سابق صدر آصف زرداری ان دنوں جیل جانے کی بات تواتر سے
کررہے ہیں۔شاید انہوں نے اپنے سارے پتے کھیل لیے ۔اب ان کے پاس کوئی داؤ
نہیں بچ پایا تو وہ جیل سے نہیں ڈرتا کاراگ آلاپنے لگے ہیں۔ جو کل کرے سو
آج کر کے مصداق اس سے پہلے کہ کوئی ان پر ہاتھ ڈالے وہ خوددوسروں کو طیش
دلارہے ہیں مقصد یہی ہے کہ حکومت کسی دن سنجیدہ ہوجائے اور ان کی گرفتاری
عمل میں آجائے۔ مسلسل حکمرانوں کو ناتجربہ کاری کا طعنہ دے رہے ہیں۔کہہ رہے
ہیں کہ ناتجربہ کار کپتان سے معاملات نہیں سنبھالے جارہے۔حکومت اپنی مدت
پور ی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ممکن ہے قبل از وقت الیکشن کروادیے جائیں۔سابق
صد ر اپنے سابق حریف نوازشریف پر بھی فکرے چست کرنے سے نہیں چوکتے۔ا ن کی
احتساب عدالتوں میں پیشیوں پر زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ نوازشریف صاحب نے
احتساب عدالتیں ان کے لیے بنائی تھیں۔اب یہ خود ان کے گلے پڑ چکی
ہیں۔زرداری صاحب کی باتیں آبیل مجھے مار جیسی ہیں۔ ایک طرف حکومت کو
للکارہے ہیں تاکہ انہیں گرفتار کرلے دوسری طرف نوازشریف کو غصہ دلانے کی
کوشش کرتے ہیں کہ ان کی جماعت جناب زرداری کے خلاف کوئی محاز کھولے جس سے
شاید ڈولتی ڈوبتی پی پل کو کوئی آسرا مل جائے۔ان کی قسمت کے نہ تو حکومت
انہیں گرفتاری کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے نہ نوازشریف ہی ان کے طعنوں کا
جواب دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
حکومت انہیں بالکل نہیں ہاتھ لگانا چاہتی وہ بھلا کیوں اپنی انرجی ضائع کرے
گی۔اسے سابق صدر کی گرفتاری کی کچھ تمنا نہیں۔جو اس کا اصل ٹارگٹ تھا حاصل
کرلیا جاچکا اب کوئی کیا ہے کہاں ہے کیسے ہے کوئی ٹینشن نہیں ۔نوازشریف کو
کسی نہ کسی طریقے سے رام کرنا تھا کرلیا گیا۔جنرل الیکشن پرسے نوازشریف کے
جادوکو ہٹانا تھا۔سعی بسیار سے وہ کرلیا گیا۔ اپنی مرضی کے مطابق الیکشن
کروالیے گئے۔اب کچھ پریشانی نہیں ۔جناب زرداری سے تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ محض
خانہ پریاں سمجھنی چاہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔پی پی قائد وفاداران کی
لسٹ میں نام لکھاچکے جانے کیوں انہیں قرار نہیں آرہا۔جس طرح انہوں نے سینٹ
کے انتخابات میں مدد فراہم کی بادشاہ گر پوری طرح مطمئن ہیں۔صدارتی الیکشن
میں انہوں نے کہے کے مطابق کیا۔ وزیراعظم اورپنجاب کے صوبائی کابینہ کے
انتخاب پر جناب زرداری کی جماعت نے بادشاہ گروں کی چاہت پوری کی۔اب بھی اگر
کوئی پی پی قائد پر پریشانی آنے کی امید کرتاہے تو وہ بھولا ہے۔جہاں سے
مشکلیں آیا کرتی ہیں وہاں اطمینان پایا جارہاہے۔ چھوٹی موٹی اچھل کود
احتساب کے نام پر جاری ہے۔وہ کسی بھی دن سمیٹ لی جائے گی کسی کو پتہ بھی
نہیں چلے گا۔آپ نوازشریف کو احتسا ب عدالتوں کا طعنہ دے رہے ہیں۔یہ بھی
حقائق کو گڈمڈ کرنے کی کوشش ہے۔نوازشریف نے اپنے دور میں کوئی احتساب
عدالتیں نہیں بنائیں۔مشرف کے ساڑھے آٹھ سالہ دور کے یہ بغل بچے جناب زرداری
چاہتے تو اپنی حکومت میں ختم کرسکتی تھی۔انہیں نوازشریف سے قبل حکومت بنانے
کا موقع ہاتھ آیا تھا۔نوازشریف پر احتساب عدالتیں بنانے کی بات میں کوئی
حقیقت نہیں۔
نوازشریف نے زرداری دور میں پی پی کے ساتھ تعاون کا راستہ چنا۔وہ صدق دل سے
جمہوریت کی مضبوطی چاہتے تھے۔اپنی حکومت بننے کے بعد بھی نوازشریف نے پی پی
کے معاملے میں ہتھ ہولا رکھا۔ان کی ساری کی ساری توجہ مشرف کو گھیرنے میں
رہی۔وہ آمرکو سربازار ننگا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔جناب زرداری اگر یہ گلہ
کرتے ہیں کہ نوازشریف نے ان کے لیے احتساب عدالتیں بنائی تھیں تو یہ بالکل
غلط ہے۔اگر نوازشریف حکومت زرداری صاحب اور ان کے دوستوں کو پکڑنے کی نیت
رکھتی تو اسے ہر طرف سے سپورٹ ملتی یہ کام دنیا کا آساان ترین کام
ہوتا۔انہوں نے ایسا نہیں کیا اس آسان کام کو چھوڑ کر مشکل ترین کام میں
ہاتھ ڈال دیا۔مشرف پر ہاتھ ڈالنا ایسا مشکل کام تھا۔جس میں کام یابی کے
چانسز نہ ہونے کے برابرتھے۔انہیں بچانے والے انگنت تھے۔خود نوازشریف کی
اپنی جماعت کی اکثریت بھی مشرف کو ٹچ نہ کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ اس کے
خلاف کھڑے ہونے والے چند ایک ۔زرداری صاحب نوازشریف سے سختی کرنے کی بات
کریں گے تو یقین نہ آئے گا۔الٹا زرداری صاحب نے اپنی محدود سوچ کے سبب
معاملات خراب کیے۔نوازشریف کے تعاون کو غیر موثر کرلیا۔اپنی پارٹی کا بھٹہ
بٹھالیا۔سب سے بڑھ کر ریاست کی نیک نامی کو داؤ پر لگایا۔زرداری دور میں
دنیا کو پاکستان کا جو چہرہ دکھایا گیا وہ بڑا مکروہ تھا۔نالائقی ۔نااہلی
۔کرپشن اور بے ایمانی کا چہرہ۔جہاں چن چن کر برے بندوں کو آگے لایا
گیا۔جہاں لوٹ مار کے مقابلے ہوئے۔پی پی کی قیادت زرداری صاحب کو سونپ دینا
بڑا گھاٹے کا سودا نکلا۔پارٹی تتر بتر ہوکرسندھ تک محدود ہوچکی۔اگر وطیرہ
نہ بدلا گیا تو یہ پارٹی آگے چل کر سندھ میں بھی صرف دیہاتوں تک رہ جائے
گی۔کردار کی باغی اور گفتار کی غازی یہ پارٹی تنزلی کی شکارہے۔زرداری صاحب
اس پارٹی کو نت نئی سکیموں سے زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں مگر کامیابی
نہیں مل رہی۔یہ دن بدن کمزور ہورہی ہے۔ |