وہ جسے ہم ریمنڈ ڈیوس کہہ رہے
ہیں کیا یہی اسکی اصلیت ہے یا بلیک واٹر طرز کے کسی امریکی سرکردگی میں
چلنے والے کسی ادارے سے وابسطہ ہے‘ آج تک اسکی پہچان بھی معمہ بنی ہوئی ہے‘
کیا وہ سفارتی ویزے پر پاکستان آیا تھا اور اسکا نام پاکستان کے رکارڈ میں
بحیثیت سفارتی اہلکار درج ہے یا وہ پاکستان میں عراق طرز کی کاروائیاں کرتا
پھر رہا تھا کہ اس مشکل میں پھنس گیا۔ اسکے پاس سے جو مشکوک آلات برآمد
ہوئے انہیں رکھنے اور استعمال کرنے کا اجازت نامہ کیا حکومت پاکستان نے
جاری کیا تھا۔ اس انارکی کے دور میں چند ماہ پہلے ایک بڑی تعداد پاکستان
میں بہت تیزی سے آنا شروع ہوئی اور جب پاکستانی اداروں نے انکی فراہم کی
گئی غلط معلومات پر ویزے جاری کرنے سے انکار کیا تو وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن
نے انہیں پاکستانی ویزے جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا جسے حکومت نے تسلیم کر
کے ویزے جاری کر دیے ، ا ور ایسے ہی مشکوک اطلاعات فراہم کرنے والے بلا کسی
تصدیق کے پاکستان آنے لگے جو ظاہر ہے جو اس بد قسمت ملک میں مشکوک سرگرمیوں
میں ملوث ہیں اور ریمنڈ ڈیوس جیسے افراد ایسے ہی کام کے لئے لائے جا رہے
تھے ۔ اس واقعے کے بعد کیا امریکہ میں پاکستانی سفارت کار اس واقعے میں
ملوث شخص کی اصلیت کے راز کو افشا کرنے کی پوزیشن میں ہے کہ یہ فرد دراصل
ہے کون ہے اور اسکے پاکستان میں کیا مقاصد تھے۔ اور کن کن سرگرمیوں میں
ملوث رہا ہے۔
امریکی حکومت کی اس شخص کی رہائی میں دلچسپی ہی اسے مزید مشکوک بنانے میں
تقویت فراہم کرتی ہے ۔ انکل سام اس شخص کے بارے میں اتنے پریشان کیوں ہیں
کہ اسے سفارتی استثنیٰ دلوانے پر پاکستان کو معاہدے بھی یاد دلا رہے ہیں
کیا یہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے کیا اس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا راز تو
نہیں پا لیا یہ شخص اس ملک میں ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکوں اور قتل عام میں
ملوث بھی ہو سکتا ہے ، اس کو آزادانہ تفتیش کے ملکی مروج بھٹی سے گزار کر
اصل حقائق سے پردا اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس قاتل ریمنڈ ڈیوس اور دیگر
اہلکاروں کو اور کیا کیا سفارتی استثنیٰ حاصل ہیں اس پر بھی سوالات جنم
لیتے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں گھومیں جو چاہے کرتے پھریں جسے چاہیں مار دیں
اور ایسے ہی مجرمین اگر پھنس جائیں تو سفارتی عملہ قرار دے کر انہیں پجا
لیا جائے۔ سفارت کار بھی کسی ضابطہ کا پابند ہوتے ہیں کوئی انٹرنیشنل لاز
ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔
ہم تو اسے ریمنڈ ڈیوس ہی کے نام سے پکار رہے ہیں جبکہ یہ جیکب بھی ثابت کر
کے اسے شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے اور اسے ملک سے فرار بھی کروایا جاسکتا
ہے۔ ویسے بھی امریکی اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کے علاوہ شہباز شریف اور
نواز شریف ( پرو امیریکن ثابت کرنے میں لگے ہیں وکی لیکس کے انکشافات ) سے
برابر رابطہ میں بھی ہیں تاکہ رہائی کی کوئی سبیل نکل سکے ۔ کچھ عقل کے
کورے اسے عافیہ کے بدلے رہائی دلوانے کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا عافیہ
نے کسی کو قتل کیا تھا اسکا کیس بالکل اندھا ہے جو امریکی نام نہاد آزاد
عدلیہ اور ا امریکی بدمعاشی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسے سزا دلوانے کے لئے
خصوصی قوانین پاس کروائے گئے جو انصاف کے رستے میں ایک بدنما داغ ہے۔ ہمیں
بھی اگر قانون میں تبدیلی کرنی ہو تو ایسے اقدامات میں قانون سازی کی جائے۔
قاتل ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں پولیس نے ایف آئی آر میں واقعہ کس طرح رپورٹ
