بڑ ی عجیب صورتحال درپیش ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر
ناجائز قابضین اور تجاوزات کے خلاف بلدیاتی ادارے بے رحم آپریشن کررہے تھے
تو کسی کو توفیق نہیں تھی کہ مزدور پیشہ طبقے کے حقوق و متبادل روزگار کے
لئے انسانی ہمدردی کے نام پر آواز بلند کرتے جن کی کل جمع پونجی وہ ٹھیلہ و
پتھارا تھا جس سے وہ اپنے پورے خاندان کی کفالت کرتا تھا۔ کوئی دو رائے
نہیں کہ فٹ پاتھ سمیت عام گزرگاہوں پر عوام اور ٹریفک متاثر کرنے والوں کو
ایک حد تک محدود رہناچایئے ۔ لیکن جس طرح بے رحمانہ طریقے سے تجاوزات کی آڑ
میں آپریشن کیا گیا ، اس پرتحفظات تھے کہ یہ آپریشن منظم سیاسی مقاصد کیلئے
بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا ۔
اگر ہم صرف پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کی بات کریں تو شہر بھر میں
ہزاروں تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا ۔ سڑکیں کشادہ کردی گئیں۔لیکن جب اسی
آپریشن کا اہم رخ سرکاری زمینوں پر قابض مافیاکی جانب ہوا تو جیسے بھونچال
آگیا ۔ بے سروسامانی و بے گھر ہونے کا خوف ، عمر بھر کی جمع پونجی جانے کی
دہائیاں اوردھڑا دھڑ پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔ احتجاج شروع کردیا گیا۔
مظاہروں میں شدت آگئی، سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیلیں دائر کردی
گئیں۔میئر کراچی نے مستعفیٰ ہونے کی دھمکی دے دی ۔ سندھ حکومت نے سپریم
کورٹ میں عدلیہ سے اپنے حکم پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی ۔گورنر سندھ
نے وزیر اعظم پاکستان کو کراچی کی صورتحال سے آگاہ کیا ۔ وزیر اعظم کی
ہدایت پر اٹارنی جنرل نے بھی نظر ثانی کرنے کے لئے اپیل دائر کردی ۔
معاملہ اس سے بھی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ کچی آبادیاں اور غریب عوام کے
روزگار کے انہدام پر تو کسی جانب سے موثر آواز نہیں اٹھا ئی گئی بلکہ
سیلفیاں بنا بنا کر شاباشی دی جا تی تھی۔ لیکن جب پاکستان کے سب سے بڑے
لینڈ مافیا پر ہاتھ ڈالا تو جیسے قیامت صغریٰ آگئی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان
نے بھی اپنے ریمارکس میں لینڈ مافیا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ عدلیہ پر دباؤ
ڈالنے کی کوشش نہ کریں ۔ جس پر لینڈمافیا گروپ نے اپنے ملازمین اور اُن
افراد کے ساتھ مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا جنہیں دھوکہ دے کر غیر قانونی
زمینوں پر مکانات و پلاٹ دیئے تھے اور اربوں روپے اقساط میں برسہا برس سے
وصول کررہے تھے، ان متاثرین کو چندہزار روپے کی زمین کروڑوں روپوں میں
فروخت کی تھی۔چونکہ اس گروپ کا میڈیا کے بعض بڑے اداروں پر اشتہاری مہم
دینے کی وجہ سے اثر رسوخ ہے ۔ اسی وجہ سے اوورسز پاکستانی بھی خوشنما
اشتہاروں کے دھوکے میں آگئے ۔ جنہوں نے قیمتی زر مبادلہ دے کر لینڈ مافیا
کے خزانے بھر ے۔ صرف کراچی میں 23300ایکڑ پر محیط غیر قانونی طور زمین لینڈ
مافیا کو جعلی الاٹنمٹ دے کر سیاہ سفید کا مالک بنادیا گیا۔نیب نے ایم ڈی
اے آفس پر چھاپہ مارا ۔ پہلے پہل مزاحمت ہوئی تاہم کئی چھاپوں میں ا ہم
ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔ ایسی زمینوں پر کمرشل و رہائشی پلاٹ ، پلازے،
بنگلے اور مکانات تعمیر کئے گئے جن کو قانون کے مطابق کمرشل و مالکانہ حقوق
پر کسی بھی فرد کو نہیں دیا جاسکتا ۔ جعل سازی اور دھوکہ بازی کا یہ
اسکینڈل کھربوں روپے مالیت پر مبنی ہے ۔ اب یہاں صورتحال یہ ہے کہ انسانی
ہمدردی کے ہتھیار کو جواز بنا کر غیر قانونی تعمیرات کو قانونی بنانے کے
لئے’’ این آر او ‘‘لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ منجمد اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے
اداروں پردباؤ ڈالا جارہا ہے۔
لینڈ مافیا اپنے ملازمین کو مظاہرین اور متاثرین بنا کر قومی شاہراہوں کا
راستہ بند کرکے عوام کو تکلیف پہنچا رہے ہیں ۔افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ
بعض چینلز نے اُن مظاہروں کی کوریج نہیں دی تھی جب کسی غریب کا سرمایہ
بلڈورز کے نیچے کچل دیا جاتا۔ اب لینڈ مافیا خواتین کو مظاہروں میں فرنٹ پر
لا کر اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہا ہے ۔ دوسری جانب چائنا کٹنگ
اور رشین کٹنگ کے ذریعے دھوکہ کھانے والے عوام ہنوز انصاف سے محروم ہیں۔
افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ احتجاج و مظاہرے بھی وہی قبضہ مافیاکررہے
ہیں جو ماضی میں اپنی سیاسی جماعتوں کے ذمے داروں کو سرکاری زمینوں ،
میدانوں ، پارکوں ، رفاعی و فلاحی پلاٹوں پر قبضے اورجعل سازی سے دستاویزات
بنانے کے لئے سہولت کار تھے ۔ جعل سازی کرکے عوام سے کھربوں روپے دھوکہ دہی
سے بٹورے گئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور نیب اُن ذمے داروں
سے عوام کی لوٹی ہوئی رقم واپس دلائے جنہیں سنہرے خواب دیکھا کر کئی
دہائیوں سے لوٹا جارہا ہے۔ بالخصوص کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے
کھربوں روپے قبضہ مافیاز نے اپنے خزانوں میں بھرے ۔ کراچی میں گراؤنڈ 2+ سے
زیادہ رہائشی پلازے بنانے کی پابندی بھی اسی وجہ سے لگائی گئی کیونکہ اُن
علاقوں میں آبادی بڑھ جانے کے باعث وسائل مہیا نہیں تھے۔دو منزلہ بنگلے پر
30منزلہ کمرشل پلازے بنا نے سے کراچی کو اینٹوں کا شہر بنا دیا گیا ۔ کراچی
میں پانی اور بجلی کی کمی کا سب سے بڑا سبب گراؤنڈ 2+ سے زیادہ بنائے جانے
والی غیر قانونی عمارتیں بھی ہیں، جن کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے
دیگر علاقوں کو پانی و دیگر بلدیاتی سہولیات سے محروم کیاگیا ۔
کسی رابن ہڈ کی طرح خود پارسا بنا ثابت کرنے کے لئے لینڈ مافیا گروپ نے
کروڑوں روپے اس بات پر خرچ کردیئے کہ ان سے بڑا انسانی ہمدرد کوئی نہیں ہے۔
لینڈ مافیا کے ملازمین اب ٹسوئے بہا بہا کر دہائیاں دے رہے ہیں۔ بڑے بڑے
ناموں کوجعل سازی سے بنائے گئے پراجیکٹ میں کروڑوں روپے کے پلاٹ دے کر عوام
و سرمایہ کاروں کو گمراہ کیا گیا ۔ تہواروں اور قومی دنوں کے مواقعوں پر
نمائشی ایونٹ منعقد کرکے لاکھوں سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کیا ۔ اسٹیٹس
کو، کو پروان چڑھایا ۔ خود کو قانون سے بالاتر سمجھا گیا ۔اہم سیاسی شخصیات
سے تعلقات کے لئے ’’ پہیے ‘‘ استعمال کئے گئے۔اپنے اثر رسوخ کومخصوص سیاسی
جماعت کی وجہ سے ہر غیر قانونی کام کے لئے استعمال کیا ۔ رشوت کو سب سے بڑی
طاقت و ترغیب قرار دیا ۔ امدادی کاموں کے نام پر قانون کی آنکھوں میں دھول
ڈال کرتشہری مہموں میں غریبوں کا اَن داتا ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ بعض نامور
اینکرز و میڈیاپرسن کوخرید کر من پسند ٹاک شوز کرانے کا اسیکنڈل کسی سے
ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
بس عدلیہ سے گزارش اتنی ہے کہ ایک غریب خاندان، جس کا کُل سرمایہ بس ایک
ٹھیلا اورپتھارا تھا جیسے قانون کی عمل داری کے لئے بلڈوز کردیا گیا ۔ ایسے
قانون کو صرف غریب کے گریبان پکڑنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ بڑی گندی
مچھلیوں کو عبرت کی مثال بنایا جائے ۔ اعلی عدلیہ تمام متاثرین کو ریلیف دے
چاہے وہ پتھارا لگانے والا ہو یا پھر جعل سازی سے زمینیوں پر قبضے کرنے
والے گروپوں سے متاثر ین یا سرمایہ کار۔ مسئلہ صرف اس بات سے حل نہیں ہونا
چاہیے کہ کچھ رقم قبضہ مافیا سے لیکر انہیں لا قانونیت کااجازت نامہ مل
جائے ۔ اس طرح کے عمل سے غیر قانونی جعل سازوں اور قبضہ مافیاز کی حوصلہ
افزائی ہوتی رہے گی ۔ ایسے عناصر آئندہ بھی کوڑیوں کے دام پر زمینیں سرکاری
افسران کی ملی بھگت سے حاصل کرکے عوام سے کھربوں روپے لوٹتے رہیں گے۔اس غیر
قانونی سلسلے کو روکنا ہوگا ۔نیب اور عدلیہ کو غریب اور اشرافیہ کے لئے
یکساں اعلیٰ مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔اعلیٰ عدلیہ سے متاثرین کو انصاف
کی امید ہے۔اعلی عدلیہ اور ادارے سب سے پہلے غریب متاثرین کے نقصانات کا
مدوا کریں تو یہ مثبت عمل ہوگا۔ |