بدھا کے دیس میں (آخری قسط)

کیٹول گالا Kitulgala
نوارہ علیا سے اترائی کا سفر شروع ہوا ۔ آج بچے خاص طور پر بہت پرجوش تھے کیونکہ آج ہم Raftingکے لئے جا رہے تھےجس کو میں نے خاص طوراپنے پیکج میں شامل کروایا تھا ۔رافٹنگ کا تجربہ ہم سب اس سے پہلے ناران میں بھی کر چکے تھےاوردریائے کنہار کی منہ زور لہروں سےنپٹنے کے بعد اِس دفعہ ہم سب پورے اعتماد کے ساتھ دریا میں اترنے کو تیار تھے۔
رافٹنگ ایک سنسنی خیز سر گرمی اورخطروں کے ساتھ نپٹنے کا ایک پر لطف کھیل ہے جس میں آپ ایک ربڑ کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دوپہر تک ہم کیٹول گالا پہنچ گئے جہاں rafting کے لئے ہماری بکنگ کی گئی تھی۔ہماری گاڑی ایک چھپر نما رافٹنگ سنٹر پر رکی۔سب نے Changing roomمیں کپڑے تبدیل کیے۔اسی اثناء میں ایک دبلا پتلا ساسری لنکن لڑکا پہنچ گیا جس نے ہمارے رافٹنگ ٹرپ کو لیڈ کرنا تھا۔ اس نے ہم سب کو حفاظتی جیکٹس اور ہیلمٹ پہننے کے لئے دیئے۔ان کو پہننے کے بعد ہم دریا تک پہنچنے کے لئے ایک پِک اَپ میں سوار ہوئے۔
پانچ،سات منٹ کے بعد ہم مخصوص جگہ پر پہنچ گئے اور دریائےکیلانی کی طرف نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہماری کشتی وہاں پہنچائی جا چکی تھی۔ایک ایک چپو سب کو تھما دیا گیا۔سفر شروع کرنے سے پہلے ہمارے لیڈر نے ہمیں ضروری ہدایات دیں اور چپو کو استعما ل کرنے صحیح طریقہ بتایا۔اب میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس نے بھی فر فر انگریزی بولی۔۔۔
اس کے بعددریا پر ہمارا پرلطف سفر شروع ہوا۔ اردگرد کہیں گھناجنگل تھا۔ کہیں کہیں چند گھر بھی نظر آ جاتے ۔بظاہر ان گھروں کا پہنچنے کے لئے کوئی سڑک نظر نہ آرہی تھی یا شاید ان گھروں کے باسی کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہوں گے۔۔
رافٹنگ کا اصل مزہ اس وقت آتاجب ہماری کشتی Rapids سے ٹکراتی اور ہم سب خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کے باوجود ہنستےہنستے کشتی کے اندر ڈھیر ہو جاتے۔ اِسی اُچھل کود میں ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔
ایک جگہ دریا کی سطح بالکل ہموار اور پرسکون تھی،وہاں ہمارے لیڈر نے تجویز پیش کی کہ لائف جیکٹ کے ساتھ اگر یہاں دریا کے اوپر سیدھا لیٹا جائے تو بہت غیر معمولی تجربہ ہو گا۔میراتو اس فراخدلانہ پیش کش پر عمل کا حوصلہ نہ ہوا البتہ لڑکوں نے فوراً حامی بھر لی اور خوب مزا کیا۔کچھ دیر کے بعدہماری کشتی کنارے لگائی گئی۔سب پورے کے پورے گیلے ہو چکے تھےمگر اس طرح خوش تھے کہ گویا بہت بڑا معرکہ سَر کر لیا ہو۔
سینٹر پہنچ کر سب نےکپڑے تبدیل کیے اور سری لنکا کے نہایت میٹھے اور لذیذ پھل جام نوش کیے جو کہ پہلے سےخرید کر گاڑی میں رکھے ہوئے تھے۔ایک اور پر لطف دن گزارنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔
بنٹوٹا Bentota
