گذشتہ دنوں پاکستان نے ہندوستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے
ہوئے سکھ یاتریوں کیلئے کرتارپور بارڈر کھولا اور سکھ یاتریوں کیلئے
پاکستان آمدو رفت کی بلا ویزہ اجازت دینے کا اعلان کیا۔ جس کا دنیا بھر میں
خیرمقدم کیا گیا ، کیونکہ سکھ یاتریوں کی گروناک کا مزار نہایت قابل احترام
ہے اور اسی احترام کے پیش نظر ان کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے۔جبکہ دوسری
اہم وجہ ایک لکیر کے دونوں اطراف بسنے والے ایک ہی قومیت اور رشتوں کے حامل
ہزاروں نہیں لاکھوں افراد ہیں جن کے آمد ورفت اور غمی خوشی میں شرکت کیلئے
راہداریوں کی آسانی کو دنیا بھر نے سراہا۔ ہندوستان کے برعکس افغانستان کے
ساتھ ہمارا بارڈر صدیوں پرانا اور کئی ہزارکلومیٹر پر مشتمل ہے لیکن ارباب
اقتدار نے کبھی بھی افغانستان کے طرف دوستی کا ہاتھ اس طور پر نہیں بڑھایا
بلکہ محض ضرورت کے تحت پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات روا رکھے جس کے باعث دونوں
ملکوں میں تعلقات کبھی بھی سازگار نہیں رہے اور ہمیشہ سے ایک دوسرے کو شک
کے نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ کرتارپور بارڈر کے کھولنے جانے کا قبائلی
علاقوں میں رہائش پذیر قبائلیوں نے بھی خیرمقدم کیا لیکن اس کے ساتھ ارباب
اقتدار و اختیار سے یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ قبائلی علاقوں جو آپریشن کے
باعث معاشی لحاظ سے تباہ ہوچکے ہیں یہاں کے افغانستان سے لاحق تجارتی
راہداریاں کھولی جائیں تاکہ ان کے محرومیوں کو مداوا ہوں۔ پاک افغان
بارڈرجو1893 میں ڈیورنڈ لائن کے طور پر کھینچا گیا،نقل و حمل کے لحاظ سے
انتہائی موزوں ہے۔ پاک افغان بارڈرکی کل لمبائی پندرہ سو میل ہے۔ اگر ہم
ماضی میں جائیں تو ڈیورنڈ لائن اس کا نام برٹش انڈیا کے سیکرٹری خارجہ
ہینری مورٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا۔ یہ لائن برطانوی حکومت اور افغان
بادشاہ عبدالرحمان خان کے درمیان معاہدے کے بعد کھینچی گئی۔برطانیہ نے روس
کے خطرے کے پیش نظر انڈیا کو تین سرحدوں کے ذریعے روس سے جدا کیا۔پہلی سرحد
فاٹا، دوسری ڈیورنڈ لائن اور تیسری روس اور افغان بارڈر رکھی تاکہ روس کی
برصغیر پیش قدمی روکی جا سکے۔پا ک افغان سرحد پاکستان میں خیبر پختونخوا،
فاٹا اور بلوچستان سے ملتی ہے جبکہ افغانستان کی طرف یہ سرحد شمال میں
نورستان سے شروع ہو کر جنوب میں نمروز تک جاتی ہے۔دونوں ملکوں کے سرحدی
علاقوں کے لئے پاک افغان بارڈر ایک سوفٹ بارڈر سمجھا جاتا ہے۔او رنقل و
حرکت کافی آسان ہے۔ کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف ایک ہی طرح کی روایات، زبان
اور کلچر والے لوگ ہیں۔۔سرحد کے دونوں اطراف خاندان بستے ہیں۔
اس بارڈر پر افغانستان کے ساتھ درجنوں تجارتی راہداریاں ہیں جن میں مشہور
