سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
آئین ہند میں ہندوستان کو ’’ریاستوں کی یونین‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے
جس کا مطلب وفاقی طرز حکومت ہے اس نظام حکومت میں ایک تحریری آئین کا ہونا
لازمی ہے جس کے ذریعہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختیارات
کی تقسیم عمل میں آئی ہے۔ عدلیہ کو آزاد کیا گیا ہے (لیکن افسوس اب اس میں
گھس پیٹھ کی جارہی ہے) عدلیہ کو آزاد رہنے کا مقصد انفرادی اور جمہوری
اصولوں کا تحفظ ہے جو معاشرے کو تمام لوگوں کے ساتھ برابری کا درجہ دے ۔بھارت
کی عدالت عظمیٰ(Superme Court)اور ریاستی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ
ایسے کسی قانون سازی یا عملہ کی کاروائی کو غیر آئینی قراردے سکیں ۔ریاستوں
کے غلط فیصلوں کو دفعہ 12اور 13کے تحت غلط قرار دے سکے اس میں بہت سے نکات
ہیں،آزاد ہندوستان کا یہ آئین دنیا کے تمام دستوروں میں سب سے زیادہ ضخیم
ہے اس میں دنیا کے بہت سے دستوروں کے بہترین نکات (Points)شامل ہیں ۔ آئین
ہند میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستوں کے بنیادی فرائض ،صدر جمہوریہ کے
ہنگامی اختیارات،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ پبلک سروس کمیشن ،فنانس
کمیٹی، الیکشن کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات بھی وضاحت کردی گئی ہے۔جب
قانون نافذ کیاگیا تھا تب اس میں 355دفعات اور 8شیڈول تھے لیکن اس میں وقتاً
فوقتاً ترمیمات ہوتے رہتے ہیں اور اب تو من مانی بلکہ ضد و ہٹ دھرمی سے
اکثریتی فرقہ کو خوش کرنے اور اقلیتوں کی تذلیل کرنے کے قوانین پاس کیے
جارہے ہیں جو بہت ہی تشویش ناک اور افسوس ناک ہے ۔آئین ہند کے بنانے میں
جہاں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور بہت سے ذی علم لوگ شامل تھے وہیں اس ملک
کی آزادی کے لیے بہت زیادہ قربانی دینے والے مسلمان ،خاص کر علماء نے اپنی
جانوں کی قربانیاں دی ہیں وہ بھی آئین ہند کے بنانے میں برابر کے شریک تھے
جنہوں نے 2سال 11مہینے اور18دن کی کڑی محنت کے بعد آئین ہند کو مرتب کیا جن
میں چند نمایاں نام یہ ہیں ۔
مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبد الغفار خان (بمشہور سرحدی
گاندھی) محمد سعد اﷲ ،عبدالرحیم چودہری، بیگم اعجاز رسول اور حضرت مولانا
حسرت موہانی ۔سبھی اراکین نے اس میں دستخط کیے ۔اسمبلی کا اجلاس 24دسمبر
1949ء کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان
کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیا گیا اور آئین ہند کو 26جنوری 1950ء کو
نافذ کردیا گیا۔26جنوری 1950ء کو اسی عہد کی تجدید کرتے ہوئے ہندوستان کو
ایک ’’مقتدراعلیٰ جمہوری جمہوریہ‘‘میں منتقل کردیا گیا۔’’26جنوری ‘‘ کو یوم
جمہوریہ کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے ،اسی دن کا یہ بھی پس منظر ہے کہ
1930ء میں لاہور کے مقام پر دریائے راوی کے کنارے انڈین نیشنل کانگریس نے
اپنے اجلاس میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو نے کی تھی ، ڈومنین اسٹیٹس کے
بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دے کر 26جنوری کو مکمل
آزادی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا واضح رہے کہ مکمل آزادی کا نعرہ
حضرت مولانا حسرت موہانی کا تھا جو کہ کئی لندن کانفرنس و کئی کانفرنسوں
میں آپ نے اعلان کیا تھا ۔اس کی تفصیل کے لیے تاریخ کا مطالعہ فرمائیں ۔افسوس
آزادی 70سالوں کے بعد بھی ہمارے ملک کا کیا حال ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