سری لنکا میں ٹرپ کے آخری دو دن ہم نے بنٹوٹا ((Bentota کے قریب چھوٹے سے ٹاؤن ،بیرووالا(Beruwala )میں گزارے۔ بنٹوٹا ،کولمبو سے 65 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا ساحلی شہر ہے اور بیرووالا کوبنٹوٹا کا ایک نواحی شہر سمجھ لیں۔ یہاں کی سب سے مشہور چیز یہاں موجود صاف ستھرا اور ریتلا ساحل ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔
بیرووالاکی تاریخ جان کر حیران کن اور دلچسپ انکشافات ہوئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی پہلی آبادی اسی شہرمیں قائم ہوئی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان تجار کے ہمراہ آئے ہوئے صومالی شیخ یوسف بن احمد نے وہاں اسلام کی تبلیغ کی اور ان کی نسبت سے اس نوآباد شہر کا نام "بربرین" رکھا گیا (بربر یعنی افریقن قبیلہ) جو کہ بعد میں کثرت ِ استعمال کے باعث "بیرو" رہ گیا۔
سری لنکا میں بنائی گئی اولین مسجد بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کا نام "مسجد الابرار" ہے۔ یہ مسجد 920ء میں تعمیر کی گئی اور اس کی تعمیر کا سہرا یہاں اوّلین بسنے والے عرب تاجروں کو جاتا ہے جنہوں نے اس خطہ میں اسلام اورپھر اِس مسجدکی بنیاد رکھی۔ 1893ء میں اس مسجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔ آج بھی یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کے نادر نمونے کے طور پر جانی جاتی ہے۔
حسنِ اتفاق دیکھیے کہ سری لنکا میں ہمارا آخری دن جمعہ کا دن تھا۔ میاں صاحب اور بچے جمعہ کی نماز پڑھنے ٹک ٹک ( سری لنکا کا رکشہ)میں بیٹھ کر کسی مسجد کی تلاش میں نکل گئے اور ٹک ٹک والے نے اس مسجد میں پہنچا دیا۔ واپسی پر ان کی خوشی دِیدنی تھی کہ سری لنکا کی پہلی مسجد کو دیکھنے اور اس میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی سعادت ملی اور مجھے دکھ ہوا کہ میں اس سعادت سے محروم رہ گئی۔
بیرووالا میں ہمارا قیامCinnamon Bay Hotel میں تھا۔پانچ ستاروں والا یہ ہوٹل ساحل پر تعمیر کیا گیا ہے۔نہایت خوبصورت ساحلی پٹی پر بہترین سہولیات اور تعیشات سے مزین یہ پُر رونق ہوٹل سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔ بہت بڑا لان،سوئمنگ پولز،ڈائینگ ہالز،خوبصورت لاؤنج اور بہت کچھ۔۔گویاایک پوری دنیا اس کے اندرآباد تھی۔۔
سمندرکےنزدیک ہونے کی وجہ سے قدرے حبس تھا مگر صبح اور شام کے وقت ہوا خوشگوار ہو جاتی ۔جس دن ہم وہاں پہنچے اسی رات ہوٹل کےلاؤنج میں کلچرل شوکا بھی اہتمام تھا۔ ایسا ہی شو جوکہ ہم کینڈی میں مِس کر چکے تھے ۔ روایتی لباس میں ملبوس گروپ نے روایتی میوزک اور روایتی ملبوسات کے ساتھ مختلف لوک ڈانسز پیش کئے گئے۔ زیادہ تر رقص ڈھول کی تھاپ پر پیش کئے گئے۔