زمانہ طورخم اور چمن بارڈر بھی شامل ہے ، میرا تعلق خیبر پختونخوا میں نئے
ضم ہونے والے قبائلی ضلع باجوڑ سے ہیں ، ضلع باجوڑ میں بھی افغانستان کے
ساتھ پاکستان کی سب سے طویل بارڈر ہے اور بارڈر کے دونوں اطراف ایک ہی قوم
کے لوگ آباد ہیں ، خاص کر ماموند قوم کی ہزاروں لوگ بارڈر کے دونوں اطراف
زندگی گذار رہے ہیں۔ باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ کئی راہداریاں ہیں لیکن
میں ان مشہور غاخی پاس ، نواپاس ، لیٹئی سر اور کئی دیگر مقامات ہیں۔ گذشتہ
آپریشن سے قبل یہ تمام راہداریاں آباد تھیں۔یہ راہداریاں صدیوں سے تجارت کے
لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔اسی لئے تاریخی لحاظ اس کی اہمیت صدیوں پرانی
ہے۔دنیا میں ہمیشہ سے وسائل کی جنگ رہی ہے۔ وسائل کی ترسیل تجارتی راستوں
سے ہوتی ہے اس لئے تجارتی راستے ہمیشہ دفاعی اہمیت کی حامل رہے ہیں۔ اس لئے
ان شاہراؤں کو سیاسی، عسکری اور سٹریٹیجک راہداری بھی کہا جاسکتا ہے۔ پرانے
زمانے میں لغڑئی کے مقام پر خشک سیلابی ریلے والا راستہ اور اس کے ساتھ
ساتھ سفر کیا جاتا تھا بعد ازاں تحصیل ماموند میں سڑکوں کے جال بچنے کے بعد
1980کو افغانستان کے ساتھ بھائی چارے کو مزید مستحکم کرنے کیلئے لغڑئی
بازار سے مغرب کے جانب غاخی پاس تک پختہ سڑک بارڈر تک تعمیر کی گئی ، جس سے
روزمرہ کی آمد ورفت نہایت آسان ہوگئی۔ اور عنایت کلے سے روزانہ کے بنیاد پر
تجارت کے ساتھ ساتھ لوکل ٹرانسپورٹ میں آنے جانے لگے، یہ راستہ نہایت محفوظ
ہوگیا اس لحاظ سے یہ علاقہ موزوں ترین بن گیا تجارت کیلئے ، دوسرا اس روٹ
کو تجارت کے لئے اس لئے بھی استعال کیا جاتا تھا کیونکہ پہاڑوں کی وجہ سے
یہ محفوظ تصور ہوتا تھا اور لوٹ مار کا امکان کم رہتا تھا۔ اس کے باوجود اس
روٹ پر تجارتی کافلوں کو لُو ٹا جاتاتھا۔ جس کی بنیاد پرمقامی سطح پر چھوٹی
چھوٹی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مگر اس روٹ پر لیوی فورس کے پہرے بھی مقرر
کردیئے گئے جس کے بعد یہ راستہ مکمل محفوظ ہوگیا۔اسی طرح باجوڑ کے تمام
دیگر راہداریوں پر آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیاں جاری تھی اور دونوں اطراف
کے لوگ ایک دوسرے کے غمی خوشی میں باآسانی شرکت کرسکتے تھے۔
لیکن پھر وہی ہواجو قبائلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا امریکہ کی جنگ
ہم پر مسلط کی گئی جس کے لیے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی لیکن اس کے
ساتھ ساتھ ہم اپنے تجارتی راہداریوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور یوں ہمارا
معاشی قتل عام بھی شروع ہوگیا ۔ اب جب کہ امن کی فضا ہر سو بحال ہوچکی ہے ،
سکھ یاتریوں کیلئے نرمی پیدا ہوسکتی ہے تو کیوں نہ باجوڑ میں غاخی پاس اور
نواپاس بارڈر بھی کھلے جائیں تاکہ قبائلی عوام ایک بار پھر خونی رشتوں سمیت
تجارتی سرگرمیوں کو دوام دے سکیں۔ |