علمائے اہلسنت کی تصانیف سے
ماخوذ یہ تیسرا کالم قدرے مفصل نذر قارئین ہے۔ اس کالم میں مولوی قاسم
نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس کے متعلق انہی کے پیر بھائی مگر مسلک کے لحاظ
سے جلیل القدر سنی بزرگ حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی کی شہرہء
آفاق کتاب انوار احمدی سے اقتباس پیش کئے جائیں گے جو کہ تنبیہات کے عنوان
کے تحت بیان کئے گئے ہیں۔
''مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی د یو بند کے ا کا بر ین میں شا مل ہیں ،مو
لو ی قا سم نا نو تو ی نے اپنی کتا ب تحذ یر النا س میں خاتم النبیین کے
غلط معا نی پیش کر نے کی کو شش کر کے عقیدہ ختم نبوت میں ر خنہ اندا ز ی کی
نا کا م کو شش کی ،جس کی علما ئے اہلسنت ہمیشہ مذمت فرما تے رہے ،ز یر نظر
بحث میں بھی اس کے با طل عقید ہ کو د لا ئل کے سا تھ در کیا گیا ہے ''۔
عقید ہ خا تم النبیین پر حضرت مو لا نا محمد انوا ر اللہ رحمۃ اللہ علیہ
مصنف کتا ب'' انوا ر احمد ی'' کے علمی د لا ئل ، ایمانی شوا ہد ،اور بصیرت
افرو ز تنبیہا ت کی شا ندا ر بحث پڑھنے سے پہلے جا معہ نظا میہ حید ر آبا د
کے محتر م مو لا نا عبدالحمید صا حب کا یہ حا شیہ پڑھیے تا کہ بحث کے بنیاد
ی گو شو ں سے آپ پو ر ی طر ح با خبر ہو جا ئیں ۔شیخ الجا معہ تحریر فرماتے
ہیں ! ''تحذ یر النا س نا می کتا ب میں خا تم النبیین کے مسئلے پر(مو لو ی
محمد قا سم صا حب نانو تو ی بانی دار لعلو م دیوبند)نے ایک فلسفیانہ بحث فر
ما ئی جس کا خلا صہ یہ ہے کہ خا تم النبیین ہو نا فضلیت کی با ت نہیں ۔کسی
کا مقد م زمانے یا متا خر زمانے یعنی اگلے ز ما نے یا پچھلے ز ما نے میں پا
یا جا نا فضلیت سے تعلق نہیں ر کھتا ۔ اور اگر با لفر ض آپ کے بعد کو ئی
نبی آجا ئے تو آپ کی فضلیت پر اس کا کو ئی اثر مرتب نہیں ہو گا ۔کیو نکہ خا
تم النبیین ہو نے میں امکا ن ذاتی کی نفی نہیں یعنی آپ کے بعد کسی نبی کا
ہو نا ممکن ہے ۔
اس شبہ کا از الہ حضرت مو لا نا مر حو م نے اپنے اس مضمو ن میں نہا یت و ضا
حت کے سا تھ کیا ہے کہ:
خا تم النبیین کا و صف آنحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کا خا صہ ہے جو
آپ کی ذا ت گرا می کے سا تھ مختص ہے کسی اور میں پا یا نہیں جا سکتا۔ خا تم
النبیین کا لقب از ل ہی سے آپ کے لیے مقر ر ہے اس کا اطلا ق آپ کے سوا کسی
اور پر نہیں ہو سکتا کیو نکہ خاتم النبیین کا مفہو م جز ئی حقیقی ہے ۔ جز
ئی حقیقی وہ ہے جس کا اطلا ق ایک سے زائد پر عقلاً ممتنع ہے لہٰذا ایسی صو
رت میں کسی اور خا تم النبیین کا ذا تی امکا ن با قی نہ ر ہا ۔
اسی مضمو ن کو حضرت نے تحذ یر النا س کے جوا ب میں پھیلا کر تحر یر فر ما
یا ہے اور اس کی و ضا حت فر ما ئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضور صلی
اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کو اپنے کلا م قد یم میں خا تم النبیین فر ما یا ہے
تو حضور از ل ہی سے اس صفت خاص کے ساتھ متصف ہیں ۔ایسا کوئی ز ما نہ نہیں
