یہ واقعہ ایک کتاب میں درج ہے جو پانی پت کے مشہور بزرگ ،اپنے
وقت کے قلندر اور روحانی علم کے بہت بڑے ماہر جناب حضرت غوث علی شاہ پانی
پتی کی سوانح حیات اور ان کے سفر کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔کتاب کا نام
تذکرہ غوثیہ ہے۔ اس کتاب کے مولف جناب حضرت مولانا گل حسین شاہ قادری ہیں۔
جوخود بھی آاسمان روحانیت کے درخشان ستارے ہیں۔یہ واقعہ جناب حضرت غوث علی
شاہ پانی پتی کے ایک سفر کی روداد ہے ۔
بھوپال میں ہماری ملاقات عبیداللہ عرف قاری لالہ سے ہوئی۔ ہم ان ہی کے پاس
مقیم تھے۔ ایک روز ہم نے ان سے ایک عجیب سا سوال کیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا
کبھی آپ کو کوئی قاری بھی ملے ۔۔؟ انھوں نے ناراض ہونے یا سوال پر معترض
ہونے کی بجائے جواب میں فرمایا ہاں ایک دفعہ ہم دکن جارہے تھے تو راستے میں
ایک گاوں کی سرائے میں قیام کیا۔۔۔وہاں لوگوں سے پوچھاکیا یہاں کوئی قاری
صاحب ہیں۔ لوگوں نے بتایا قاری صاحب کا تو پتہ نہیں البتہ ایک نابینا حافظ
صاحب رہتے ہیں جو بچوں کو قرآن پڑھانا سکھاتے ہیںْ۔ ہم نے ان سے ملاقات کی
خواہش ظاہر کی۔۔حافط صاحب اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ طالب علم باری
باری اندر جاتے اور سبق لے کر باہر آ جاتے۔۔ اس وقت جو طالب علم اپنی باری
کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے اس کی معرفت اپنی آمد کی اطلاع بھیجی،
حافظ جی نے ہمیں بلوا لیا۔سلام دعا کے بعدہم نے ان سے قرآن پاک کی تلاوت کی
درخواست کی۔۔ کہنے لگے پہلے آپ پڑہیے۔ہم نے انکساری ظاہر کی تو وہ اصرار
کرنے لگے۔ چنانچہ ہم نے ایک رکوع کی تلاوت کی۔۔ تلاوت ختم کرتے ہی بولے کیا
تم قاری لالہ ہو ۔۔؟ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔۔پوچھا آپ نے کیسے پہچانا ۔۔؟ وہ
بولے پورے ہندوستان میں اتنی خوبصورت تلاوت کرنے والاسوائے قاری لالہ کے
کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔اس کے بعد ہماری درخواست پر حافظ جی نے تلاوت
شروع کی ، ابھی تعوذ بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ کپڑے کے سرپوش سے ڈھکا ایک
برتن جو ان کے پاس رکھا ہوا تھا، کے سرپوش میں حرکت پیدا ہوئی اور رکوع
شروع کرتے ہی وہ سر پوش ہوا میں اٹھا اور گز بھر کی اونچائی پر جا کر ٹھہر
گیا۔ جب حافظ جی نے تلاوت ختم تو وہ سرخ پوش اپنی جگہ پر آ گیا ْ ہم پھٹی
پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ہماری حیرت کو دیکھ کرانھوں نے فرمایا
تمھیں قال میں کمال ہے اور ہمیں حال میں۔۔پھر بولے اگر ٹھہرو تو ہم تمھیں
اور بھی تماشے دکھائیں گے۔۔وہ ہمیں ظہر کے وقت جنگل لے گئے اور ایک کنویں
کے پاس پہنچ کر کہنے لگے آو وضو کر کے نماز ادا کر لیں۔اس کنویں پر رہٹ لگا
ہواتھا۔ہم نے حافظ جی سے کہا میں رہٹ چلاتا ہوں آپ وضو کرلیں۔۔کہنے لگے
زحمت کی ضرورت نہیں۔۔تم ٖفلاں سورۃکنویں کے کنارے کھڑے ہو کر پڑہو۔۔ہم نے
پڑہنا شروع کیا۔پانی نے جوش مارا اور کنارے تک آگیا۔۔نمازپڑہنے کے بعد حافظ
جی نے کہا پیاس لگی ہے ،تم ایسا کرو فلاں سورۃ پڑھ کر اپنی شہادت کی انگلی
پر دم کرواورتین دفعہ رہٹ کی طرف اشارہ کرکے چکر دو۔۔ ہم نے ایسا ہی کیا ،
رہٹ خود بخود چل پڑا،حافظ جی نے پانی پیا اور ہم چل پڑے کہ کسان بھاگتا ہوا
ہمارے پیچھے آیا ۔۔کہنے لگا یہ آپ کیا کر چلے ہیں، رہٹ ایسے ہی چلتا رہا تو
میری فصل تباہ ہو جاٗے گی۔ حافظ جی نے ہم سے کہا ۔۔جاو اسی طریقے سے پڑھ کر
انگلی سے تین بار الٹے چکر کا اشارہ کردو۔۔ ہم نے ایسا ہی کیا تورہٹ رک گیا۔
ایسے واقعات صرف کتابوں میں لکھے نہیں ملتے بلکہ ہم ایسے کئی واقعات کے
