سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن

سو دن کے جن کا وعدہ تھا
ہم دیکھ چکے ، ہم دیکھ چکے۔
وزیراعظم عمران خان نے تنقیدی حلقوں سے یہ گزارش کی تھی کہ حکومت کو سو دن کا وقت دیا جائے اور سو دن کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے رائے قائم کی جائے ،لیجئے !سودن پورے ہوئے ۔
تبدیلی کا نظام آگیا ،کرپشن کا خاتمہ ،نیا بلدیاتی نظام لائیں گے :وزیراعظم عمران خان کا بیان
پاکستان کی مالی مشکلات کم کریں گے ، چین نے پاکستان کے ساتھ پندرہ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کر دئیے !
وزیراعظم عمران خان کی چینی صدر سے ملاقات ،چھ ارب ڈالر کا پیکج ملنے کا امکان !
وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نیلام !
وزیراعظم اور وزرا کے صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کی منظوری !
امریکی جنگ کی بھاری قیمت چکائی ، اب صرف پاکستان کا مفاد ہوگا:وزیراعظم عمران خان کا بیان!

یہ ہیں سو دن کی وہ کامیابیاں جو عوام کو بتانے کے لئے حکومت کی طرف سے تمام قومی اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے گئے ہیں۔حکومت کی طرف سے اخبارات میں گاہے بگاہے شائع ہونے والی ان خبروں کو اس کے اپنے حق میں گواہی تسلیم کیا گیا ہے تو ہم اس گواہی کو معتبر مان لیتے ہیں۔

تبدیلی اگر نواز شریف اور شہباز شریف کو حکومت سے ہٹانا تھا تو مبارک ہو تبدیلی آچکی ۔ کرپشن اگر پانامہ کے ہنگامے میں شامل سینکڑوں افراد سے چشم پوشی کرنے اور نواز، شہباز کو جیل میں ڈالنے کا نام ہے تو خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کے خاتمے کے لئے چین کے ساتھ کی گئی مفاہمتی یادداشتوں پر پیشرفت تو ظاہر ہے سو دن میں ممکن ہی نہیں لیکن سنتے ہیں کہ چھ ارب ڈالر کاممکنہ پیکج بھی ACTIVATEنہیں ہو پارہا۔ وزیراعظم ہاؤس کی اضافی گاڑیاں البتہ نیلام ہو چکی ہیں اور اس سے قوم کو مبلغ بیس کروڑ روپے کی آمدن ہوئی ہے لیکن یہ بیس کروڑروپے قوم کی مشکلات کو کم کرنے میں قابل ذکر کردار ادا کرنے کے لئے کسی صورت کافی نہیں ہیں ۔ کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں تمام وزرا کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے گئے ہیں ۔ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو شائد تحریک انصاف کے اس نظم سے آزاد کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے صوابدیدی فنڈز حاصل کر لئے ہیں ۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو مسلم لیگ ن کی ،تحریک انصا ف کی یاسب سے پہلے پاکستان والے ’’سید ی پرویز مشرف‘‘ کی!ہر ایک نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قوم کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ ملک و قوم کا مفاد مقدم ہوگا لیکن سوائے محب وطن جرنیلوں کے جو بھی ایوان اقتدار سے نکلا غداری کا سرٹیفکیٹ اس کا اعزاز قرار پایا،تازہ ترین مثال مودی کے یارمیاں نواز شریف کی ہے ۔

وہی نواز شریف جو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دو تین ہفتے تک گونگا ،میسنا بن کر ہر ایک سے پوچھتا تھا کیا کرنا چاہئے لیکن پھر اچانک ایک لوہار کی ایسی لگائی کہ بھارتی وزیراعظم واجپائی امرتسر کے راستے واہگہ سے ہوتے ہوئے مینار پاکستان پہنچ گئے ۔ تب پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے والی ایک مذہبی سیاسی جماعت پاکستانی قوم اور کشمیریوں کے غم میں ہلکان مظاہرے کررہی تھی ۔ پھر ’’سیدی پرویز مشرف ‘‘ نے دلی کے لال قلعے پر پاکستانی پرچم لہرانے کے لئے کارگل پر چڑھائی شروع کی تو سیدھا ایوان صدر میں جا کر دم لیا۔ لیکن یہ کمانڈوجب ایوان صدر سے نکل کر کھٹمنڈو پہنچا تو اسے ساری دنیا کے سامنے خود جا کر واجپائی سے مصافحہ کر کے مذاکرات کی بھیک مانگنا پڑی ۔ کاش ایک بھارتی کامیڈین کے صدقے واری جانے والی قوم ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ہمسائے بھارت کے وزیراعظم کو بھی اتنی ہی عزت دے دیتی ۔