جو با ر ی تعا لیٰ کے علم اور کلا م پر مقد م ہو ۔اور اس میں کو ئی اور شخص
اس و صف سے متصف ہو سکے ۔پس خا تم النبیین کی صفت مختصہ آنحضرت ؐ صلی اللہ
علیہ و الہ وسلم کی ذا ت گر امی میں منحصر ہے کسی دوسرے کا اس صفت کے سا تھ
اتصا ف محا ل ہے ۔
مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث بد عت ہے : اس کے بعد حضرت
مو لا نا نے اس با ت پر تنبیہ فر ما ئی کہ جو لو گ کل بد عۃ ضلا لۃ پڑھ کر
ہر نئی با ت کو خو اہ حسنہ ہو یا سیہ مستوجب دوزخ قر ار د یا کر تے ہیں وہ
اس سوا ل کا جو اب د یں کہ کیا خا تم النبیین کی فلسفی بحث بد عت نہیں ہے
۔جو نہ قرآ ن میں ہے اور نہ اس کے با ر ے میں کو ئی حد یث وا رد ہے ،نہ قرو
ن ثلا ثہ میں ،صحابہ ،تا بعین اور تبع تا بعین نے خا تم النبین پر ایسی کو
ئی بحث کی ہے ؟
مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث کا نتیجہ: مز ید برا ں اس
بد عت قبیحہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قا د یا نی نے اس فلسفیا نہ استد لا ل سے
اپنی نبو ت پر د لیل پیش کی ہے اور شہاد ت میں مصنف تحذ یر النا س کا نا م
پیش کیا ہے ۔اب یہ مد عی اور گوا ہ کے سا تھ اسی با ر گا ہ میں پیش ہو گا
جس نے امت کو تعلیم د ی ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آوا ز پر بلند مت کر
و۔بلند کر و گے تو تمہا ر ے سا ر ے اعما ل ضبط کر دئیے جا ئیں گے ۔(
محمدعبدا لحمید شیخ جا معہ نظا میہ، انوا ر احمد ی ،ص٤۴۲٢)
مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کے انکا ر ختم نبو ت پر تنبیہا ت: اس حا شیہ
کے بعد حضرت مصنف کی وہ ز لزلہ فگن تنبیہا ت ملا حظہ فر ما ئیں جو لفظ خا
تم النبیین کے سلسلے میں تحذیر النا س کے مصنف کے خلاف انہو ں نے صا در فر
ما ئی ہیں۔
پہلی تنبیہ:
بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ا گر چہ دو سر ے کا خا تم النبیین ہو نا محا ل و
ممتنع ہے مگر یہ امتنا ع لغیرہ ہو گا نہ بالذات جس سے امکان ذا تی کی نفی
نہیں ہو سکتی ۔سو اس کا جوا ب یہ ہے کہ و صف خا تم النبیین خا صہ آنحضر ت ؐ
کا ہے جو دو سر ے پر صادق نہیں آسکتا۔ اور مو ضو علہ ،اس لقب کا ذات آنحضر
ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہے کہ عند الاطلاق کو ئی دو سرا اس مفہو م میں
شر یک نہیں ہو سکتا پس یہ مفہو م جز ئی حقیقی ہے۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۲٢)
دو سری تنبیہ:
پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل خا تم النبیین کی صفت کے سا تھ ایک ذا ت کو
متصف ما ن لیا تو اس کے نزدیک محا ل ہو گیا کہ کوئی دو سر ی ذا ت اس صفت کے
سا تھ متصف ہو ۔اور بحسب منطوق لا ز م الو ثو ق ما یبد ل القول لدیابدالآبا
د تک کے لیے یہ لقب مختص آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہی کے لیے
ٹھہرا تو جز ئیت اس مفہو م کی ابد الا ۤ با د تک کے لیے ہو گئی ۔کیو نکہ یہ