شاہد ہیں جن کو مافوق الفطرت کہا جا سکتا ہے ۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر
لاہور کی طرف جائیں تو روات کے بعد کلیام اعوان نام کا قصبہ سڑک کے دائیں
طرف آباد ہے ۔ بابافضل دین کلیامی اسی بستی میں محو استراحت ہیں۔ علاقے میں
ان سے منسوب بہت سی کرامات مشہور ہیں۔ بابا کلیامی ، بلند درگاہ گولڑہ شریف
( اسلام آباد ) والے حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ کے پیر بھائی تھے۔اور بابا
جی کلیامی کی نماز جنازہ بھی حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی ہی نے
پڑہائی تھی۔ بابا جی کلیامی کے مزار پر ایک نابینا حافظ صاحب جنوبی پنجاب
سے زیارت کے لیے آئے ۔ حافظ صاحب نے قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر تلاوت شروع
کی۔ کسی نے کہا سبحان اللہ ۔ حافظ صاحب تو ایصال ثواب کے لیے تلاوت فرما
رہے تھے مگر سبحان اللہ کی آواز سے انھوں نے جانا کہ کوئی اللہ کے با برکت
کلام سے مستفید بھی ہو رہا ہے ۔ ان کی آواز بلند ہو تی گئی ۔ سوز میں اضافہ
ہوتا گیا۔ لہن داودی سماعت ہوتی گئی لوگ اکٹھے ہوتے گئے۔جب حافظ صاحب نے
رکوع مکمل کیا تو مجمع میں سے ایک صاحب نے انھیں رات کا مہمان بننے کی دعوت
دی۔ حافظ صاحب نے بتایا انھیں رات گزارنے کے لیے علیحدہ کمرہ درکار ہوتا ہے
۔ شرظ قبول کر لی گئی۔ رات کے کسی پہر صاحب خانہ تلاوت کی آواز سن کر بیدار
ہوٗے انھوں نے دیکھا ۔ حافظ صاحب کے کمرے کا دروازہ نیم وا ہے۔ حافظ صاحب
قراٗت میں غوطہ زن ہیں اور کمرے میں بہت سی پرداہ دار خواتین بیٹھی تلاوت
سننے میں محو ہیں۔ صبح صاحب خانہ کے استفسار پر حافظ صاحب نے بتایا کہ وہ
سب ان کی شاگرد ہیں مگر بنات الآدم نہیں ہیں اور تلاوت سیکھنے ان کے پاس
آتی ہیں۔یہ حاٖفظ صاحب مندرہ چکوال روڈ کے کنارے واقع موہڑہ امین کے رہائشی
تھے مگر قران کی تعلیم پھیلانے کے لیے جنوبی پنجاب میں جا بسے تھے۔ ان حافظ
صاحب کے بھائی جو ائرفورس سے ریٹائرڈ تھے بتایا کرتے تھے کہ ان کی آواز میں
ریکارڈ شدہ کیسٹ کی کاپی انھوں نے جس کسی کو بھی دی وہ جنات لے جاتے تھے۔
میں نے تجربے کے طور پر ان سے ایک کیسٹ کی کاپی لی ۔ اور اپنے لکھنے کے میز
کی دراز میں رکھ دی۔ چند دنوں کے بعد وہ کیسٹ غائب ہو گئی۔
صاحب تذکرہ غوثیہ نے قاری لالہ کا جو واقعہ لکھا ہے یا دوسری کتابوں میں جو
قصے بزرگ لوگ لکھتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری ایسے قصے پڑھ کر اس
حقیقت کو جانیں کہ پڑہنے اور غور و خوض میں فرق ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے
اپنی نازل کردہ کتاب میں انسان کو سمجھ آنے والے الفاظ مین بتا دیا ہے کہ
اس میں ماننے والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ غور و تدبر کی بھی ہدائت ہے۔
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا میں قرآن سیل کے نام سے ایک تحقیقی مرکز ہے ۔
جہاں محقیقین میں کئی ملکوں کے ماہرین شامل ہیں۔ علم کا حق ہے اس پر تدبر
کیا جائے اور جو اپنے علم پر تدبر کرتا ہے اس علم کا ماہر بن جاتا ہے۔علم
میں تدبر کاکام کبھی اہل یونان کیا کرتے تھے۔ افلاطون اور ارسطوکا نام آج
بھی زندہ ہے۔ پھر یہ کام عربوں نے سنبھالا ۔نویں اور تیرھویں صدی کے درمیان
ریاضی،فلکیات، طب، کیمیاء ، طبیعات ،فلسفے ، تاریخ ، سیاحت، حیوانات اور
جغرافیے کے علوم میں زندہ ناموں میں ابن الہیثم، جابر بن حیان،الاحصمی،
خوارزمی، ابن فرناس، جابر بن سنان، فارابی اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔
تیرہویں صدی کے بعد روحانی علوم کے سوا ہر قسم کے علوم میں اہل یورپ اور
اہل امریکہ نے تدبر اور تحقیق کا بیڑا اٹھایا۔ دریا بیڑے ہی سے پار ہوتا ہے
لیکن بیڑے کو پار تدبر ہی لگاتا ہے
|