ہے ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے ،کمزوروں کا استحصال،مہنگائی سے ہرانسان
کراہ رہا ہے، ہجومی قتل(Mob Lynching)میں بے قصور لوگوں کو بے دردی سے موت
کے گھاٹ اتاردیا جارہا ہے لوگ انصاف کے لیے دوڑ دوڑ کر پریشان ہیں، کراہ
رہے ہیں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز و تعصب کی پالیسی اپنائی جارہی ہے اور ملک
کو ہندو -مسلم کے خانوں میں بانٹا جارہا ہے اور پچھڑی ذاتوں کے حقوق کو بھی
ختم کیا جارہا ہے یہ کیسا سیکولرازم ہے ،اقتدار میں رہنے والے نیتا حضرات
کانٹوں کو پھول اور مصیبتوں کوآرام قرار دے رہے ہیں۔لوگ در در کی ٹھوکریں
کھارہے ہیں، بھلا ہی حکمراں ذرائع ابلاغ (Media)کے ذریعے رات دن خیالی
جنتوں اور افسانوی خوشحالی کا ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں ۔
ہندوستانی سیکولر ازم:ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف قوم کے لوگ بستے
ہیں جس میں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے والے لوگ صدیوں سے حب الوطنی کے
جذبے کے ساتھ رہتے ،بستے چلے آرہے ہیں ۔اس ملک کا اتحاد،سا لمیت ، یگانیت
صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاں حقیقی معنوں میں وفاقی نظام
قائم ہو تمام مذاہب اور عقائد وافکار کو تحفظ حاصل ہو ،ہرنسل اور زبانوں
وثقافت کو پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں تو پھر ملک کی جمہوریت اور
آزادی کے کیا کہنے !بلے بلے! لیکن افسوس کہ آج اقلیتوں خاص کر مسلمانوں و
دیگر اقلیتوں کے مذہبی ،انسانی حقوق پامال کرکے عملاً اکثریتی فرقے کے
لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نظام حکومت چلایا جارہا ہے۔مالیات اور ذرائع
ابلاغ پر پورا کا پورا قبضہ کرلیا گیا ہے ،مذہبی اقلیتیں عد م تحفظ کے
احساس پریشان و خوف زدہ ہیں ایسے حالات میں سیکولرازم کیسے مضبوط ہوگا ۔صحیح
معنوں میں سیکولرازم (Secularism)کا جنازہ ہی نکال دیا گیا ہے۔کرسی کے لیے
بے ضمیر نیتاؤں نے اپنے فائدے کے لیے پورے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم
کردیا ہے ،مذہبوں کے درمیان نفرت کا بازار گرم کردیا گیا ہے ۔تو کیا آج
کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج فیڈرل(Federal)(سازگار)نظام قائم ہے ۔ہندوستان نے
برطانیہ سے 15اگست 1947 ء کو آزادی حاصل کی تھی ،لیکن ہندوستان کا آئین جو
سیکولربنیادوں پر بنایا گیا تھا اور اس کو 26جنوری1950ء کے دن قائم کیا گیا
تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام حکمراں جو کسی بھی پارٹی کے ہوں ان کو آئین
ہند کی پاسداری کرنی چاہیے۔کیوں کہ وہ اس کا حلف(قسم )لیتے ہیں اس کی لاج
رکھیں۔سیکولرازم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ضمیر کی ،فکر کی،مذہبی اور اظہار
رائے کی پوری آزادی ہوجوانسان کا پیدائشی حق ہے لہٰذا ہر شخص کو پوری آزادی
ہونی چاہیے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل خواہ
ان کا تعلق سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب سے تبھی صحیح آزادی کہلائے
گی۔ طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا دھمکی یا دھونس سے کسی کو اپنا
ہم خیال بنانا حقوق انسانی کے خلاف ہے ۔
یہ ملک تمہارا نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے :
ایک تم ہی نہیں تنہا حقداراس گلشن کے
حق جتنا تمہاراہے اتنا ہی ہمارا ہے
یہ ملک تمہارا نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے
اس ملک کی آزادی کے لیے جان ہم نے بھی گنوائی ہے
یہ بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت کم جانتی ہے کہ
جنگ آزادی میں مسلمانوں اور علماء کا کوئی کردار رہا ہے ؟جنگ آزادی کا بگل
علمائے کرام نے بجایا اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی ضرورت ہے کہ
نوجوانوں کو ہندوستان کی آزادی کے موضوعات پر کتابیں بانٹی جائے اور
پڑھوائی جائے’’ فضل حق سن 1957‘‘ ’’مسلمان مجاہدین‘‘ اور انگریز مصنف مسٹر
ایڈورڈ ٹاسن کی کتاب ’’تصویر کا دوسرا رخ‘‘ مسلمان مجاہدین علمائے اہل سنت
کی بصیرت و قیادت وغیرہ وغیرہ کتابیں پڑھنے تعلق رکھتی ہیں ۔
ہم سب کو چاہیے کہ موجودہ حالات سے گھبرائیں نہیں حالات پر کڑی نظر رکھیں
اور حکمت و ایمانی بصارت کے ساتھ اتحاد و اتفاق سے مردانہ وار مقابلہ کریں
۔تعلیم پر پوری توجہ مرکوز کریں مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف تعلیم
میں ہے۔آرٹیکل 301میں کہا گیا ہے کہ ہر اقلیت چاہے وہ مذہبی یا لسانی ہو
اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے اور
چلائے تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم قوم کے لیے نسخہ کیمیاء ہے اور اس کی
ذمہ داریاں قائدین اور اہل علم پر ہے ملک کو سخت گیر عناصر سے بچانے کے لیے
سیکولر (Secular)طاقتوں کی مدد کرنا ضروری ہے الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ان
گنت پارٹیاں سامنے آجاتی ہیں اور سب کی سب غریبوں و مسلمانوں کی فلاح کا دم
بھرتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ایسی پارٹیوں اور ضمیر فروش نیتاؤں
کو ووٹ(Vote) بانٹنے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ جو سخت گیر نظریہ والے
ہیں ان کا مقصد پورا ہوجائے ۔
جمہوریت میں ووٹوں کی اہمیت: ووٹرایک اہم مقام رکھتا ہے اور ہر ووٹ کی
اہمیت مسلمہ ہے ۔1951میں نافذ ہونے والے قانون کے مطابق حق رائے دہی سے
فائدہ حاصل کرنے کی عمر 21سال تھی جو بعد میں 1988ء میں 18سال مقرر کردی
گئی۔ہروہ فرد جس کی عمر 18سال ہوجائے اس کو چاہیے کہ وہ بحیثت ووٹر(رائے
دہندہ)اپنے نام کا اندراج کرائے اور انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا
استعمال ضرور ضرور کرے ہر ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے،1996میں صرف 17ووٹوں کی
اکثریت سے گجرات میں وڈدراسے لوک سبھا کے لیے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی
اور اسی طرح 1989میں صرف9ووٹوں سے کنڈیڈیٹ کو آندھراپردیش میں انکا پلی سے
لوک سبھا کے لیے منتخب کیا گیا،دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش
کھنہ سے مشہور بی ․جے․پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے 52ووٹوں سے جیت حاصل کی
تھی ابھی مہاراشٹر کے الیکشن میں 9مسلم امیدوار صرف ایک ہزار یا اس سے کم
فاصلے سے ہار گئے اور بی․جے․پی کے 14کنڈیڈیٹس نے صرف 4%(۴؍ فی صد)زیادہ ووٹ
ملنے پر جیت حاصل کی ۔ ووٹ کرنا جمہوری حق ہی نہیں دینی فریضہ بھی ہے
۔جمہوری حکومت میں ووٹ نہ صرف ہمارا قانونی حق ہے بلکہ شریعت اسلامیہ کی
طرف سے ہم عائد ایک شرعی اور ملی فریضہ بھی ہے زیادہ جانکاری کے لیے ہمارا
مضمون ’’ووٹ ڈالنا ایک سنجیدہ فریضہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔تمام لوگوں کو
اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا پیارا ملک ہندوستان
سیکولرازم پر قائم رہے جو سب کے لیے فائدے مند ہے۔ اﷲ ہم سب کو اپنی ذمہ
داری نبھانے اور سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ |