موجودہ حکومت کے آتے ہی نیب این ایکشن ہے مگرنیب کاسارے
اقدامات ایک پارٹی کے خلاف ہورہے ہیں جس کی وجہ سے نیب کے کردار پراعتراض
کیاجارہاہے ،نیب کا اس طرح سرگرم عمل ہونا مشرف دور کی یاد دلاتا ہے ،پرویزمشرف
نے سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی آڑمیں نیب کے ذریعے مخالفین کونشانہ
بنایاآج نئے پاکستان کے نام پروہی کھیل کھیلاجارہاہے ،نیب پاکستان تحریک
انصاف کے سیاسی عزائم کی تکمیل کاباعث بن رہاہے حالانکہ محتسب اورجج
کاغیرجانب دارہوناہی انصاف کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے مگریہاں الٹی
گنگابہتی ہے ہمارے احتساب کے ادارے حکمرانوں کی لونڈی بن جاتے ہیں جس کی
وجہ سے ملک سے نہ کرپشن ختم ہورہی ہے اورنہ ہی ان اداروں کی ساکھ بحال
ہورہی ہے ۔
پرویزمشرف نے اپنے عزائم کی تکمیل اورسیاستدانوں کورام کرنے کے لیے ایک
آرڈیننس(این اے او ) کے ذریعے 16نومبر 1999 کوقومی احتساب کمیشن ( نیب )کا
ادارہ وجود میں لایایہ اسی نیب کاکمال تھا کہ اس نے پیپلزپارٹی سے ،،پٹریاٹ،،ن
لیگ سے ،،ق لیگ،،وجودمیں لائی موجودہ کابینہ میں شامل کئی چہرے بھی اس وقت
،،بامشرف،،ہوئے جن میں پنڈی کے شیخ ،گجرات کے چودھر ی،جنوبی پنجاب کے ترین
اور بختیار،کے پی کے ایوبی خاندان اورسندھ سے ایم کیوایم اس وقت بھی
اقتدارکاحصہ تھی اورآج بھی حکومت میں شامل ہیں ایجنڈہ بھی وہی ہے اورطریقہ
بھی وہی پراناہے ۔نشانے پربھی وہی لوگ ہیں جوپہلے تھے اورملزم بھی وہی ہیں
جومشرف کا،،رگڑہ،،کھاچکے ہیں مگراقتدارکی منڈیرپربیٹھے یہ کٹھ پتلی حکمران
مشرف سے آج بھی عبرت نہیں پکڑررہے ؟
ہرریاست وملک کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کے ادارے بناتاہے مگراحتساب
کوسیاسی انتقام کاذریعہ بناناصرف ملک پاکستان میں ہی رواج ہے ۔قیام پاکستا
ن کے دوسرے سال 1949 میں پروڈا پبلک ریپریزینٹیٹو آفس ڈسکوالیفیکیشن ایکٹ
جیسی قانون سازی کے ذریعے بدعنوانی کا بندوبست کرنے کی کوشش کی گئی۔آگے چل
کر 1959 میں پوڈا پھر ایبڈو الیکشن باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر اور 1997 میں
احتساب ایکٹ جیسے قوانین سے منزل مقصود تک پہنچنے کی کاوشیں کی گئی۔اس سفر
کے دوران ضیا الحقی شوقِ احتساب نے بھی آئین میں آرٹیکل 62،63 کا اضافہ کر
کے ریاست کو صادق اور امینوں کے سپرد کرنا چاہا۔قومی احتساب آرڈر 1999 سے
پہلے کی تمام کوششیں ریاست میں شفاف احتساب کے عمل کو کبھی یقینی نہ بنا
سکیں۔پھراسی نیب کے ذریعے پرویزمشرف نے اپنی حکومت قائم کی ،بدقسمتی سے
(2008 تا 2018) میں شفاف اور بلا تفریق احتساب کے لیے کوئی جامع قانون سازی
نہ ہو سکی پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن نے اس معاملے میں غیرسنجیدگی کامظاہرہ
کیاجس کاخمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں۔
نیب نے 5 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی
بدعنوانی کے الزامات میں گرفتاری کی مگراحتساب عدالت میں وہ شہبازشریف
پرایک بھی الزام ثابت نہ کرسکی ،اب نیب نے مسلم لیگ ن کے دوفعال اورمتحرک
رہنماء خواجہ برادران کوگرفتارکیاہے اس مقدمے میں نیب کے پاس قیصرامین بٹ
وعدہ معاف گواہ ہے جوکسی بھی وقت منحرف ہوسکتاہے ،نیب کی طرف سے مسلم لیگ
کے خلاف کاروائیوں سے صاف واضح ہورہاہے کہ ان کاروائیوں کے ذریعے مسلم لیگ
ن کوتوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اورحالیہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی
کامیابی نے حکمرانوں کوخوف زدہ کردیاہے دوسری طرف حالت یہ ہے کہ نیب چوہدری
برادران ،علیم خان ،زلفی بخاری ،پرویزخٹک ،کے پی کے وزیراعلی محمود خان
کوبڑے احترام سے بلاکرواپس بھیج دیتاہے اوران کی گرفتاری بھی نہیں
ڈالتااوروزیراعظم کی بہن علیمہ خان کونوٹس تک جاری نہیں کرتا-
نیب کادعوی ہے کہ نیب اپنے قیام سے اب تک تقریبا 297 ارب روپے برآمد کر کے
