹاؤن کا پلاٹ کروڑوں میں فروخت ہوا ہے۔ لاہور کاگھر کئی ایکڑ پر مبنی پشاوری اور سواتی سنگ مرمر اور ہزارہ و سوات کی بہترین لکڑیوں سے آراستہ ہے ۔ اسلام آباد کا قیمتی گھر بھی ایک اِکاؤنٹنٹ کی محنت کا نتیجہ ہے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اِکاؤنٹنٹ کون تھے؟کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ ہاں اِن اِکاؤنٹنٹ میں اہم کردار پولیس لائن پشاور میں تعینات حاجی اَسلم ہے جو بیک وقت اِکاؤنٹنٹ بھی ہے اور بجٹ اَفسر بھی ۔ چند دن پہلے تاریخ میں پہلی مرتبہ حاجی اسلم اور اُس کا بھائی ناظم پراپرٹی کاروبار کے بڑے ڈیلر اور کروڑوں اَربوں کے اثاثوں کے مالک نکلے ۔ خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ اَفسر نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان سے شکایت کی کہ پولیس اَفسران بد ترین کرپشن میں ملوث ہیں اور تمام معاملات کا سرغنہ حاجی اسلم ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ شکایت آئی جی پی خیبرپختونخواہ صلاح الدین محسود سے کی جنہوں نے فوری طور پر حاجی اسلم کو اپنے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا اور انعام اﷲ نامی شخص کا آرڈر کر دیا گیا۔خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ اَفسران کی شکایت پر خیبرپختونخواہ نیب بھی حرکت میں آگئی اور تمام تر ریکارڈ دیکھنے کے بعد فوری طور پر حاجی اسلم کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔ واضع رہے کہ یہ وہی حاجی اسلم ہے جس نے پشاور اور ہزارہ کے پولیو اِسکینڈل کو نیب سے بچانے کے لیئے ٹھیکیداروں سے حلفی بیانات حاصل کیئے تھے۔ حاجی اسلم کے ہاتھ بہت لمبے ثابت ہوئے اور اِس نے چارج چھوڑنے سے اِنکار کیا۔ حاجی اسلم نے اپنی گینگ سے مشورہ کیااور ایک وفد کی صورت میں وزیراعلیٰ کے علاقے مٹہ چلے گئے جہاں وزیر اعلیٰ کے قریبی رشتہ داروں سے "معاملات" طے کرنے کا کہا۔ اس ملاقات میں ایک اہم ڈی آئی جی جو اِس وقت پورا صوبہ چلا رہا ہے کی آشیر باد اُسے حاصل تھی کیونکہ اِس کوناصر دُرانی نے سفارش کی تھی کہ حاجی اسلم کو وزیر اعلیٰ سے تھرو کیا جائے ۔یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے تو حاجی اسلم اپنے قریبی گینگ کے ساتھیوں کے ساتھ ناصر خان دُرانی کے پاس لاہور چلے گئے اور اُن سے صاف صاف کہا کہ آج تک میں نے جو بھی کیا ہے آپ کے لیئے کیا ہے اس لیئے اب موجودہ آئی جی پی صلاح الدین محسود سے کہا جائے کہ وہ مجھے تنگ نہ کرے۔ ناصر دُرانی نے حامی بھر لی مگر اندرونی اطلاع کے مطابق حاجی اسلم سے ایک بہت بڑی رقم کا مطالبہ کیا جو حاجی اسلم دینے پر راضی نہ ہوئے۔وفد کی ناکامی کی صورت میں کہ اعلیٰ افسران مذید مطالبہ کر رہے ہیں حاجی اسلم دھمکی پر اُتر آئے اور اَفسران سے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر آپ مجھے ہٹانا چاہتے ہیں تو پہلے میرا قرضہ واپس کریں جو کروڑوں یا اَربوں میں ہے ۔یہ سن کر موجودہ آئی جی پی جو خود ایک ایماندار اَفسر ہیں اور فورس کی بدنامی نہیں چاہتے سخت پریشان ہو گئے کہ اگر حاجی اسلم کو چھیڑا جاتا ہے تو گزشتہ تمام سی سی پی اوز حضرات کی قلعی کھل جاتی ہے اور خاموش رہتے ہیں تو وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور نیب سمیت اعلیٰ خفیہ اِیجنسی کو کیا جواب دیں؟ حاجی اسلم یہ دھمکی دیکر عمرے پر چلا گیا مگر تاحال اپنے عہدے کا چارج نہیں چھوڑا ہے ۔ اندرونی خبروں کے مطابق حاجی اسلم گزشتہ کئی سالوں سے پشاور کے محرران، ایس ایچ اوز حضرات اور چوکی انچارج لگاتا تھا۔ ہر سی سی پی او کی تعیناتی کی پہلی رات کو حاجی اسلم چارپانچ کروڑ روپے پیش کرتا تھا جس کو دیکھ کر سی سی پی او کی آنکھیں کھلی رہ جاتی تھیں کہ یہ پیسے کس مدد سے اور کس فنڈ سے پورے ہونگے ؟ حاجی اسلم اس کے بعد پوسنگ ٹرانسفر کی لسٹ پیش کرتا اور اِسی طرح کروڑوں کا پولیو فنڈ، گاڑیوں کی مرمت کے فنڈ، ماہانہ تیس چالیس لاکھ پٹرول ڈیزل کا فنڈ، محرم الحرام کے چھ کروڑ کا فنڈ اور الیکشن ڈیوٹی کے کروڑوں کے فنڈ حاجی اسلم کی صوابدید پر خرچ ہوتا اور تمام تر فرضی کاغذات تیار ہو کر دستخط بھی ہوجاتے اور اے جی آفس اور فنانس سے بھی بلز پاس ہو جاتے۔ یہ دَھندہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت میں ناصر دُرانی کی زیر سرپرستی شروع ہوا اور آج اِس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ حاجی اسلم نے صاف صاف کہا کہ جو رقم میں نے اَفسران کو دی ہے وہ بطورِ قرضہ دیا ہے اور میرے ذاتی کاروبار ہیں ۔ پہلے وہ قرضہ واپس کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ پولیس اَفسران اِس جال میں پھنس چکے ہیں کیونکہ حاجی اسلم کے کاغذات پورے ہیں اور ایس ایچ اوز اور محرران تعیناتی کی بھاری رقوم کا کوئی ریکارڈ اور گواہ نہیں ہے۔اَفسران اِنکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اَفسران کے لیئے مختلف اَثاثہ جات جو خفیہ میں حاجی اسلم کے ہاتھوں خریدے گئے ہیں اِ س کا راز اُس کو معلوم ہے۔ اگر حاجی اسلم پر نیب کی دُرست انکوائری ہوتی ہے تو کئی پولیس اَفسران کے غیر قانونی اثاثہ جات پلک چھپکتے باہر آجائیں گے۔ جس کو میرے خیال میں ڈیم فنڈ میں دینا چاہیئے۔ حاجی اسلم کو اَفسران کے غیر قانونی کاروبار کا بھی بخوبی علم ہے ۔ بدی کا یہ دائرہ سابق آئی جی پی ناصر دُرانی کے گرد گھومتا ہے مگر نیب خیبرپختونخواہ میں چونکہ کئی اَفسران خود بہت کرپٹ ہیں اِس لیئے وہ کوئی باہر باہر مک مکا کریں گے جس طرح اَسلحہ اِسکینڈل اور پولیو اِسکینڈل میں اَفسران کو بچایا اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ اِس اسکینڈل میں بھی اَفسران کو بچایا جائے گا۔ خیبرپختونخواہ نیب جس کی بے عزتی کرنا چاہے اُس کے خلاف خود خبریں دیتا ہے مگر جس کو بچانا چاہے اُس کو گرفتار کرنے کی بجائے اُس کا ریفرنس عدالت میں بھیج دیتا ہے یا اس کو خود قانونی داؤ پیچ سیکھاتا ہے۔ چیئرمین نیب سے درخواست ہے کہ فی الفور حاجی اسلم کی گرفتاری کا حکم دے قبل اِس کے کہ پولیس اَفسران اس کا خاتمہ کرکے ثبوت ہی ختم نہ کر دیں۔ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان اگر عمران خان کی بہن علیمہ خان کے اثاثہ جات کی انکوائری کا حکم دے سکتا ہے تو ناصر خان دُرانی کے اَثاثہ جات کی انکوائری کیوں نہیں کی جا سکتی اور چیئر مین نیب بھی اگر نیب کی غیر جانبداری اور بدعنوانی سے پاک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو حاجی اسلم سمیت ناصر دُرانی کی فائل بھی کھولیں، بہت کچھ خود بخود باہر آجائے گا۔

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90163 views i am a humble person... View More