کیا کام دراصل یہاں سے شروع کر دیا جاتا ہے یہیں سے پولیس کا کردار اجاگر
ہوتا ہے اور اگر یہیں چمک( ڈالروں ) نے کام دکھا دیا تو ملزم مجرم بن سکتا
ہے اور مجرم بے گناہ ثابت ہو سکتا ہے ، اس حوالے سے ہماری تاریخ اچھی نہیں
۔ اب عوام جو مرضی کریں احتجاج کریں اخبارات اور میڈیا چند روز شور کر کے
بھول جائے گا اور ہوگا وہی جو اس ملک کے حکمران ذہن بنائے بیٹھے ہیں ۔ کیا
اس کیس کی آزادانہ تفتیش ممکن ہے جبکہ امریکی حکومت اس شخص کی رہائی میں
مسلسل وفاقی اور صوبائی اہلکاروں سے رابطے میں ہے۔
اب اس ملک کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس قاتل کی اصلیت اور اسکے جرائم کی
تفصیلات کھنگالیں اس سے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے جو
امریکیوں کو بھی شاید گوارہ نہ ہو چونکہ یہ مشکوک شخص ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ
ادارے عوام کو غیر ملکی مداخلت سے آزاد ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں یا
گورنمنٹ کی مصالحت کا حصہ بنتے ہیں یہ چند روز میں سامنے آئے گا ۔ اس کیسں
میں اداروں کی عجلت بھی قابل ذکر ہے حالانکہ یہاں انصاف کی تلاش میں بے
قصور لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ اور قاتل دندناتے اپنی بدمعاشیوں
سے لوگوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرتے ہیں ۔
کیا ان نوجوانوں کے لواحقین اپنے بے گناہوں کے خون کا سودا کر لیں گے اور
جیسا کہ انہیں خون بہا دینے کی پیش کش کی جا رہی ہے۔ اور نواز شریف نے انکل
سام سے اہلخانہ سے رابطہ کرنے کو کہہ دیا ہے جسکی فی الوقت تو اہل خانہ
ماننے کو تیار نہیں۔ اصولی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور اہلکار اہل
خانہ کو مجبور نہ کریں کہ لوا حقین ملکی بقا کے لئے ڈاکتر قدیر خان کی طرح
اپنے مقتول بچوں کو مورد الزام ٹھرا کر قاتل کو معافی دے کر پاکستان کو
سرخروئی کے لئے مجبور کر دیے جائیں، اور وفاقی اور صوبائی حکومتی اہل کار
امریکیوں کی گڈ بک میں نمایاں مقام حاصل کر جائیں۔ ہمارے انصاف مہیا کرنے
والے آزاد ادارے کسی مداخلت کو خاطر میں لائے بغیر مقتول کے ورثہ کو انصاف
دلا کر انصاف کے تقاضے پورے کریں ، تاکہ عوام امریکی غلامی کے تصور سے آ
زادی محسوس کرے جس کا اس ملک کی اکثریت کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔
دوسری طرف انکل سام اس شخص ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی اہلکار کا استثنیٰ دلا کر
رہائی کے لئے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی
خلاف ورزی ہے۔ امریکی حکومت کو چاہیے کہ اس شخص کی اصلیت اور عزائم کے بارے
میں ثبوت فراہم کریں جسکی تصدیق ہمارے ادارے کر کے اس ملک میں رائج قانون
کے مطابق فیصلہ کریں گے ‘ جب تک اسے کسی مداخلت سے پرہیز کرنی چاہیے۔ جو
ملک ۱۱/۹ کا جعلی ڈرامہ بنا کر مسلم دنیا کو تاراج کرنے کے پلان پر عمل
درآمد کر سکتا ہے ( یو این او کے اہلکار اسے امریکی جعلی منصوبہ قرار دے
دیا ہے) ۔ کیا ہمارے حکام نے کبھی القائدہ اور طالبان کے یا پاکستانیوں کے
ملوث ہونے کے ثبوت کا کبھی مطالبہ کیا کہ کسی بھی کاروائی سے پہلے ثبوت
فراہم کریں اور انہیں الٹے سیدھی الزامات کی بنیاد پر آج تک امریکہ بے
گناہوں کو آگ اور خون میں نہلا رہا ہے۔ اس ملک کی حکومت کے کسی قول و فعل
پر اعتبار کرنا خود موت کو دعوت دینا ہے ۔ ہمیں اسی کو بنیاد بنا کر امریکہ
سے تعلقات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ‘ جسکے بارے میں خود امریکی اہلکار
کہتے ہیں کہ امریکہ سے دوستی بھی خطرناک ہے اور دشمنی بھی موت ہے تو ہم
کیوں خطرناک اور موت کے درمیان معلق ہیں۔ |