بس ذرا صبر، کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں

 قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ انسانی جسم میں شہ رگ کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، دل کا آپریشن ہوتا ہے تو ڈاکٹرز سینہ چاک کر کے دل باہر نکال لیتے ہیں، انسان کو کتنی ہی دیر مشینوں کے سہارے زندہ رکھا جاتا ہے اور دل کو ٹھیک کر کے دوبارہ لگا دیا جاتا ہے لیکن انسان زندہ رہتا ہے۔ کبھی کبھار کسی انسان کا گردہ ناکارہ ہوجائے تو وہ ایک گردے پر ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ دماغ انسانی جسم کا سب سے حساس عضو سمجھا جاتا ہے، دماغی طور پر کمزور حتیٰ کہ بالکل ”فارغ“ انسان بھی زندہ رہتے ہیں حالانکہ ان کا دماغ عام انسان کی طرح کام نہیں کررہا ہوتا لیکن اس بات سے ان کی موت واقع نہیں ہوتی۔ کسی کا ہاتھ کٹ جائے، بازو کٹ جائے، پاﺅں یا ٹانگ کٹ جائے تو اس کا گزارا ہوجاتا ہے، بلکہ اب تو انسانی جسم کے تقریباً سارے اعضاء کے ”سپیئر پارٹس“ دستیاب ہوچکے ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی کی شہ رگ کاٹ لی جائے اور وہ پھر بھی زندہ رہے، سانس لیتا رہے اور روز مرہ کے کام کاج کرتا رہے۔ ایسے ہی پاکستان کے لئے کشمیر کی حیثیت ہے، حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو کشمیر کے بغیر واقعی پاکستان نامکمل ہے بلکہ اب تو حالات یہ ہیں کہ پاکستان کا سانس پھول چکا ہے، اسے آکسیجن ہی نہیں مل رہی کیونکہ اس کی گردن، اس کی شہ رگ عرصہ دراز سے ہنود و یہود نے جکڑ رکھی ہے، گلا مسلسل دبایا جا رہا ہے اور جب کسی کے گلے کو مسلسل دبایا جاتا رہے تو اس کا دم تو گھٹے گا ہی....! ایک انسان کی زندگی بھی تھوڑی ہوتی ہے اور اسی تناسب سے اس کی سانس رکنے اور گلا دبنے کے باوجود زندہ رہنے کی استعداد کم ہوتی ہے جبکہ قوموں اور ملکوں کی زندگی چونکہ سالوں نہیں بلکہ صدیوں میں ماپی جاتی ہے اس لئے اگر کسی ملک یا قوم کی شہ رگ کو مسلسل دبایا جائے تو اسی تناسب سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتی ہے لیکن مستقلاً نہیں، ایک نہ ایک دن ایسا آتا ہے جب یا تو شہ رگ کو چھڑوا لیا جاتا ہے یا موت واقع ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی شہ رگ مسلسل تریسٹھ برس سے دشمن کے قبضہ میں ہے جو اسے مسلسل دبائے جارہا ہے۔ کشمیر کے لوگ تو بے حال ہیں ہی، ان پر تو روز قیامتیں توڑی جاتی ہیں، کشمیر کا کونسا گھر ایسا ہے جس سے نوجوانوں کے جنازے نہ اٹھے ہوں، کونسا باپ ایسا ہے جس کے بچوں کو دن دیہاڑے بھارتی غنڈہ فوج اٹھا کے نہ لے گئی ہو اور اس میں مرد اور عورت کی تخصیص روا رکھی گئی ہو، کون سی ماں ایسی ہے جو روز اپنے پیاروں کے غیاب اور ان کی دن کی روشنی میں قتل کی وجہ سے دن رات آنسو نہ بہاتی ہو، کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے مظالم اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارت کی جانب سے ہمارے حصے کے دریاﺅں پر بہت بڑے بڑے ڈیم بنا لئے گئے ہیں ، ہمارے دریا سوکھ چکے ہیں، ہمارے کھیت اور کھلیان اجڑ رہے ہیں اور لعنت ہے ہمارے حکمرانوں، ان سیاسی جماعتوں اور آبی ماہرین پر جو اس موت و حیات کے مسئلہ کو سیاست کی بھینٹ چڑھاتے چلے آرہے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانیوں کا اس ملک کے قیام کے روز اول سے یہ نعرہ رہا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان لیکن کب؟ کیسے؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج پورا پاکستان اور کشمیر پوچھ رہا ہے۔ ہم ہر سال پانچ فروری کو یوم کشمیر کا نام دے کر، اس دن چھٹی کر کے، مظاہرے کر کے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کشمیر پاکستان بن جائے گا جبکہ یہ ہماری ایک بہت بڑی بھول ہے۔ بھارت بھی شروع دن سے ناجائز طور پر ہی سہی، کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور اس نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں کہ نہ تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتا ہے، نہ اس کے نزدیک کسی قسم کی اخلاقیات کا وجود ہے اور نہ ہی وہ وعدوں کے مطابق استصواب رائے کی طرف آتا ہے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کشمیر کو پس پشت ڈال کر کبھی حکومتی سطح پر، کبھی بیک ڈور ڈپلومیسی سے اور کبھی میڈیا کو ڈھال بنا کر ”امن کی آشا“ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کیا ہماری ایسی حرکات سے کشمیر پاکستان بن سکتا ہے؟ جواب نفی کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا۔ تو آخر کب تک کشمیری بہنیں پاکستان سے کسی محمد بن قاسم کا انتظار کرتے کرتے اپنی عزتوں اور جانوں کی قربانی دیتی رہیں گی؟ کب تک کشمیر کے باغیرت اور باہمت جوان تن تنہا اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کو بھارتی جمہوریت کا مسخ چہرہ دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے؟ کیا ہماری افواج کو بار بار اپنا ہی ملک اور اپنے ہی عوام کو فتح کرنے کا کام سونپا گیا ہے یا اس کی تربیت ہمارے ازلی دشمن بھارت کے لئے بھی کی جائے گی؟

بھارت کسی کی سنتا نہیں، پاکستان کسی سے کہتا نہیں، صرف پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی بنانے سے اور کسی بھاری بھرکم شخصیت کو اس کا چیئرمین بنا کر اسے عوام کے خرچے پر پوری دنیا کی سیر کروا کر اور گاڑیوں کے لئے مفت ڈیزل فراہم کرنے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پوری دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا ”چمپئن“ امریکہ جسے پاکستانیوں کے قاتل اپنے ایک جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی جان بچانے کے لئے سفارتی استثنیٰ اور ویانا کنونشن بہت یاد ہے لیکن بھارت کا ظلم و زیادتی اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں بالکل یاد نہیں، کتنی بھانک تصویر ہے امریکہ کی حقیقت کے آئینے میں اور کتنا خون آشام چہرہ ہے، بھارت کا اصلی چہرہ۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ یہ مسئلہ اگر مذاکرات سے حل نہیں ہوتا، زبانی جمع خرچ سے بات مکمل نہیں ہوتی تو وہی کرنا پڑے گا جو اس مسئلے کو حل کردے، اگر لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اگر بنئے کو پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی، اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا تو اپنی لاتیں اور گھونسے بھی تیار کرنے پڑیں گے اور گھی نکالنے کے لئے انگلیاں بھی ٹیڑھی کرنا پڑیں گی۔ ہم اگر کشمیریوں کو بھول بھی چکے ہیں تو اب مسئلہ ہماری اپنی زندگیوں کا لاحق ہے، اگر ہمارے کھیتوں کو پانی کا ایک قطرہ نہیں مل رہا تو کیا ہم بھوکے اور پیاسے مر جائیں؟ کمزور سے کمزور انسان بھی جب بھوک اور پیاس کی حالت میں کہیں قید ہو، اس کا نرخرا کسی نے دبا رکھا ہو تو ایک بار وہ ضرور کوشش کرتا ہے کہ اپنی گردن چھڑوا کر بھاگ جائے۔ آخر کب تک ہم بھارت کی ہٹ دھرمی، دھونس اور دھاندلی برداشت کرتے رہیں گے؟ اتنی بڑی فوج اور ایٹم بم کیا ہم نے کسی عجائب گھر کی زینت بنانے کے لئے رکھے ہوئے ہیں؟ کہاں ہیں وہ مجاہدین جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھا رکھی تھیں، کہاں ہیں وہ سورما جن سے بھارتی افواج تھر تھر کانپا کرتی تھیں؟

