ایم کیوایم کا جلسہ قومی یکجہتی،
انقلاب ِ پاکستان کی صدا
برسوں سے فاسق فاجر اور امریکی ایجنٹ مصری صدر حُسنی مبارک کے عتاب اور قہر
میں دبی رہنے والی مصری قوم آج جس جمود کو انقلابِ مصر کا نام دے کر توڑنے
کے خاطر مصر کی سڑکوں پر نکل پڑی ہے اَب اِسے اِس میں کتنی کامیابی ملتی ہے...؟
اِس سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا سوائے اِس کے ابھی مصری قوم کے اِس
امتحان اور آزمائش کو شروع ہوئے کچھ ہی دن تو ہوئے ہیں اِسے کسی منزل تک
پہنچنے اور کئی حوالوں سے اچھے نتائج کے حُصول کے خاطر اِسے مزید امتحانوں
اور آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑسکتا ہے تب کہیں جاکر اِسے اُس انقلاب کی لذت
اور چاشنی کا ذائقہ نصیب ہوگا جس کے لئے مصری قوم جستجو کئے ہوئے ہے اور
اگر اِس کے قدم ابھی ابتدا ہی سے لڑکھڑا گئے تو پھر اِس کا نصیب کبھی بھی
جاگ نہیں پائے گا اور یہ اِسی طرح پھر کسی ظالم اور فاسق صدر کے ہاتھوں
غلام بن کر رہ جائے گی جس طرح یہ ابھی حُسنی مبارک کے ہاتھوں کسی غلام سے
بھی بدتر زندگی گزار رہی ہے۔اِسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ محنت اور سرمائے کا
تضاد مزدور طبقے کو انقلاب کے راستے پر ڈال دیتا ہے اِس لئے غریب عوام کے
سامنے یا تو ذلت اور محرومی کی زندگی بسر کرتے ہوئے ظلم کی چکی میں پستے
چلے جانے کا راستہ رہ جاتا ہے یا پھر اِس صُورتِ حال سے بغاوت کر کے انقلاب
کے لئے نکل آنا ہوتا ہے اور اِس سے بھی اِنکار نہیں کہ ایک نئے سماج کی
تشکیل کی راہ پر اولین قدم آسان نہیں ہوتے جیسا کہ جس جانب آج مصری قوم
اپنے قدم اٹھا چکی ہے جبکہ دوسری طرف حُسنی مبارک جیسے جمود پسندوں کی یہ
سوچ ہے کہ جو کچھ اَب تک نہیں ہوچکا ہے وہ آئندہ بھی نہیں ہوگا جبکہ مصر کی
سڑکوں پر نکلنے والے لوگ مصر کے بہتر حالات اور مثبت تبدیلیوں کے خواہش مند
ہیں اور وہ اپنے اِسی جذبے سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور پوری اُمید
رکھتے ہیں کہ اِن کے اِسی جذبے اور جدوجہد سے مصر میں انقلاب ضرور رونما
ہوگا۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا نے گزشتہ کئی دنوں سے یہ ضرور دیکھ لیا ہے
کہ مصری عوام جس طرح سڑکوں پر ہے یہ اپنے بلند حوصلوں اور عزم ُوہمت کے
باعث اپنی منزل تک جلد پہنچ کر دم لیں گے مگر دوسری طرف اَب تو یہ اطلاعات
بھی متواتر آنی شروع ہوگئی ہیں کہ مصری صدر حُسنی مبارک کے مخالفین اور اِن
کے حمامیوں کے درمیان بھی جھڑپیں زور پکڑتی جارہی ہیں اِس سے قبل حُسنی
مبارک کے مخالفین جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 40سے41لاکھ یا شائد اِس
سے بھی زائد بتائی جاتی ہے اُنہوں نے قاہر ہ، اسکندریہ اور سوئز میں جمع
ہوکر صدر حُسنی مبارک کے خلاف ملین مارچ کیا جس کے بعد مصر کی اپوزیشن کے
مردہ گھوڑے میں بھی جان پڑگئی اور اُس نے بھی اپنا سینہ چوڑا کر کے آستینیں
چڑھا کر اور گلا پھاڑ کر فرعون نما مصری صدر حُسنی مبارک کو جمعہ تک مصر
چھوڑنے کا الٹی میٹم دے کر شائد مصری تاریخ میں پہلی بار کوئی اچھا کام کیا
تو اِس کے جواب میں تُرنت انتہائی شاطر اور چالاک امریکی پِٹھو صدر حُسنی
مبارک نے اپنے اُن ہی امریکی آقاؤں سے رابطہ کیا جو پسِ پردہ اَب بھی اِن
کی پیٹھ پر اپنے ہر ممکن تعاون کی تھپکی دے رہے ہیں جس کے بعد حُسنی مبارک
نے اپنی بھپری ہوئی مصری قوم اور عالمی میڈیا کا رُخ موڑنے کے لئے اپنی قوم
سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آئندہ انتخابات میں حصہ تو نہیں لوں گا مگر
عوام کے یوں سڑکوں پر نکل آنے سے کسی پریشر میں بھی نہیں آؤں گا اور نہ ہی
میں اپنا اقتدار چھوڑوں گا گو کہ حُسنی مبار ک نے اپنے قومی خطاب میں
