ادھورا سچ

بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے موضوع پر سپریم کورٹ کی طرف سے منعقد کی جانے والی تقریب بڑی اہم تھی۔کہنے کو تو یہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوتے چلے جانے سے متعلق کسی مناسب پالیسی اپنانے سے متعلق تھی مگر اس کا لب لباب کچھ اور نکلا ۔اخبارات نے اس کانفرنس کی خبر دی وہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے ایک ووسرے سے کیے جانے والے تعاون کے شکرانے کے سوا کچھ نہ تھی۔وزیراعظم او ر چیف جسٹس کے خطابات آبادی کے مسئلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کی تعریف اور تلقین سے عبارت تھے۔وزیراعظم نے پورے سیٹ اپ کو سپریم کورٹ کی دین قرار دے دیا۔بولے کہ پانامہ کیس نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی ہے۔پہلی بار وزیر اعظم کا احتساب ہوا ہے۔میں چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتاہوں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی موجود ہ حکومت کو تلقین کرتے ہوئے بولے کہ اب پارلیمان کا بائی کاٹ کرنے کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔آئین کے بعدپارلیمنٹ سب سے طاقت ور ہے۔اراکین وک قانون سازی کا اپنا کام کرنا چاہیے۔وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی باتیں بڑ ی معنی خیز ہیں۔عمرا ن خاں عدلیہ کا شکریہ اداکررہے ہیں جنہوں نے عمران خاں کی حکومت بنانے میں تعاون کیا۔چیف جسٹس نے وزیر اعظم کا شکریہ قبول کرتے ہوئے انہیں اب ملک میں تبدیلی لانے کی تلقین کی ہے۔

ہم جانے کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔منہ ہمارا مشرق کی طر ف ہوتاہے اور ہم قصد مغرب کی طرف جانے کا کیے ہوتے ہیں۔وزیر اعظم سپریم کورٹ کے مشکور ہیں جس نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے میں مدد دی۔بھئی یہ کیسی مدد ہے۔جو اہل لوگوں کو ہٹاکر نااہل لوگوں کو مسلط کر کے کی گئی۔کچھ لوگ جو معاملات میں بہتر ی لانے میں لگے ہوئے تھے۔کسی حد تک کامیاب بھی ہوگے۔انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔اور ایسے لوگوں کو مسلط کردیا گیا جو مستند جھوٹے ،بھگوڑے اور بد نیت تھے۔جو ایک جگہ اکٹھے ہی لوٹ مار کا حصہ بننے کے لیے ہوئے تھے۔سپریم کورٹ کے جس فیصلے کو وزیراعظم تبدیلی لے آنے والا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔اس فیصلے پر آج تک انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔فیصلہ سنانے والے ججز آج بھی سوالات کا سامنا کرتے پھر رہے ہیں۔یہ آباد ی کوکنٹرول کرنے کی پلاننگ کی ضرورت محسوس کروانے کی تقریب تھی کہ کوئی قومی اعتراف نامہ ۔چیف جسٹس صاحب پارلیمنٹ کو سپریم قرار دے ہے ہیں۔یہ کیسی سپرمیسی ہے کہ اسے کبھی ایک بارودی جرنیل روند دیتاہے۔کبھی تین ججز اٹھا کر کہیں دور پھینک دیتے ہیں۔سپر میسی تو تب مانی جائے گی جب پارلیمنٹ کے کہے کو آخری حرف مان لیا جائے۔جب اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو قطع کرنے کا رواج پڑجائے۔جب اس کی طرف اٹھنے والی نظروں کو نوچ لیا جائے۔چیف جسٹس صاحب کی یہ نام نہاد سپرمیسی بے معنی ہے۔یہ تو ایسی سپرمیسی ہے۔کہ جب چاہے ایک چھوٹاسا عدالتی بنچ اسے توڑ دے۔یا کوئی دوسر ا چھوٹا سا عدالتی بنچ اسے بحال کردے۔آ پ پارلیمنٹیرین کو تلقین کر رہے ہیں کہ وہ اپنا قانون سازی کا کام کریں۔بھئی اس قانون سازی کا مستقبل کیا ہوگا؟کوئی جج کسی بھی قانون کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دیے گاکہ قانون وہی ہوگا جو ہم کہیں گے۔

ہم بڑے لاپرواہ لوگ ہیں۔برے بھلے کی پرواہ نہیں کرتے ۔غلطی ہوجانا کچھ بڑی بات نہیں مگر اس پر پشیمان نہ ہونا زیادہ براہے۔تحریک انصاف کے لوگ اچھل کود کررہے ہیں۔بغلیں بجارہے ہیں۔مگر آخر کب تک ایسا کریں گے۔ان کے اقتدار کے سو دن پورے ہوچکے۔وہ کلی طور پرناکام رہے ہیں ۔کچھ کمال نہیں دکھا پائے۔اس کے باوجود سنجیدگی اختیارنہیں کررہے۔یہ کسی نہ کسی راستے سے یہاں پہنچاتو دیے گئے مگر اب بجائے اس اتفاق کو اپنی محنت سے کوئی مناسب جواز بنالیں اوٹ پٹانگ طریقے سے تماشہ بنے ہوئے ہیں۔کیا بہتر نہ ہوتاکہ اب وزیر اعظم ۔چیف جسٹس اور دیگران اس حکومت کے قیام کے جوازڈھونڈنے کی بجائے ایک قدم آگے کی سوچتے ؟چیف جسٹس صاحب کی پارلمینٹیرین کو قانون سازی کی تلقین اچھی بات ہے مگر یہ لوگ خود کیوں نہیں دلچسپی لے رہے۔آخر کب تک ان کی انگلی پکڑ کر چلایا جائے گا؟وزیراعظم اور چیف جسٹس آدھا سچ بول رہے ہیں۔انہیں پورا سچ بولنا ہوگا۔وہ تبدیلی گروہ کی وکالت کررہے ہیں۔مگر انہیں دوسری طرف والوں کی اچھائیاں بھی بیان کرنی چاہییں۔لوگ اب آہستہ آہستہ انہیں دوسری طر ف والوں کو یا د کرنے لگے ہیں۔ان کی نظر میں وہ سارے الزامات اور شکایات بے جا نکل رہی ہیں جو دوسری طرف والوں کو منظر سے ہٹانے کے لیے تیار کی گئیں۔آپ اگر پورا سچ نہیں بولیں گے تو قوم کل کو آپ کے آدھے سچ کو پورا جھوٹ تصور کرنے لگے گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.