لقب قرآن شر یف سے ثا بت ہے جو بلا شک قد یم ہے ۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ۴۳٤٣)
تیسر ی تنبیہ:
اب دیکھا جا ئے کہ مصدا ق اس صفت کا کب سے معین ہوا ۔سو ہما را د عو ی ٰہے
کہ ابتد ائے عا لم امکا ں سے جس قسم کا بھی و جو د فر ض کیا جا ئے ہر و قت
آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐاس صفت مختصہ کے سا تھ متصف ہیں ۔کیو
نکہ حق تعا لیٰ اپنے کلا م قد یم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐکو
خا تم النبیین فر ما چکا ۔ اب کو ن سا ایسا ز ما نہ نکل سکے گا ۔جو اللہ کے
و صف علم و کلام پر مقد م ہو ؟(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۷٧)
چو تھی تنبیہ:
غیر ت عشق محمد ی بڑ ی چیز ہے ۔جب ا سے جلا ل آتا ہے تو ایک ز لز لہ کی سی
کیفیت پیدا ہو جا تی ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسے اپنے
محبو ب کی تنقیص ذرا بھی بر دا شت نہیں ۔مصنف کتا ب با و جو د یکہ بہت نر م
طبیعت کے آد می ہیں لیکن اس مو قعہ پر ان کے قلم کا جلا ل د یکھنے کے قا بل
ہے ۔کسی اور خا تم النبیین کے امکا ن کے سوا ل پر ان کے ایما ن کی غیر ت اس
در جہ بے قابو ہو گئی ہے کہ سطر سطر سے لہو کی بو ند ٹپک ر ہی ہے ۔میدا ن و
فا میں عشق کوسر بکف د یکھنا ہو تو یہ سطر یں پڑ ھیے۔مصنف کتا ب ،تحذ یر
النا س کے مبا حث کا محا سبہ کر تے ہو ئے تحر یر فرما تے ہیں !''اب ہم ذ را
ان صا حبو ں سے پو چھتے ہیں کہ اب وہ خیا لا ت کہا ں ہیں جو کل بد عۃ ضلا
لۃ پڑھ پڑ ھ کر ایک عا لم کو دو ز خ میں لے جا ر ہے تھے ۔کیا اس قسم کی بحث
فلسفی بھی کہیں قر آ ن و حد یث میں وا رد ہے؟ یا قر و ن ثلاثہ میں کسی نے
کی تھی ۔پھر ایسی بد عت قبیحہ کے مر تکب ہو کر کیا استحقا ق پیدا کیا اور
اس مسئلہ میں جب تک بحث ہو تی ر ہے گی اس کا گنا ہ کس کی گر د ن پرہو گا
ـ''؟
د یکھئے حضرت جر یر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رو ایت سے حد یث شر یف میں وا رد
ہے کہ حضور انور ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ار شا د فر ما یا ہے کہ! جو
شخص اسلام میں کوئی برا طر یقہ نکا لے تو اس پر جتنے لو گ عمل کر تے ر ہیں
گے سب کا گنا ہ اس کے ذمے ہو گا اور عمل کر نے وا لو ں کے گنا ہ میں کچھ
کمی نہ ہو گی۔(رواہ مسلم )
لکھتے لکھتے اس مقام پر عشق و ایما ن کی غیر ت نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ہے
۔غیظ میں ڈوبے ہو ئے کلما ت کا ذ را تیو ر ملا حظہ فرمائیے! تحریر فر ما تے
ہیں !''بھلا جس طر ح حق تعا لیٰ کے نز د یک صر ف آنحضر ت ؐ صلی اللہ علیہ و
الہ وسلم خا تم النبیین ہیں و یسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے ہیں تو اس
میں آپ کا کیا نقصا ن تھا ۔کیا اس میں بھی کو ئی شر ک و بد عت ر کھی تھی جو
طرح طر ح کے شا خسا نے نکا لے گئے'' یہ تو بتا ئیے کہ ہما ر ے حضرت نے آپ
کے حق میں ایسی کو ن سی بد سلو کی کی تھی جو اس کا بد لہ اس طر ح لیا گیا
