ڈاکٹر شاہد مسعو دکا برا وقت چل رہاہے۔ان کے کلام کی
تاثیر کم ہوئی ہے۔نہ ان کا انداز بے اثر ہوا ، اس کے باوجود اگر وہ مشکلات
کے شکار ہیں تو اسے برے وقت کا شاخسانہ ہی سمجھا جائے گا۔پی پی دور میں
انہیں پی ٹی وی کا ہیڈ بنایا گیا تھا۔تب کے بعض اقدامات کے سبب وہ تحقیقاتی
عمل سے گزر رہے ہیں۔ان کا مذید جسمانی ریمانڈنہ مل پانے کے سبب وہ جیل
منتقل کردیے گئے ہیں۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک فرضی کمپنی کے نام
کروڑوں روپے منتقل کیے۔وہ خورد بورد کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں۔برا
وقت یوں بھی ہے کہ ابھی کل ہی قصور زیادتی کیس سے متعلق تجزیہ کرنے پر
عدالت سے سزاوار قرار پائے ہیں۔تب وہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام
رہے تھے جو انہوں نے اس معاملے میں بعض اعلی شخصیات کے ملوث ہونے سے متعلق
عاید کیے۔ان کے مطابق یہ معاملہ چھوٹاموٹانہیں۔انٹرنیشنل لیول کا تھا۔ملزم
عمران کو بااثر طبقات کی سپورٹ تھی۔اس کے کروڑوں کی مالیت کے بنک اکاؤنٹس
تھے۔عدالت نے الزامات کی سنگینی کے پیش نظر اینکر کو طلب کرلیا ۔اینکر کی
طرف سے تھوڑی آئیں بائیں شائیں کی گئی۔جب عدالت نے ذرا سختی دکھائی تو
معافی مانگتے اینکرزنے اپنے پاس کچھ مواد نہ ہونے کا اعتراف کرلیا۔اس
اعتراف کے بعد ان پر کچھ مدت کے لیے ٹی وی چینلز پر آنے پر پابندی لگا دی
گئی۔ اب جب کہ پی ٹی وی میں کرپشن کا کیس چل رہاہے۔دیکھیے اب عدالت کس
نتیجے پرپہنچ پاتی ہے۔
ڈاکٹر شاہدمسعود ہی نہیں جناب عطاالحق قاسمی بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال
سے دوچار ہیں۔وہی پاکستان ٹیلی ویژن کی کمان۔وہی فنڈز کا ناجائز استعمال
۔اقربا پروری۔وغیر ہ وغیر ہ۔ڈاکٹر شاہدم سعو دتو خیر سے اکیلے ہی بھگت رہے
ہیں مگر قاسمی صاحب کے ساتھ بطو ر شریک جرم کئی دیگران بھی سزاوار
ہوئے۔اسحاق ڈار ۔پرویز رشید وغیرہ کوبھی اس جمرم میں جرمانوں کی سز اسنائی
گئی۔عدلیہ کو ڈاکٹر شاہد مسعود اور عطاالحق قاسمی کے معاملے میں بیلنس کرنا
آسان نہ ہوگا۔اب جبکہ قاسمی صاحب کے معاملے میں سہولت کاروں کوبھی سز ادی
گئی۔کیا ڈاکٹر شاہد مسعو د کے کیس مین بھی سہولت کار زد میں آئیں گے۔کیا تب
کے وزیراطلاعا ت اور وزیر خزانہ بھی طلب کیے جائیں گے۔ان پر پھر اتنی ہی
ذمہ داری عاید ہوگی جتنی پریز رشید اور اسحاق ڈار پر عایدکی گئی۔ایسا شاید
نہ ہوسکے عطاالحق قاسمی ۔پرویز رشید ۔اور اسحاق ڈار خالصتا نوازشریف کیمپ
کے لوگ ہیں۔اس کیمپ کو کمزور کرنا اوردیوار سے لگانا پچھلے کئی برسوں سے سب
سے مقدم بناہوا ہے۔پرویز رشید اپنی وزارت اطلاعات سے فارغ کروادیے
گئے۔اسحاق ڈار مفرور قراردیے جاچکے۔جہاں تک نوازشریف کی بات ہے۔وہ ادھر سے
نکلتے ہیں ادھر ڈبادیے جاتے ہیں۔ادھر سے نکلتے ہیں تو ایک نیا گڑھا کھدا
نظر آجاتاہے۔ڈاکٹر شاہدمسعود سے متعلق ایسا معاملہ نہیں۔وہ زرداری کیمپ کے
بندے ہیں۔تب کے وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات بھی جناب زرداری کے وفاداران
میں سے ہیں۔نوازشریف اپنے باغیانہ انداز سے ناقابل قبول ہیں مگر جناب
زرداری اپنی خدمت سے اس لیبل سے بچے ہوئے ہیں۔
میڈیا ان دنوں خبروں میں ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعو د بھگت رہے۔عطاالحق قاسمی صاحب
بھگت چکے۔ٹی وی مالکان بھگتنے جا رہے ہیں۔عدالت نے کہہ رکھا ہے کہ ملازمین
کو نتخواہیں نہ دینے والے ٹی وی چینلز بند کردیے جائیں گے۔ٹی وی مالکان کی
نیت شاید بری نہ ہومگر ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ ترقی کی
شدید خواہش مالکان کو اس قد ر مجبو ر کرگئی کہ وہ ملازمین کی تنخواہوں سے
معذور ہوگئے۔ اپنا بجٹ اس قدر بڑھا چکے کہ اب مینجٹ کرنا مشکل ہوچلا۔مشینری
پر خرچا بے پناہ بڑھ چکاافرادکے لیے پیسے نہیں بچ پا رہے۔زمین ۔بلڈنگ اور
یوٹیلیٹی بلز کوئی ایک سیاپاہو تو تب نا، یہاں تو ایک خرچے کا بندوبست کیا
جائے تو چار نئے سامنے آجاتے ہیں۔ٹی وی مالکان کے لیے توسیع پسندانہ ترقی
کی خواہش کو موخر کیے بغیر بات بنتی نظر نہیں آرہی۔جتنا وہ کھلار کھلار رہے
ہیں۔ان کی بساط سے باہر ثابت ہورہاہے۔انہیں ایک قدم پیچھے ہٹنا ہی
ہوگا۔میڈیا انحطاط کی طرف جارہاہے۔ اینکرزاور مالکان کی ساکھ خطرے میں
ہے۔ایک وقت تھاجب میڈیا ایک بڑی طاقت مانا جاتاتھا۔یہ میڈیاہی تھاجس نے ایک
آمر کی وردی اتروائی۔ایک چیف جسٹس کو بحال کروایا۔بیرون ملک دبکی قیادت کی
واپسی کی راہ ہموارکی۔آج میڈیا خود پناہیں ڈھونڈتا دکھائی دے رہاہے۔مالکان
اور ملازمین کے جھگڑے اسے مذید کمزور کرہے ہیں۔دونوں طرف سے حرص اور دنیا
داری کے جزبات گھٹانے ہونگے۔آج بھلے ہی ملازمین کروڑ پتی ہوچکے۔مالکان ارب
پتی ہوچلے۔مگر ان کی ساکھ وہ نہیں رہی جو پچھلے عشرے تھی۔میڈیا کی دولت کی
بڑھوتری دیکھ کر اسے کامیاب کہنے کو دل کرتاہے۔مگر اس کارعب اور ساکھ کم
ہوجانے سے اس کے ہار جانے کا کہہ دینابھی غلط نہیں۔
|