بھارت کی طرح سری لنکا کی ثقافت پر بھی رقص کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔رقص ہرلنکن تہوار اور رسم کا لازمی جزو بن چکا ہے۔لنکن رقص میں "شیطانی نقاب " یا" مکھوٹا" کی خاص اہمیت ہے اس کو آپ عام زبان میں ماسک کہہ سکتے ہیں۔یہ ماسک مختلف اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً دیومالائی شکلیں،جانوروں یا انسانوں کی اشکال وغیرہ۔دیومالائی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کے ماسک پہن کر رقص کیا جاتا ہے لیکن اب یہ ماسک بھی لنکن ثقافت کا حصہ بن چکےہیں ۔قدیم زمانے سے سری لنکا میں اِس طرح کے ماسک بنائے جارہے ہیں جن کو سیاح بھی بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔
آج کے شو میں ایک دبلے پتلےسے لڑکے کی پرفارمنس نے کافی داد سمیٹی جو میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس کرتے ہوئے جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال رہا تھا۔گویا اس نے اردو کا محاورہ "آگ سے کھیلنا" کو حقیقت بنا دیا۔ شو سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈنربھی جاری رکھا کیونکہ لاؤنج اور کھانے کا ہال ملحق تھے اور سری لنکا کی روایتی ڈشز کے ساتھ ساتھ کانٹی نینٹل کھانوں سے بھی پورا پورا انصاف کیا۔
اگلے دن ہماری مارننگ واک ساحل سمندر پر تھی ۔ سمندر کی مست ہوا میں ساحل پر سیپیاں چُنتے چُنتےاور مٹر گشتیاں کرتے ہوئے ہم کافی دور تک نکل گئے۔
سمندر کو دیکھ کر ہمیشہ سے خدا کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی بے پناہ عظمت و کبریائی کا احساس میرے دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔صبح کے سہانے سمے سمندر کی نیلگوں وسعت نےدل پر عجب کیفیت طاری کر دی۔یوں لگا جیسے سمندر مجھ سے ہم کلام ہو رہا ہو۔ سمندر کی بےپناہ وسعت اور اس کی منہ زور لہروں کو دیکھ کر یوں بھی اپنی کم مائیگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔۔۔اس خالق کائنات کی ایک ادنیٰ تخلیق کا یہ عالم ہے تو اس کون و مکاں کے ان گنت اور لامتناہی مظاہر کو بنانے والے کی طاقت و جبروت کا کیا عالم ہو گا!! دلِ عاجز سے یہی دعا نکلی کہ
اے رب ذوالجلال و الاکرام، تجھ سے فریاد ہے
اے سمیع العالم، ہمیشہ باقی رہنے والے!
میں تجھ سے ملتمس ہوں۔۔تو ہی ہر شے کا اصل محرک، تب سے قائم ہے، جب کچھ بھی نہ تھا
تو ہی در حقیقت، ہر شے کو فنا کرنے والا ہے، جس کا قہر بھی حکمت سے خالی نہیں، تیرے سوا کون ہے جو اس خلائے بسیط کو تباہ کر سکتا ہے؟
اے بصیر ، اے ہمیشہ باقی رہنے والے! میری تمام التجائیں تجھ سے ہی ہیں
بےشک میری حیات ، میری موت، میرا عمل، میرے تمام اثاثے۔۔سب تیری ہی دَین ہیں اور صرف تیرے ہی لیے ہیں، میں تیری طرف سے بھلائی کے نزول کی منتظر ہوں، اپنی ہر اس برائی سے تیری پناہ کی طلبگار ہوں جو مجھ سے سرذد ہوئیں، میں تجھ سے التماس کرتی ہوں کہ مجھے ہر دشمنی اور ساز باز سے اپنی حفاظت میں رکھیے جو میرے علم میں ہے اور جس سے میں ابھی تک لاعلم ہوں۔ آمین
بیرووالامیں ہمارے پاس دو دن تھے۔ صبح کی سیر کے بعد آکر ناشتہ کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعدبنٹوٹا جانے کا پروگرام بنایا۔یہ شہر واٹر اسپورٹسز کے لئے بھی بہت مشہور ہے مثلاً جیٹ سکی اور سرفنگ وغیرہ لیکن آج ہم صرف شہرمیں گھومنا چاہتے تھےڈرائیور کو ڈسٹرب کرنے کی بجائے میں نے ایک اور ایڈونچر یعنی ٹک ٹک(سری لنکا کا رکشہ )کی سواری کرنے کا فیصلہ کیا۔ہوٹل سے باہر نکلے اور دو رکشوں پر بیٹھ کربنٹوٹا روانہ ہوئے۔ سری لنکا کا ٹک ٹک ہمارے ہاں کے چنگچی سے کافی مشابہ ہے۔ جلد ایک چھوٹے سےبازار پہنچ گئے،چیزیں کوئی خاص قابل ذکر نہ تھیں اور میرا شاپنگ کا ارادہ بھی نہ تھا۔ دکاندارشاید ہمارے سیاح ہونے کی وجہ سےکافی مہنگے دام بتا رہے تھے۔بچوں نےوہاں سے کچھ سوونئیر خریدے اور واپسی کا ارادہ کیا۔
ہوٹل آنے سے پہلے پھلوں کی ایک دکان سے کچھ پھل خریدے کیونکہ سری لنکا کے دلکش نظاروں اورمحنتی عوام کے ساتھ ساتھ میں یہاں کے میٹھے اور لذیذ پھلوں کے عشق میں بھی مبتلا ہو چکی تھی۔
ایک خاتون نہایت چابکدستی سے ننگے پاؤں ہی خرید و فروخت میں مصروف تھیں۔کچھ پھل جو میرے لئے اجنبی تھے، انھوں نے فوراً کاٹ کر چکھنے کے لئے دیئے جوکافی لذیذ تھے۔ سری لنکا کے آم، تربوز،اسٹار فروٹ اور پپیتا ہرروز میرے ناشتے اور ڈنر کا لازمی جزو تھے۔ریاض ساتھ لے جانے کے لئےدو کارٹن میں آم،پیتا،مینگوسٹن اور رامبسٹن پیک کروائے (آخری دو کی تصویریں آپ کو دکھا چکی ہوں) ۔۔۔بلکہ بعد میں افسوس ہوا کہ کم لائے ہیں کیونکہ دو تین دن میں ہی ہم نے سب پھلوں کا خاتمہ کر دیا۔
ہوٹل پہنچ کر ٹک ٹک والے نے اپنی جیب سے ہے انگریزی میں چَھپا ہوا اپنا وزٹینگ کارڈ نکال کر ہمیں دیا اور کہا کہ اگر اردگرد کسی آثارِ قدیمہ یا آبشار دیکھنے جانا ہو تو اس کو کال کر لیں۔اس کا کہنا تھا کہ یہاں سے کچھ دور اس کے گاؤں میں ایک نہایت خوبصورت آبشار ہے جو ہمیں یقیناً پسند آئے گی۔ہم نے اس آفر پر کوئی کان نہ دھراجس کا مجھے اب افسوس ہوتاہے کہ کیوں نہ سری لنکا کو کچھ اور ایکسپلور کیا۔
وہاں کی عوام کی انگریزی بولنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی ضروری ہے کہ اب بات کر ہی لیں۔۔سری لنکا 92 فیصد لٹریسی ریٹ کے ساتھ جنوبی ایشیاء میں سب سے ٹاپ پر ہے۔ایک رکشے والے سے لے کر ٹھیلے والے تک ہر کوئی انگریزی میں بات کر سکتا ہے (اگرچہ اپنے ایکسنٹ کے ساتھ) ۔۔۔۔ہو سکتا ہے اس کی وجہ سیاحوں کی کثیر تعداد میں آمد بھی ہو کیونکہ لامحالہ ان لوگوں کا واسطہ سیاحوں سے پڑتا ہے کیونکہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سیاحت کی انڈسٹری سے وابستہ ہے۔
انگریزی بلاشبہ عالمی سطح پر رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔۔ہاں لہجہ اور تلفّظ ہر قوم کا عموماًاپنا ہی ہوتا ہے۔اِسی لئے سب سے زیادہ بے چاری انگریزی زبان کی ہی دُرگت بنتی ہے۔ ایک پٹھان دکاندار کی پیاری سی انگریزی کو تو میں آج تک نہیں بھول سکی۔۔کافی سال قبل کالج ٹور کے ساتھ رشکئی کے باڑے میں جانے کا اتفاق ہوا۔دکاندار نے بہت خوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا'SIT ON FURNITURE اور پھر حسب عادت اپنی دکان کے کپڑے کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے بولا"باجی، بہت اعلیٰ کپڑا ہے، ٹنڈائی ہے ٹنڈائی"پہلے تو میرے سر سے گزر گیا یا الہی یہ ٹنڈائی کیا بلا ہے! کچھ ٹینڈوں سے ملتا جلتانام لگا۔۔پھر کپڑے کی ہئیت پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ مراد TIE AND DYEہے۔۔۔یہ واقعہ ہرگزکسی کی تضحیک کے لئے بتا رہی بلکہ میں توآج تک اس پٹھان بھائی کی انگریزی کویاد کر کے انجوائے کرتی ہوں ۔۔اب آپ کہیں گے کہ میں نے خود کیوں خواہ مخواہ انگریزی جھاڑی ۔۔تو مائی ڈئیر آپ بس"انجوائے" کریں!!
ویسےہمارے ہاں انگریزی ضرورت سے زیادہ فیشن کے طور پر بولی جاتی ہے یا پھراحساسِ کمتری کے جذبے کے تحت۔۔بظاہر تو ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے عرصہ گزر چکا ہے مگرہم ان کی ذہنی اور فکری غلامی کے شکنجے سے اب تک آزاد نہیں ہو سکے۔۔
بنٹوٹا میں آخری دن ہم نے ساحل کے آس پاس گھومنے میں صرف کیا اور اس کے سوا کچھ نہ کیا۔جیسے انگریزی میں کہتے ہیں doing nothing۔ہم بھی آرام سے سمندر کی لہروں کو دیکھتے اور ان سے کھیلتے رہے۔ساحل پر بیٹھ کرمنہ زور لہروں کا نظارہ کرناایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔گاہےبگاہے سمندر کی طاقتور لہریں،کچھ نئی سیپیاں ساحل پر بکھر دیتی اور کچھ کو اپنے ساتھ بہا کر واپس لے جاتیں۔ یہی ازل سے اس کائنات کااصول ہے۔۔۔دم بھر کے لئے زندگی کا ساحل اور پھر موت اور اس کے بعد کا لامتناہی سفر!! یہی دم بھر کا وقفہ غنیمت ہے عمل کے لئے۔۔۔
اگرکبھی آپ کو وسیع و عریض سمندر کی ہر دم متلاطم موجوں کے سامنے بیٹھ کر ان کو دیکھتے رہنے کا موقع ملے تو ان تنہائی کے لمحات کو گنوائیے گا مت۔۔یہ خدا، کائنات، زندگی کی حقیقت دریافت کرنے کے لمحات ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لمحات میرےہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل جاتے، میں نے ان کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیا۔
واپسی کی گھڑی آن پہنچی تھی اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر کولمبو روانہ ہو گئے۔ متاعِ دنیا سمیٹ کر اوراَن گِنت حسین یادوں کی متاع کودل میں بساکر گاڑی میں بیٹھ گئے مگر لگتا تھا کہ دل توکہیں سری لنکا کے حسین نظاورں میں کھو گیا ہے۔
؏ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے
ختم شد
 

Raina Naqi Syed
About the Author: Raina Naqi Syed Read More Articles by Raina Naqi Syed: 8 Articles with 11437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.