جب سے نئی حکومت آئی ہے ملک میں اکھاڑ پچھاڑ کا
سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پہلے نمبر پے تو حکومت سے معیشت کا جن ہی قابو میں
نہیں آرہا اور اوپر سے حکومت نے اپنے لئے اور ملک کے غریب لوگوں کے لئے
حالات کو مذید سنگین بنا دیا ہے۔ آج کی سیاست اور ملکی حالات یہ بات ثابت
کر رہے ہیں کہ دراصل غریب ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ اقبالؔ نے یہ آہ ایک
صدی پہلے اسی حقیقت کے پیشِ نظر ہی بھری تھی: تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے
ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
کیا ملک میں سب کا احتساب ہو چکا ہے کہ جو ان بے روزگار ، غربت کے ماروں کے
روزگار کے سہاروں کو گرانے کا وسیع و عریض سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ کیا ملک
کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار کا بندوبست ہو گیا ہے کہ ہم بے روزگاروں
کے فوج ظفر موج میں لاکھوں انسانوں کا اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ ریلوے ، بلدیہ
یا سرکارکی زمینیں، کیا کوئی اٹھا کے ملک سے باہر لے گیا ہے کہ ہم انہیں
واپس لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ باہر جانے والے بے حساب سرمایے سے ایک
پھوٹی کوڑی تو ہم سے واپس منگوائی یا لائی گئی نہیں اور سارا غصہ اور
کارکردگی دکھانے کے لئے ان غریبوں کی دکانوں، گھروں، پناہ گاہوں وغیرہ پر
بلڈوزر پھیر کر اپنی کار کردگی کے جشن منائے جا رہے ہیں۔ آج تو یورپ جیسا
صدیوں پر نظر رکھنے والا دانا پریشان ہے کہ لوگوں کو روزگار کیسے دیا جائے،
اور ایک ہم ہیں کہ ان بیچارے،غریبوں کے سروں کے اوپر سر چھتیں گرارہے ہیں۔
ملک میں واقعی تباہی کا سونامی آیا ہوا ہے لیکن وہ ڈھا صرف غریبوں کے درو
دیوار ہی رہا ہے۔ میری ناقص اور محدود معلومات کے مطابق آج تک کسی بڑے کا
کوئی مکان مسمار نہیں کیا گیا۔ بڑوں کا کوئی علاقہ تجاوزات میں شمار نہیں
ہوتا اور اگر کسی بڑے کا گھر یا علاقہ تجاوزات میں آتا ہے تو اسے ریگولر
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں کسی بڑے کا نقصان نہ ہو جائے۔ اچھی بات ہے
کہ بڑے اس سونامی کی لہروں سے محفوظ ہیں اور غریبوں کے سروں پر بلڈوزر اور
کرینیں چلی جا رہی ہیں۔
یہ کہنا کہ یہ نا جائز قبضے ہیں۔ یہ بات ایک لمحے کے لئے مان بھی لی جائے
تو کیا شہریوں کو گھر بار کی سہولت دینا حکومت کی ذمہ داری نہیں، کیا یہ
غریب ان بے شمار امیروں سے بھی برے ہیں جو اپنا سب کچھ باہر کی دنیا میں لے
جا چکے ہیں اور یہاں وہ صرف سیاست کر رہے ہیں اور کیا ایسے لوگ پاکستان کی
ہر سیاسی پارٹی میں موجود ہی نہیں بلکہ وہ زیادہ سرکردہ بھی ہیں۔ کسی کے
اپنے اور کسی نے اپنی اولاد اور کسی نے بہن بھائیوں کے نام سے یہ سب کچھ
کیا ہوا ہے۔ کسی کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ کرپشن نہیں کرتا لیکن اگر اس کا دوست
کرتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ کسی دانا کا کہنا ہے کہ دنیا میں صرف دو طبقات
ہیں ایک امیروں کا اور دوسرا غریبوں کا، باقی سب تماشا ہے۔ اور یہی بات آج
کے حالات ثابت بھی کر رہے ہیں۔آج کے مشرق و مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ اور
کوئی نہیں صرف اور صرف روزگار ہے۔ آج انسان کو باقی ہر چیز سے زیادہ روزگار
کی تلاش ہے۔ مغربی ممالک جہاں صدیوں کی پلاننگ اور سوچ موجود ہے، ہنگاہوں
کی زد میں آ چکے ہیں، اگرچہ ان کی آبادیاں کم ہو رہی ہیں اور آبادیاں سو
فیصد خواندگی جیسی مثالی ذہنیت اور سوچ سے بھی مزین ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ
خواندگی کے لفظ پے ہمیں شرمندگی محسوس ہو تی ہے اور روزگار کے لفظ پر ہمیں
’باہر‘ یاد آنے لگتا ہے۔ امن و امان کے لحاظ سے دل ’الامان‘ پکار اٹھتا ہے۔