کہ فضیلت خاصہ میں بھی مسلم ہو نا مطلقًا نا گوا ر ہے ۔یہا ں تک کے جب د
یکھا کہ خود حق تعا لیٰ فر ما ر ہا ہے کہ آپ سب نبیو ں کے خاتم ہیں تو کما
ل تشو یش ہو ئی کہ فضیلت خاصہ ثا بت ہو ئی جا تی ہے ۔جب اس کے ابطا ل کا کو
ئی ذ ریعہ د ین اسلا م میں نہ ملا تو فلا سفہ معاند ین کی طر ف ر جو ع کیا
اور امکا ن ذا تی کی شمشیر دودم(دودھار ی تلوا ر) ان سے لے کر میدا ن میں
آکھڑ ے ہوئے ۔
پا نچو یںتنبیہ:
ا فسو س ہے اس د ھن میں یہ بھی نہ سو چا کہ معتقد ین سا دہ لو ح کو اس خاتم
فر ضی کا انتظا ر کتنے کنو ئیں جھنکائے گا ۔ معتقد ین سادہ لو ح کے دلو ں
پر اس تقر یر نا معقو ل کا ا تنا ا ثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت ؐ صلی اللہ
علیہ و الہ وسلم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا۔ چنا نچہ بعض اتبا ع نے
اس بنا پر الف لا م خاتم النبیین سے یہ با ت بنا ئی کہ حضرت صرف ان نبیو ں
کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ حضور کے بعد بھی انبیا ء
پیدا ہو ں گے اور ان کا خا تم کو ئی اور ہو گا۔
معا ذاللہ اس تقر یر نے یہا ں تک پہنچا د یا کہ قر آن کا انکا ر ہو نے لگا
۔ذ را سو چئیے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خا تم النبیین ہو نے
کے سلسلے میں یہ سا ر ے احتما لا ت حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے رو
برو نکا لے جا تے تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر کس قد ر شا ق گز ر
تا ۔
چھٹی تنبیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کے سا منے تو را
ت کے مطا لعے کا ار اد ہ کیا تھا تو اس پر حضور کی حالت کس قد ر متغیر ہو
گئی تھی کہ چہر ہ مبا ر ک سے غضب کے آثا ر پیدا تھے ۔اور با و جو د اس خلق
عظیم کے ایسے جلیل القد ر صحا بی پر کتنا عتا ب فر ما یا تھا جس کا بیا ن
نہیں ۔جو لو گ تقر ب و اخلا ص کے مذ اق سے وا قف ہیں و ہی اس کیفیت کو سمجھ
سکتے ہیں۔ پھر یہ فر ما یا کہ اگر خود حضرت مو سیٰ میر ی نبوت کا ز ما نہ
پا تے تو سو ائے میر ی اتبا ع کے ان کے لیے کو ئی چا رہ نہ ہو تا ۔
اب ہر شخص با آسا نی سمجھ سکتا ہے کہ جب حضر ت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی
با اخلا ص کی صر ف اتنی حر کت اس قد ر ناگوار طبع غیور ہو ئی تو کسی ز ید و
عمرو کی اس تقر یر سے جو خود خا تمیت محمد ی میں شک ڈا ل د یتی ہے ، حضور
کو کیسی اذ یت پہنچتی ہو گی۔ کیا یہ ایذا ر سا نی خالی جا ئے گی؟ہر گز نہیں
حق تعا لیٰ ار شا د فر ماتا ہے !اِنَّ الَّذِ یْنَ یُوْ ذُوْ نَ اللّٰہَ وَ
رَسُوْ لَہ، لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِیْ الدُّ نْیَا وَالْاٰخِرَ ۃِ
وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًامُھِیْنًا Oتر جمہ:جو لو گ ایذا د یتے ہیں اللہ کو
اور اس کے اس کے ر سول کو ،لعنت کر ے گا اللہ ان پر د نیا میں بھی اور آخر
ت میں بھی ۔اور تیا ر کر ر کھا ہے ان کے لیے ذلت کا عذاب ۔ (انوا ر احمد ی
،صفحہ٥۵۲٢) |