ناروے کے سابق وزیراعظم نے کھلے عام یہ بات کہہ کر سب کو
حیران کر دیا کہ انہیں سرینگر دورے کی کلیئرنس نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے
دی۔ یعنی بھارت کی خفیہ ایجنسیاں بھی کیجل میگنے بونڈیوک کی ڈپلومیسی کی
حامی ہیں۔ کیا یہ صرف الجھاؤ کی ڈپلومیسی ہے یا کچھ اور۔ وہ حریت قائدین کے
ساتھ ملاقات کو خوشگوار قرار دیتے ہیں۔ان کے ساتھ بات چیت کو آف دی ریکارڈ
رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کشمیر کی موجدہ صورتحال سے متعلق
خاکہ سمجھ آ گیا ہے۔بونڈیوک کو احساس ہے کہ یہ مسلہ کشمیر پر مذاکرات کا
درست وقت نہیں۔ کیوں کہ بھارت میں الیکشن قریب ہیں۔ بھارت کشمیر پر ثالثی
قبول کرنے کے موڈ میں نہیں۔ وہ دو طرفہ بات چیت کا ہی حامی ہے۔ایک بھارتی
اخبار کے مطابق ناروے کے سابق وزیراعظم انکشاف کر رہے ہیں کہ’’ عالمی
برادری کشمیر کے حوالے دلچسپی لیتی ہے اور کافی متفکر ہے۔ کشمیر پر اقوام
متحدی کی قراردادیں بھی ہیں۔حال ہی میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن
کی رپورٹ بھی جاری ہوئی ہے۔اس لئے اس میں عالمی دلچسپی ہے۔ ان کی خواہش ہے
کہ کشمیر مسلہ کا کوئی قابل قبول حل نکل آئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں
آر پار کی کشمیری قیادت شامل ہو۔ کیوں اصل میں کشمیری ہی متاثر ہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی غیر ملکی وفد کو دہلی نے سرینگر کا دورہ کرنے اور
حریت رہنماؤں سے براہ راست بات چیت کی اجازت دی۔وہ کہتے ہیں کہ کوئی ہے جو
وزیراعظم نریندر مودی کے قریب ہے اور جس نے اس اجازت میں کردار ادا کیا۔ اس
وفد نے آزاد کشمیر میں جنگ بندی لائن کا بھی دورہ کیا۔ پاکستان کے پروٹوکول
پر وہ مطمئن تھے۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کے ساتھ ملاقات بھی اہم
تھی۔ سرینگر میں اسمبلی تحلیل ہے۔ سرینگر میں انہوں نے کسی سیاستدان یا
حکومتی اہلکارسے ملاقات نہیں کی۔ اگر کی بھی ہو گی تو اسے خود خفیہ رکھا ہے۔
دہلی میں انہوں نے سماجی کارکن مہیش گیری سے ملاقات کی جو رکن پارلیمنٹ ہیں
اور وزیراعظم مودی کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ بی جے پی کے لوک سبھا ممبر گیری
پارٹی کے نیشنل سیکریٹری بھی ہیں۔ بی جے پی میں شمولیت سے پہلے وہ عام آدمی
کے کیجریوال کے ساتھ تھے۔ 2014میں مشرقی دہلی سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ
میں پہنچے۔ اگر وہ مودی کے قریب ہیں تو دونوں میں اس زریعہ سے ہی تبادلہ
خیال ہوا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی کشمیر پر رپورٹ منظر عام پر آنے کے
بعد ناروے کے سابق وزیراعظم کی سربراہی میں آر پار کشمیر کا دورہ کرنے والی
یہ پہلی عالمی ڈیلی گیشن ہے۔ اس رپورٹ میں کشمیر میں اناسنی حقوق کی
پامالیوں پر انٹرنیشنل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کیا یہ دورہ اسی
جانب کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ابھی محض قیاس آرائی ہی کی جا رہی ہے۔ ایک
موقع ایسا آیا کہ اگست 2014میں دہلی میں پاکستانی سفیر کی جانب سے حریت
رہنماؤں سے ملاقات کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ
منقطع کر دیا۔ دہلی میں ناروے کے ترجمان نے ناروے کی حکومت کو سابق
وزیراعظم کے اس دورہ سے الگ رکھا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کو ایک ترجمان نے بتایا