انتہائی عجزوانکساری اور ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ جمہوریت کے
لئے ہمارے نوجوانوں کے مطالبات جائز تو ہیں مگر وہ اپنا اقتدار چھوڑنے سے
انکار کرتے ہیں اور اِس طرح اُنہوں نے اپنی قوم کو ایک طرح سے للکار بھی
دیا کہ تم مجھے میرے اقتدار سے ہٹانے کے لئے مصر کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا
ڈالو تو بھی میں اپنے اقتدار سے ایک انچ بھی نہیں کھسکوں گا اور اِس کے
ساتھ ہی دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ لاکھوں کے مجمع کے مقابلے میں حُسنی مبارک
کے سینکڑوں حامی بھی مصر کی سڑکوں پر نکل پڑے اور آج مصر کی سڑکوں پر یہ
حالت ہے کہ عوام آپس میں ہی لڑجھگڑ کر اپنے ہی خون سے مصر کی سڑکوں کو
رنگین کئے جارہے ہیں اور حُسنی مبارک ہیں کہ اپنے شاہی محل میں اپنی عوام
کو لڑتا مرتا اور کٹتا دیکھ کے اپنے اقتدار کو طول دینے کے حسین خواب دیکھ
رہے ہیں۔ حُسنی مبارک کے مخالفین اور حامیوں سمیت فورسز کے درمیان ہونے
والی جھڑپوں کے دوران پیٹرول بموں سے حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں اَب تک
کی اطلاعات کے مطابق 450سے زائد ہلاکتوں اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہونے
والے افراد شامل ہیں جبکہ سرکاری اور نجی املاک کو جو نقصان پہنچا ہے اِس
کا تخمینہ کئی ہزاروں ڈالرز میں لگایا گیا ہے جو ہلاکتوں اور زخمیوں کے
علاوہ ہے جبکہ حُسنی مبارک کے خاندان کے وہ لوگ جو عوامی غم و غصے کے
ہاتھوں بے بس نظر آئے اور وہ حُسنی مبارک کو استعفیٰ دینے اور خاموشی سے
مصر سے نکل جانے کا مشورہ دیتے رہے مگر جب حُسنی مبارک کی ضد کے آگے یہ ہار
گئے تو وہ حُسنی مبارک کو پاگل کہہ کر خود اپنے 97سوٹ کیسوں کے ساتھ اپنی
جان بچاکر خاموشی سے برطانیہ پہنچ گئے ہیں اور اَب وہ بھی مصری عوام اور
امریکی دوستی کی دھوکہ بازی کے ہاتھوں حُسنی مبارک کے ہونے والے انتہائی
بھیانک انجام کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ہی
وہ ہتھیار ہے جو ظالموں کو مسلح طاقت سے راہِ راست پر لے آتا ہے یا پھر اُن
کو سطحِ زمین پر رہنے کے بجائے زیرِ زمین کردیتا ہے تاکہ عوام سُکھ کا سانس
لے سکیں اور آج دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مصر میں انقلاب کے لئے عوام کے
ہاتھوں جو شدت آتی جارہی ہے وہ یقیناً اُس منزل کی جانب واضح اشارہ ہے آج
جس کے لئے مصری قوم اور اُس جیسی دنیا کی دوسری قومیں اپنے اپنے لحاظ سے
اپنے یہاں انقلاب لانے کی جدوجہد کر رہی ہیں اِن کی یہی پُرتشدد صحیح مگر
بامقصد جدوجہد اُن لوگوں کے لئے ایک اچھا سبق ہے جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ
”انقلاب خاموشی اور امن سے برپا کیا جاسکتا ہے اِن کے لئے عرض یہ ہے کہ یہ
لوگ دراصل انقلاب کے معنی ہی نہیں جانتے ہیں کیونکہ کسی بھی جمود کے توڑے
جانے اور کسی بھی سخت چیز کے ٹوٹنے پر جو آواز پیدا ہوتی ہے اور اُس آواز
پر جب لوگوں کی توجہ مرکوز ہوتی ہے تو اصل میں وہی انقلاب کا درجہ پالیتی
ہے مصر تیونس اور اردن کی طرح آج آہستہ آہستہ پاکستان میں بھی گزشتہ
63سالوں سے جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور ظلم وجبر کے جمود نما نظام کو
توڑنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو راہ ہموار کررہی ہے اور جس طرح
اِس کا جلسہ قومی یکجہتی تھا اِس سے ثابت ہوجاتا ہے اور اِس کی اِس مقصد
اور لگن کے خاطر کئے جانے والی جدوجہد کو دیکھ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ
جماعت ایک نہ ایک دن ملک میں ضرور انقلاب لے آئے گی جس سے ملک کی 95فیصد
غریب عوام انصاف مل سکے اور اِس طرح ملک کے غریب عوام انقلابی دھارے سے
اپنی صحیح سمت کا تعین خود کرلیں گے۔ |