پاکستان تحفے میں نہیں بلکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے

مملکت خداد پاکستان ہمیں ٹرے میں سجا کر یا تحفے کے طور پر نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کی قربانیاں پیش کیں ظالم ہندؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کی بستیاں جلائیں تو کہیں پاکستان کے حق میں نعرے بلند کر نے والے مسلمانوں کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹا گیا جس سے خون کی ندیاں بہنے لگیں با لا آخر14 اگست 1947کو پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا پھر قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ہجرت کا در پیش آیا اور مسلمان خاندانوں نے اپنے خاندانوں کے ہمراہ پیدل ،بیل گاڑیوں ،اونٹ گاڑیوں سے اپنے منزل مقصود پاکستان کی جا نب ہجرت شروع کی ہندؤں اور سکھوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے مسلمانوں خاندانوں کے قافلے کو روک روک کر کسی بہن کے سامنے اس کے بھائی کو شہید کر دیا تو کسی ماں کے سامنے اس کے بیٹے کی گردن اڑا دی عورتوں کے سامنے ان کے سہاگ کو اجاڑ دیا گیا سیکڑوں نہیں ہزاروں بچیوں نے کنوؤں میں کود کر اپنی عزت و آبرو بچائی یہاں تک کے انہوں نے شیر خوار بچوں کو بھی نہ چھوڑا کہیں ان کی گردنیں کاٹی گئیں تو کہیں انہیں آگ میں پھینک کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا مگر اس کے باوجود ہجرت کر نے والے مسلمانوں کی ہجرت کاسفر جاری رہا اور وہ لٹنے اور مر نے کے باوجود پاکستان زند باد کے نعرے بلند کر تے ہو ئے پاکستان آتے رہے -