کشمیریوں نے تو اپنا حق ادا کر دیا اور وہ ساری دنیا کی مخالفت، حتیٰ کہ پاکستانی حکومتوں کے پیٹھ دکھانے کے باوجود آزادی کی شمع کو بجھنے نہیں دے رہے، وہ تو اپنی شہادتوں سے، اپنے خون دل سے اس شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں، اب ہمیں بھی بطور قوم خاموشی کا یہ خول توڑ دینا چاہئے، ہمیں اپنے بھائیوں سے صرف اظہار ہمدردی ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہر طرح کے جہاد کے لئے تیار ہوجانا چاہئے، اگر سوڈان میں عیسائی مملکت بن سکتی ہے، اگر اسرائیل امریکہ کی وجہ سے عربوں کے سینے پر مونگ دل سکتا ہے، اگر روس ٹوٹ سکتا ہے تو کشمیر کیوں آزاد نہیں ہوسکتا، کشمیر جو پاکستان کی حقیقی معنوں میں شہ رگ ہے کیوں پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتا۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیری شہداء کی قربانیاں رنگ لائیں گی، وہ وقت بہت قریب ہے جب اللہ کے غلام اٹھیں گے، اغیار کی ساری غلامیوں سے اپنے آپ کو نکال کر، بے خوف ہوکر اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر، انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب فتح کشمیریوں کے قدم چومے گی، کشمیر آزاد ہوگا، پاکستان کا حصہ ہوگا وہاں سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب سے لہرا رہا ہوگا۔ آج جب پوری امت مسلمہ طرح طرح کے مصائب اور پریشانیوں میں گھر چکی ہے، امریکہ اور اس کے حواری ہم پر صلیبی جنگیں مسلط کر رہے ہیں، ایسے وقت میں ہمیں اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ہم میں اتحاد ہوگا، یگانگت ہوگی، ایک دوسرے کا احساس ہوگا، للہی محبت ہوگی تو دشمن کے ساتھ جنگ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جب مسلمان مرنے کے لئے تیار ہوجائے تو ایک شخص ہزاروں پر بھاری ہوتا ہے، اگر صرف پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگ ہی اپنی زندگیوں کو اللہ کی امانت سمجھ کر اسے لوٹانے کے لئے، اس کے دین کی سربلندی کے لئے، اس کے نبی ﷺ کی حرمت و ناموس کے لئے ، کشمیر پر بھارت کے قبضے کو ختم کرنے کے لئے اور پاکستان کو بچانے کے لئے موت قبول کرنے کو تیار ہوجائیں تو یقین رکھیں موت بھی ان سے ڈر جائے گی، امریکہ، بھارت و اسرائیل سمیت کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے، لڑنا تو دور کی بات ہے! بس بات اتنی سی ہے کہ ہمارے حکمران اگر امریکہ کی غلامی کو چھوڑ دیں تو سب کچھ ہوسکتا ہے، ہم پاکستانی، کشمیریوں کو سلام پیش کرتے ہیں، ان کی جدوجہد کے لئے، ان کی قربانیوں کے لئے، پورے پاکستان کے بالخصوص اور امت مسلمہ کے عوام کے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، تم ہمت نہ ہارنا....بس ذرا صبر، کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207321 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.