قومی خزانے میں جمع کروا چکا ہے۔ستمبر 2018 میں نیب کی جانب سے پچھلے گیارہ
ماہ کی کارکردگی رپورٹ جاری کی گئی جس میں نیب نے دو ارب 41 کروڑ سے زائد
رقم خزانہ میں جمع کروائی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصلاحات اور خزانے میں
جمع کروائی گئی رقوم نیب کے ادارہ کی ساخت بحال کرنے کے لیے کافی ہیں؟اس کو
جواب نفی میں ہے۔شفاف اور بلا تفریق احتساب کے لیے جہاں نیب میں بڑی
ساختیاتی تبدیلیاں درکار ہیں وہی نیب کے علاوہ دیگر احتساب کے اداروں میں
فعال تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
حکومت نیب قوانین میں ترمیم کے حق میں نہیں ہے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس
میں متحدہ مجلس عمل کی خاتون رکن عالیہ کامران نے قومی ادارہ احتساب
(ترمیمی)بل 2018 پیش کرناچاہامگرحکومت کی استدعاپریہ بل انہوں نے واپس لے
لیانیب کے حوالے سے صرف سیاستدان ہی مضطرب نہیں ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے
معززجج صاحبان وقتافوقتااپنے ریمارکس میں نیب مقدمات ،انکوائریوں
اوراختیارات پرسوالات اٹھاچکے ہیں گزشتہ روزسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی جی نیب نصیر اعوان کی سخت سرزنش کرتے ہوئے
ریمارکس دیئے کہ شرم نہیں آتی لوگوں کو تنگ کرتے ہو؟ تم لوگ اپنی حدود سے
باہر نکل رہے ہو آج ڈانٹ سن کر نظریں جھک گئیں مگر شرم نہیں آتی۔ڈی جی نیب
نے عدالت کو بیان دیا کہ ایک کیس کے ملزم نے بیان دیا تھا کہ وکیل سلمان
حامد نے اجازت کے بغیر کیس دائر کیا، جس پر نیب نے تفتیش کے لئے وکیل سلمان
حامد کو نوٹس جاری کیا۔چیف جسٹس نے ایک بار پھر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا
کہ کوئی پیشہ وارانہ کام کرے تو اسے نوٹس جاری کرتے ہو؟ لوگوں کے ذاتی
جھگڑے میں تمہارا کیا کام ؟ لوگوں کو بلا کر ذلیل کرتے ہو کیا اﷲ نے تمہیں
اس کام کے لئے مقرر کیا ہے؟ لوگوں کو بلا کر پگڑیاں اچھالتے ہو کیا تفتیش
کا یہی طریقہ ہے؟ افراد کو بلا کر تھانہ دکھاتے ہو اور6 ماہ تک سپریم کورٹ
کو بھی پتا نہیں چلتا بندہ کہاں گیا۔
نیب قوانین میں ترمیم وقت کی ضرورت ہے ان شقوں کو ختم کرنا چاہیے جو نیب کے
افسران کو فرعون بنا دیتی ہیں، جو شقیں کسی بے قصور اور معصوم فرد کی بے جا
گرفتاری پر نیب اور اس کے افسران سے کوئی جواب طلبی نہیں کرتیں۔نیب افسران
کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں لیکن ان کاکوئی احتساب کرنے والانہیں ،نیب
کواپنے کردارسے احتساب اورسیاسی انتقام میں فرق کرناہوگا،شفاف اور بلا
تفریق احتساب کے لیے ادارہ جاتی احتساب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے اور
محکمہ میں احتساب کے نظام کو موثر بنانا ہو گا۔ججز کے احتساب کے لیے سپریم
جوڈیشل کونسل جیسے ادارے اور آرمی کے احتساب کے لیے ادارہ جاتی بندوبست کی
وجہ سے ہی کورٹ مارشل جیسے طریق عمل ممکن ہوئے۔آج کے دور میں ادارہ جاتی
احتساب کو سائنسی بنیادوں پر تمام اداروں اور شعبوں میں نئے سرے سے متعارف
کرانا ہو گا تاکہ شفاف احتساب کی منزل کی طرف سفر آسان ہو سکے۔اس کے ساتھ
ساتھ پہلے سے موجود احتساب کے آئینی اداروں کو بھی مضبوط اور فعال بنانا ہو
گا جیسے ایڈیٹر جنرل آف پاکستان یا محتسب جیسے ادارے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
بھی اس زمرے میں ایک اہم ادارہ ہے جس کے چیئرمین کا فیصلہ ابھی تک موجودہ
حکومت نہیں کر سکی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت اگر واقعی شفاف اور بلا تفریق
احتساب کی جانب بڑھنا چاہتی ہے تو اسے نیب قوانین میں ترمیم کرنے کے ساتھ
ساتھ ایک متنوع اور کثیر الجہت پالیسی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا جس کو عوامی
تائید حاصل ہو۔ ورنہ موجودہ نیب قوانین کے بل بوتے پر پورے نظام کا احتساب
فقط دیوانے کا خواب ہے جو احتساب سے زیادہ انتقام کی صورت اختیار کر چکاہے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|