لیکن سب سے بڑی ہجرت ٹرینوں کے ذریعے ہو ئی اور مسلمان خاندان دھوئیں سے چلنے والی اسٹیم انجنوں جو کہ انتہائی سست رفتاری کے ساتھ چلا کر تی تھیں نے پاکستان کی جا نب سفر شروع کیالیکن ہندوستان سے آنے والی ان ٹرینوں کو بھی جگہ جگہ ہندو اور سکھ انتہاء پسندوں نے روک روک کر نا صرف ان کا مال و متاع لوٹ لیا بلکہ کھلے عام قتل عام کیا جب یہ لٹا ہوا قافلہ پاکستان کے ریلوے اسٹیشنوں پر پہنچا تو کسی بہن کا سہاگ ان سے بچھڑ چکا تھا تو کوئی اپنے باپ ماں کو کھو چکا تھا غرض یہ کہ آنے والے مہاجرین میں سے ہر کوئی اپنے اپنے خاندانوں کا کوئی نہ کو ئی فرد گنواکر پاکستان پہنچا تھا پوری پوری ٹرین لاشوں سے اٹی اور خون سے بھری ہو ئی تھیں کسی کے پیر نہیں تھے تو کوئی اپنے ہاتھ اور آنکھیں کھو چکا تھا مگر اس کے باوجود ان کے ہونٹوں پر اس بات کا تبسم تھا کہ وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں اور اب وہ انگریزوں یا ہندؤں کی غلامی کے بجائے ایک آزاد وطن میں سانس لیں گے ۔ مہاجرین کے یہ قافلے پاکستان کی کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ پنجاب ،سندھ ،بلوچستان میں جوق در جوق آرہے تھے اور کھلے آسماں کے نیچے بھوکے پیاسے پڑاؤ ڈال رہے تھے ان کی مدد کے لئے لوگ اپنی رنگ و نسل کو بھول کر پیش پیش تھے کوئی انہیں کھانے کھلا رہا تھا تو کوئی ان کی دلجوئی کر رہا تھا اور یہ مہاجرین جو کہ اپنا گھر بار ،زمین جائیداد سب کچھ چھوڑ کر پاکستان پہنچے تھے کھلے آسمان کے نیچے خوشی سے سر شار تھے ۔شہر کراچی جہاں اس وقت 2ریلوے اسٹیشن قائم تھے جس میں سے کینٹ اسٹیشن کو فریئر اسٹریٹ اسٹیشن کہا جا تا تھا جبکہ آج کے سٹی اسٹیشن جسے میکلوڈ ریلوے اسٹیشن کے نام سے جانا جاتا تھا مہاجرین کے قافلوں کی آمد شروع ہو ئی مگر کیونکہ اس وقت سٹی اسٹیشن زیادہ فعال تھا لہذا سب سے زیادہ مہاجرین کے قافلے اسی اسٹیشن پر آیا کر تے تھے جہاں لوگ ان کا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے والہانہ استقبال کر تے اور انہیں آج کے ریلوے کوارٹرز ،ٹاؤر ،آئی آئی چندریگر روڈ ،برنس روڈ ،لیاری و دیگر علاقوں میں ٹہراتے تھے جہاں انہیں سر چھپانے کا ٹھکانہ فراہم کر نے کے لئے مسلم لیگ کی جا نب سے 8 بانس اور چٹائیاں فراہم کی جاتی تھیں تا کہ وہ اپنے لئے آشیانہ بنا سکیں مہاجرین کے ہجرت کے وقت سٹی اسٹیشن کے ارد گرد تو کیا پورے شہر میں جگہ جگہ جھگیاں قائم تھیں ہجرت کر نے والوں کے پاس نہ تو پیسے تھے اور نہ ہی زرعی اجناس لہذا انہیں خوراک فراہم کر نے کے لئے لیاری کی بلوچ خواتین نے آج کے ٹاؤن آفس کی جگہ 150 سے زائد تندور قائم کئے جہاں مہاجرین کے لئے روٹیاں تیار کی جاتیں جبکہ بعض مخیر حضرات کی جا نب سے انہیں سالن اور چائے بھی فراہم کیا جا تا تھا جس سے ایک طویل عرصے تک ان کی گزر اوقات ہو تی رہی اور پھر آہستہ آہستہ ان مہاجرین نے اپنے پیروں پر کھڑا ہو نے کے لئے جدو جہد شروع کی اور جھگیوں سے پختہ گھروں میں منتقل ہو نے لگے ۔میکلوڈ اسٹیشن جو کہ آج سٹی اسٹیشن کے نام سے جانا پہچانا جا تا ہے انگریزوں نے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کے وقت 4پلیٹ فارم بنائے تھے ان تمام پلیٹ فارم اور اسٹیشن کی وسیع ترین اراضی جہاں آج چاروں طرف گڈز ٹرینیں اور پیسنجر ٹرینوں کے طویل ٹریک نظر آتے ہیں ان ٹریکس اطراف بھی مہاجرین کی عارضی بستیاں قائم ہوئیں اور ان بستیوں میں لیاری کے لوگ جو کہ رنگ و نسل کے اعتبار سے بلوچ تھے انہوں نے کبھی مہاجرین کو اپنے سے علیحدہ نہیں سمجھا لہذا ان کی جا نب سے صبح کے وقت ہجرت کر نے والوں کے لئے ناشتے کا اہتمام ہو تا تو دن اور رات کے اوقات میں انہیں کھانا بھی فراہم کیا جا تا تھا جس سے ان مہاجرین کی زندگی گزر رہی تھی اور یہ اسٹیشن ہی ان کا گھر بار تھا لہذا وہ مہاجرین کے آنے والے دوسرے قافلوں کا نا صرف استقبال کر تے بلکہ انہیں گلے سے لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے عارضی آشیانوں میں انہیں پناہ دیتے بلکہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے ۔ گو کہ آج شہر کراچی کے ان دونوں بڑے اسٹیشنوں پر مہاجرین کی آمد اور انہیں عارضی ٹھکانے فراہم کر نے کے حوالے سے کوئی واضح نشانی تو موجود نہیں لیکن آج بھی ان دونوں اسٹیشنوں پر موجود ریلوے کی پٹریاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ کبھی ان ٹریکس پر بھی ہندوستان سے آنے والی مہاجرین کے خون سے بھری ٹرینیں آئی تھیں اور یہی صورتحال کینٹ اسٹیشن کی بھی نظر آتی ہے جہاں آج تک بچھے ٹریکس اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انہوں نے نا صرف بڑے پیمانے پر شہیدوں اور زخمیوں کو لانے والی ٹرینوں کو دیکھا ہے جبکہ کینٹ اسٹیشن کے باہر ماڈل کے طور پررکھا گیاقدیم اسٹیم انجن بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس نے بھی آج سے 70 سال قبل پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں شریک مسلمان شہیدوں کے لاشوں کو پاکستان پہنچایا ہے اس اسٹیم انجن کے علاوہ ملک بھر کے دیگر اسٹیشنوں پر بھی وہ لوکو موٹیو اور ٹرین کی بوگیاں ماڈل کے طور پر نا صرف کھڑی ہیں بلکہ 1947میں آزاد وطن کے حصول میں قربانیاں پیش کر نے والوں کی داستان بیان کر رہی ہیں ۔

Mohsin Bin Rasheed
About the Author: Mohsin Bin Rasheed Read More Articles by Mohsin Bin Rasheed: 3 Articles with 4049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.