تیونس میں ایک نوجوان کے خودکشی کرنے کے
بعد ایک انقلاب نے جنم لیا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسی کئی خودکشیاں ہو چکیں
ہیں۔ کیا پاکستانی مردار قوم ہے؟ کیا ہم سب کے ضمیر مر چکے ہیں؟ لوگ کہتے
ہیں کہ سارے سیاست دان کرپٹ ہیں تو پھر ان کرپٹ لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے
کیوں نہیں ہوتے؟
یہ سارے سوالات ہیں جو کہ لوگوں کے ذہن میں ابھر رہے ہیں ان سوالات کے جواب
تلاش کرنے کے لئے اگر ہم تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں تو ہمیں یہ معلوم
ہوگا کہ ١٩٤٧ سے پہلے بر صغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی حکومت رہی انگریز
کاروبار کے بہانے ہندوستان آیا اور ہندوستان کا ہی ہو لیا۔
انگریز بہادر نے ہندوستان پر نوے سال حکومت کی اور اس حکومتی دور میں اس نے
ایک ہی فارمولا اختیار کیا ڈیوائیڈ اینڈ رول، یعنی لوگوں کو تقسیم کرو اور
ان پر حکومت کرو، ہندوؤں سے ہمدردانہ اور مسلمانوں سے تعصبانہ رویہ نے
ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم رکھا۔ اس طرح انگریزوں نے ہندوستان کے لوگوں
پر غلامی کا طوق ڈالے رکھا۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جا رہا کہ عوام
کو تقسیم در تقسیم کیا جائے اور اپنے من پسن لوگوں کو حکومت میں لایا جائے۔
گورا سات سمندر پار بیٹھا ہماری قسمت کے فیصلے کر رہا ہے کہ پاکستان میں
آرجی ایس ٹی لگایا جائے یا نہ لگایا جائے۔ اس سارے کھیل میں بھارت بھی پیش
پیش ہے۔
پاکستان کی لسانی جماعتیں باقاعدہ بھارت اور امریکہ سے ڈکٹیشن لیتی ہیں۔
حجاج بن یوسف کے بھتیجے محمد بن قاسم نے سندھ پر اپنے جہاز لنگر انداز کئے
ہندوستان میں ہونے والے ظلم اور بربریت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں نے اس عظیم
سپہ سالار کو پکارا اور اس نے اپنی جان کی پروہ نہ کی ان کی آواز پر لبیک
کہا۔
سوال یہ ہی اٹھتا ہے کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے اکثر حکمرانوں کا تعلق
ہندوستان سے باہر کا کیوں ہے۔
قطب الدین ایبک، شہاب الدین غوری، شمش الدین التمش، محمود غزنوی یہ سارے کے
سارے مجاہد بر صغیر میں پیدا نہیں ہوئے۔
کیا ہندوستان کی مائیں ہندوستان کو ایک شہاب الدین غوری نہیں دے سکتیں کیا
کوئی محمد ابن قاسم بر صغیر میں کیوں پیدا نہیں ہو سکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ پھر اس قوم کو بچانے کو مجاہد باہر سے ہی آئے گا؟ |