مودی کے یار سے یاد آیا کہ بھارت کے ساتھ کرتار پورہ سرحد کو کھولنے کا بہت چرچا ہے ۔ عالمی امور کے ثقہ ماہرین کی حتمی رائے کے مطابق کرتار پورہ کوریڈور کی تعمیردونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کا آغاز ہے ۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو جوش جذبات میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی طرف سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی کو بھارتی پنجاب کے دورے کی دعوت کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ’’بریک تھرو‘‘بھی قرار دیا ہے ۔ لیکن شائد ان ثقہ ماہرین اور نیوز ویب سائٹ کے مدیر کی نظر سے بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی وہ خبریں نہیں پہنچیں جن کے مطابق بھارت کی حدود میں کرتار پورہ راہداری کے افتتاح کے موقع پر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ پاکستان کی طرف منہ کر کے خالص سرداری بڑھکیں مارتے رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے یہ بڑھکیں انہوں نے کسی کے بہکاوے میں آکر ماری ہوں لیکن دیدی سشما سوراج تو ’’سیانی بیانی ‘‘ ہوکر بھی باز نہیں آئیں ۔ پہلے ہمارے شاہ جی کو خط لکھا کہ اپنی مصروفیت کی بناپر میں دو وزیر بھیج رہی ہوں پھر یو ٹرن لے لیا کہ وہ تو اپنی ذاتی حیثیت میں گئے ہیں ۔ دیدی نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ مزید ندیدے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا کہ کرتار پورہ بارڈر کھولنے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شرو ع کر دیں گے ۔

لیکن ہمارے وزیراعظم ہیں کہ مذاکرات مذاکرات کی رٹ لگائے جارہے ہیں ۔سمجھ سے باہرہے کہ ہمیں اتنی جلدی کاہے کی ہے ؟ کیوں ہم مذاکرات کے لئے مرے جارہے ہیں ۔ خارجہ پالیسی کی باریک گتھیاں اس قدر جلد بازی میں نہیں سلجھائی جاسکتیں ۔والدہ محترمہ نے بچپن میں ایک سبق پڑھایا تھا ’’پتر !اینے مٹھے نہ بنو کہ اگلا نگل جاوے ،تے اینے کَوڑے وی نہ بنو کہ اگلا تھُک دیوے‘‘(اتنے میٹھے مت بنو کہ دوسرے تمہیں نگل جائیں اور نہ ہی اتنے کڑوے بنو کہ کوئی تمہیں بالکل ہی دھتکار دے)۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ بار بار مذاکرات کی بھیک مانگنے کی بجائے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرے ، چین اور روس کا سفارتی تعاون استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ پر چلے۔

تلخ حقائق کے باوجو د،جذباتی ہوئے بغیر میری ایماندارانہ رائے ہے کہ کرتارپورہ راہداری کی تعمیر بہرحال پاکستا ن کے مفاد میں ہے ۔ مذہبی سیاحت کا اس سے بہترین موقع پاکستا ن کے پاس ہو نہیں سکتا جس سے سارا سال خاص طوپر باباگورنانک کے جنم دن اور برسی پر اربوں کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ سکھ بھائیوں کے مذہبی جذبات کا احترام بجا اور ان کی پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی دوستی میں بدلتی سوچ بھی خوش آئند لیکن تاریخ کو ابھی بہت سا سفر کرنا باقی ہے۔ فی الحال ہمیں ہر گز ہر گزکرتارپورہ سرحد کو ویزہ فری نہیں کرنا چاہئے ۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے جہاں اتنی وارفتگی دکھائی جائے ۔ بھارتی شہریوں کوویزہ فری داخلے کی اجازت دے کر ہم وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں جو ہم نے افغان سرحد کو ’’ماسی ویہڑہ ‘‘ بنا کر کی تھی ۔

پاکستانی تجزیہ نگار بھلے اس کو عمران خان یا تحریک انصاف کا کارنامہ قرار دیتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرتار پورہ سرحد کا کھولنا تحریک انصاف کے کسی بڑے چھوٹے کے خواب میں بھی نہیں تھا۔ تجویز جنرل باجوہ نے دی ،شور نوجوت سدھو نے ڈالا اور جاٹوں کے اس شور میں بی جے پی اپنے ووٹ کھرے کرنے کرتار پورے چلی آئی۔ووٹوں کے حصول سے زیادہ بی جے پی حکومت کا کوئی کردا راس معاملے میں نظر نہیں آرہا۔ وقت بتائے گا کہ کرتار پورہ راہداری کھلتے ہی را اور آئی ایس آئی میں ایک نئی لڑائی شروع ہوجائے گی ۔

آخر میں پاکستانیوں کے لئے چتاونی یہ ہے کہ اگرحکومت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ دینے اور بھارتیوں کو ویزہ فری داخلہ دے ہی دے تو اپنا بندوبست کر لیں۔

Khawaja Muhammad Kaleem
About the Author: Khawaja Muhammad Kaleem Read More Articles by Khawaja Muhammad Kaleem: 46 Articles with 33106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.