چند روز پہلے ہم ’کرتار پور‘ کی راہداری کھول کر اپنی نام نہاد کامیابی کا
جشن منا رہے تھے کہ بھارتی چیف نے ہماری نظریاتی سرحد پر میزائل فائر کر
دیا اور پاکستان کو سیکولر ملک بننے کا بلا جواز مشورہ دے مارا۔ اور انڈیا
سے ہماری بغلگیر ہونے کی گرم جوشی پر ٹھنڈا پانی پھینک دیا ، خیر ہم نے
بھارتی چیف کے بیان کا زیادہ برا نہیں منایا کیوں کہ یہ وقت ہمارے برا
منانے کا ہے بھی نہیں کہ کہیں کرتار پور راہداری پھر سے بند نہ ہو جائے اور
ہماری کارکردگی پر اعتراض آ جائے۔ ہم ڈالر سے مقابلے کی سکت سے بھی محروم
ہوتے جا رہے ہیں اور ہر بات کا الزام پچھلی حکومت پر ڈال کر نیچے سے سرک
جانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اگر ہر بات کا الزام اور ہر بات کا موازنہ
پچھلی حکومت سے ہی کرنا تھا یا کرنا ہے تو اس حکومت میں اپنی نئی بات کیا
ہے۔ جو ابھی تک سوائے غریبوں کو بے گھر کرنے کے اور کوئی نہیں ہے۔
اصولِ فطرت ہے کہ بنانے کی نسبت توڑنا یا ڈھانا ہمیشہ آسان اور کم وقتی کام
ہوتا ہے۔ ایک عمارت بننے میں مہینے اور سال لگتے ہیں جب کہ گرانے میں چند
گھنٹے ہی لگتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے غریبوں اور ضرورت مندوں کے لئے ایک اینٹ
بھی نہیں لگائی جب کہ توڑ بے شمار دی ہیں۔ ان غریبوں سے تو روہنگیا
مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے جیسے وہ کسی اور ملک سے آ کر یہاں پناہ
گزیں ہو گئے ہوں، اوپر سے سردی کا شدید ترین سیزن آ چکا ہے اور ہم اپنے ہی
ملک کے شہریوں اور مسلمانوں کو کس بے دردی سے بے گھر کئے جا رہے ہیں ۔ کم
از کم موسم کا ہی کچھ لحاظ رکھ لیا جاتا، شدید سردی میں یہ بے چارے کہاں
جائیں گے۔ ہماری تو ہسپتالوں کے برآمدوں،رستوں وغیرہ میں بھی قدم رکھنے کی
جگہ نہیں ہوتی، سڑکیں ایک سیکنڈ کے لئے کاروں کے کارواں روک نہیں سکتیں۔
امیروں کے گھروں میں ایک ایک فرد کے لئے کشادہ کمرے ہیں چاہے وہ کیسے ہی
دھن سے بنے ہوں ، لیکن قانون کے سارے تقاضے فوری طور پر بے سہارا غریبوں پر
ہی پورے کرنے ہیں۔
ہم اس بات کے حق میں نہیں کہ ملک میں ہر غیر قانونی کام رائج کر دیا جائے
یا ہونے دیا جائے۔ ہرگز ہم قانون کی بالا دستی اور اونر کے خلاف نہیں لیکن
بات یہ ہے کہ ان تجاوزات میں کاروبار کرنے والوں یا رہنے والوں سے اس جرم
کی سزا کے طور پر جرمانے وصول کئے جاتے، ان کو ہر مہینے ایک خاص رقم سرکاری
خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا جاتا اور ان کو ایک مدت تک کی وارننگ دی
جاتی، اور ان کے لئے کسی نہ کسی قسم کے متبادلات کا انتظام کیا جاتا ۔ آخر
وہ ملک کے شہر ی ہیں۔ غالبؔ بھی یاد آئے بغیر رہتا نہیں:
حد چاہیئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
روایت مشہور ہے کہ جب سیدنا حضرت عمرِ فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں ایک بار
قحط پڑگیا تو آپؓ نے چوری کی سزا ’ہاتھ کاٹنا‘ معطل کر دی۔ اور فرمایا کہ
جب تک قحط ختم نہیں ہو جاتا چوروں کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔ اگر اتنا بڑا
فیصلہ اور اتنی بڑی ہستی کی روایت موجود ہے تو ملکی قانون یا حکمران ان کے
لحاظ سے تو کچھ درجہ نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے غریبوں پر رحم کی اپیل ، اور
اس مسئلے کو مذید پھیلانے کی بجائے اس پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت محسوس
ہوتی ہے۔ جس تن لگے، سئیو جانے۔ جو نفوس بے گھر ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں ان
کی کیفیت ملک کا کوئی غریب ہی محسوس کر سکتا ہے۔ بڑوں کے محلات، ڈیرے اور
حویلیاں آباد رہیں۔ غریبوں کا اﷲ مالک ہے، ان کے سروں کی نیلی چھت تو کوئی
نہیں چھین سکتا۔ یا پھر بادلوں کا سائبان بھی تو ہے۔ بارش بھی تو مزا دیتی