کہ سفارتخانے کے اس دورہ کا کوئی علم نہیں۔ بھارت بھی اس دورہ کو کسی ثالثی
کی کوشش سے تعبیر کرنے سے انکاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس اس
دورہ پر تشویش میں مبتلا ہے ۔ پارٹی کی تشویش یہ ہو سکتی ہے کہ اگر بھارتی
حکومت کشمیر پر کوئی پیش رفت کر رہی ہے۔ تو اسے کیوں الگ رکھا گیا ہے۔ ظاہر
ہے سبھی چاہتے ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ اب ڈاکتر فاروق عبداﷲ نے
ایک بار پھر اندرونی خودمختاری کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ وہ ایک بار
پھر نئی دہلی حکومت کو جنگ بندی لکیر کو مستقل سرحد بنانے کی ترغیب دے رہے
ہیں۔ یعنی وہ اور ان کی پارٹی سٹیٹس کو یا جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے
کی حامی ہے۔ جب کہ کبھی وہ کشمیر میں رائے شماری کی وکالت کرتے تھے۔ جس کی
سزا شیخ محمد عبداﷲ مرحوم کو ان کے دوست جواہر لال نہرو نے 13سال قید رکھ
کر دی۔
سرینگر میں ایک صنعت کار شیخ عاشق نے بھی ایک وفد کے ہمراہ ناروے کے وفد سے
ملاقات کی۔ اس وفد کو مختصر نوٹس پر ملقات کے لئے مدعو کیا گیا۔ ان کے لئے
یہ سرپرائز تھا۔ دورے پر آیا وفد زمینی حقائق جاننا چاہتا تھا۔ سال
2018کشمیر کے لئے خونین سال رہا ہے۔ جنوری سے نومبر تک 400لوگ شہید ہوئے جن
میں سے 145شہری تھے۔ ناروے کے وفد نے کشمیر کے حقائق سمجھے ہیں۔ بھارت مسلہ
کشمیر کے دو ہی فریق تسلیم کرتا ہے ، ایک دہلی اور دوسرا پاکستان۔ جب کہ اس
طرح بھارتی حکومت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف
ورزی کر رہی ہے۔ تا ہم سب کے باوجود یہ سمجھا جا رہا ہے کہ بھارت کشمیر پر
کوئی امن عمل شروع ہو رہا ہے۔ اسی لئے بھارت نے اس دورے کی اجازت دی۔
2014سے بھارت نے پاکستان سے بھی بات نہیں کی اور حریت کو بھی کسی سے ملاقات
کی اجازت نہ دی۔ تا ہم مودی نے رواں سال چین کا دورہ کر کے دو طرفہ کشیدگی
کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرینگر میں بونڈویک کے ساتھ ملاقات میں شری روی
شنکر اور سرینگر کے ڈپٹی میئر عمران شیخ نے انتظام کیا۔ آزاد کشمیر کے نژاد
علی شاہنواز خان بونڈیویک کی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ہیں، جو
اوسلو میں کشمیر سکینڈے نیویا کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں۔میرے
سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بونڈیویک کا دورہ انتہائی اہم ہے ۔
انہیں امید ہے کہبونڈیویک غیر جانبدار اور معتبر شخصیت ہیں اور وہ پاک
بھارت کو ایک میز پر لانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں تا کہ بات چیت سے
کشمیر ایشو حل کیا جا سکے۔ وہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی تنازعہ کشمیر کے حل کے
لئے بات چیت کے عمل میں کشمیریوں کی شمولیت جیسی سرگرمی کو مثبت قدم قرار
دیتے ہیں۔ ہوسکتا کہ بھارت عالمی دباؤ کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہا
ہو تا ہم کشمیر پر اگر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بھارت کے عام
انتخابات کے بعد ہی ممکن ہو گا۔ پاک بھارت بات چیت کی بھی انتخابات کے
بعدہی امید کی جا سکتی ہے۔ مگر ناروے کے سابق وزیراعظم کا سرینگر ، مظفر
آباد، دہلی اور اسلام آباد کا دورہ اور ملاقاتیں مستقبل میں کسی اہم پیش
رفت کی گواہی دیتی ہے۔
|