ہے۔ کاش ہماری عوام کو عوامی حکمران نصیب ہوں جو ان غریبوں کے لئے نہ کہ
اپنی پارٹیوں ، وزارتوں، عہدوں اور کرسیوں کے لئے کام کریں۔ لیکن ان باتوں
کی امید کم ہی نظر آ رہی ہے۔ غالبؔ ہی پھر غلبہ پا رہا ہے:
ترے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
جہاں جہاں سے تجاوزات ہٹائی یا گرائی جا رہی ہیں وہیں پر دوبارہ عارضی
اسٹال اور ریڑھیاں لگ چکی ہیں یا لگ رہی ہیں۔ مطلب پھر وہی کہ آخر یہ غریب
جائیں تو کہاں جائیں:
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں
درد بھرے دل کی زباں
ملک کے غریبوں نے ملک ہی میں رہنا ہے۔ یا تو پھر نئے شہر آباد کئے جائیں
اور وہاں غریبوں کو علیحدہ جگہوں پر اپنا کام کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی
جائے۔ اگر اور کچھ بھی نہیں کرنا تو یہ مزدور اور غریب اپنا روزگار کہاں
تلاش کریں۔ متبادلات تلاش کئے یا دیئے بغیر کوئی مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔
ہر مسئلہ اپنے متبادلات کی بنا پر حل ہوتا ہے۔ ورنہ اس کی شدت میں اضافہ ہی
ہو گا۔ یا کوئی مسئلہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا ہے جیسا کہ اسلام نے ہمیں عملی
مظاہرہ کر کے دکھایا بھی ہے۔ اب یکدم ہزاروں، لاکھوں غریبوں کو گھر کیسے
بھیجا جا سکتا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی مجبوری کے باعث ہی گھر سے کام کی غرض
سے نکلتا ہے۔ اگر وہ دکانیں خریدنے والے ہی ہوں تو ایسے در بدر ہی کیوں
پھریں۔
پہلے ملک کی معیشت مستحکم کی جائے، ڈولر کی من مانی بند کی جائے، روپے کی
بے حرمتی کا سدِ باب کیا جائے، بر آمدات بڑھائی جائیں، غریبوں اور متوسط
طبقے کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں( صرف زبانی نہیں)، ملک میں امن
امان کی حالت بہتر بنائی جائے۔ زراعت کوترقی اور فروغ دیا جائے۔ پڑھے لکھے
نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کی جائیں۔ نوکریوں اور گھروں کے وعدے پورے کئے
جائیں ۔ پھر اگر تجاوزات پر بلڈور اور کرینیں چلا بھی دیں گے تو اتنا برا
نہیں لگے گا۔جتنا کہ اب لگ رہا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اٹل ہے کہ یہ تجاوزات جنات یا کسی غیر مرئی مخلوق کی تیار
کردہ نہیں ہیں۔ انہیں انسانوں نے ہی بنایا ہے۔ اور یہ زمین پر دن دیہاڑے
ساری دنیا کے سامنے بنتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا
تو اس وقت ملکی حکومتی مشینری کہاں تشریف فرما تھی؟ اس وقت کے متعلقہ محکمہ
جات کے افسروں سے کیوں پوچھ گچھ نہیں کی جا رہی، ان کو بھاری جرمانے کیوں
نہیں کئے جا رہے، ان کو اپنے فرائض سے کوتاہی برتنے کی سزا کیوں نہیں دی جا
رہی؟ کئی متاثرین ایسے ہیں جن کے پاس سرکاری رجسٹریاں بھی موجود ہیں۔ ان
رجسٹریوں میں جو اشٹام پیپرلگے ہیں ان کی قیمت کس کے کھاتے میں جمع ہوئی
ہے۔ ان رجسٹریوں پر جن افسران کے دستخط ہیں ان کو کیوں اس کام سے بری الذمہ
قرار دیا جا چکا ہے۔ اور سارا ملبہ بے سہارا غریبوں پر ہی کیوں گرایا جا
رہا ہے۔ اس غیر قانونی کام میں صرف غریب ہی کیوں قصور وار ہے جب کہ پوری
حکومتی مشینری بھی تو برابر کی مجرم ہے۔لیکن پھر وہی بات کہ’ نزلہ بَر عضوِ
ضعیف ‘۔
کسی شخص کو بے روزگار نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ ہر شخص اپنے بیوی بچوں، بہن
بھائیوں اور بوڑھے والدین کے لئے کام کر رہا ہوتا ہے۔ ان کمزوروں کو مذید
کمزور نہ کیا جائے۔ بلکہ ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔
تاکہ حکومت اپنے فرائض منصبی پورے کر سکے۔حضرت عمر بن عبدلعزیزؓ کو تو
دریائے دجلہ کے کنارے بکری کے بچے کی بھی فکر تھی اور ادھر ہمارے حکمران
چلتے چلاتے کام بند کروائے جا رہے ہیں ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو بہتری کی
توفیق سے نوازے ! آمین ثم آمین! |