ہر عیسوی سال کے اختتام پر دسمبر کا مہینہ اور اس کی 16
تاریخ آتی ہے اور حسب معمول گزر جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یادیں بھی قلب و
ذہن سے محو ہو کر قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں دو
دفعہ،1971 اور 2014 میں دسمبر کی ایسی 16 تاریخ آئی جو صدیوں تک بھلائی نہ
جا سکے گی۔ 1971 کے دسمبر کی 16 تاریخ نے وطن عزیز پاکستان کو دو لخت کیا
اور مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ وہ مشرقی پاکستان جہاں سے تحریک پاکستان اپنی
پوری آب و تاب سے چلی اور وہاں کے باسیوں نے اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے بے
پناہ قربانیاں دیں۔ سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا زخم ہے جو تا دیر
نہیں بھر سکے گا۔ اس سانحہ کا پس منظر یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان
کو حقیقی معنوں میں تسلیم نہیں کیااورہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہا کہ
پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کردے۔ یہ کوئی بے جا، تعصب پر مبنی الزام
نہیں بلکہ اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ
کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نےکہا تھا کہ "مسلمانوں نے ہزار سال تک
ہمیں غلام بنائے رکھا اور آج ہم نے ان سے بدلہ چکا کر دو قومی نظریے کو
خلیج بنگال میں پھینک دیا ہے"۔ پاکستان کو دولخت کرنے پربنگلہ دیش کی حکومت
نے 2012ء میں آنجہانی اندرا گاندھی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار"
ایوارڈ دیا۔ 2016ء میں یہی ایوارڈ بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم واجپائی
کوبھی میں دیاگیا تھا۔ جسے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وصول کیا اور
ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ انداز میں سر عام اعتراف کیا کہ
پاکستان کوتوڑنے میں بھارت ملوث تھا۔ 16نومبر 2009ء کوبنگلہ دیش کی
وزیراعظم حسینہ واجد نے بھی کہا تھاکہ "وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے
ساتھ قیام پذیر تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے "را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں
کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی خفیہ حکمت عملی طے کی تھی"۔ بھارت تو پاکستان
سے دیرینہ عداوت کی بناء پر سازشیں کرتا ہی رہا لیکن افسوسناک امر یہ بھی
ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی راہنماؤں نے بھی ضروری مسائل کو حل کرنے
میں کوتاہیاں برتیں ۔ ملکی سلامتی اور بقاء کے لیے جس الجھاؤ کو سلجھاؤ
درکار تھا اسے اہمیت تک نہیں دی۔ ایسے ہی حالات میں بھارت کو موقع مل گیا
اور ان مسائل کو بنیاد بناکر مشرقی پاکستان کے عوام کو گمراہ کرناشروع کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کوئی حادثاتی عمل یا واقعہ نہیں تھا بلکہ طویل
عرصے کی سیاسی کوتاہیوں اور حکمت و بصیرت سے عاری فیصلوں کا منطقی نتیجہ
تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کی بے اعتنائیوں، اقتدار کی
حرص اور روکھے رویوں کی وجہ سے جنم لینے والی غلط فہمیوں نے بالآخر مشرقی
پاکستان مے باشندوں میں احساس محرومی کا روپ دھار لیا اور اغیار نے انہیں
ہوا دے کر نفرتیں پھیلائیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں یہ دلخراش سانحہ دیکھنا
پڑا۔ زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں
ضروری ہے کہ ہم اپنی سابقہ کوہتاہوں کا جائزہ لیں۔ کیونکہ ملک میں اشتعال
زدہ علاقے اب بھی موجود ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ معاملات میں کہیں غفلت کے
مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ اب بھی ان علاقوں میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں
اور آئے روز ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے مل رہے ہیں۔ بھارتی
حکمران اور ذمہ داران کئی مواقع پر پاکستان کو سندھ کارڈ اور بلوچستان کارڈ
کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس صورت حال میں موثر حکمت عملی پر عمل درآمد کی
اشد ضرورت ہے۔ ان علاقوں کے ناراض لوگوں کو قومی اور سیاسی دھارے میں شامل
کرنے کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کے خاتمے اور معاشی بد حالی کے ازالے کیلئے
مزید ترقی اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ
خدانخواستہ پھر کوئی برا دن نہ دیکھنا پڑے۔ اسی طرح 16 دسمبر 2014 کو آرمی
پبلک سکول پشاور میں انتہائی درد ناک اور ناقابل فراموش سانحہ پیش آیا، جس
نے پوری قوم کو درد و الم کی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ مستقبل کے معمار اور
نونہالان وطن کو ظالم دہشت گردوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے خاک و خون میں
نہلادیا۔ خون میں لتھڑی ہوئی بے جرم و خطا چھول جیسے بچوں کی لاشوں کے ڈھیر
اب بھی تصور میں لائیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ماؤں نے انہیں نہلا دھلا
کر سکول یونیفارم میں حصول علم کیلئے سکول بھیجا تھا۔ گھر کی دہلیز پر ان
کی واپسی کی منتظر ماؤں کو کیا پتہ تھا کہ اب ننھے پھول ہمیشہ کیلئے جدائی
کا داغ دے کر رخصت ہو چکے ہیں۔ اے ظالم دہشت گردو! ان بچوں کا قصور کیا تھا
کہ تم نے انہیں بے دردی سے شہید کرکے سینکڑوں ماؤں کے سینے چھلنی کردیے۔ 16
دسمبر 2014ء کا دن اس روح فرسا سانحے کی وجہ سے ایک ناقابل فراموش اور دکھی
دن ہے۔اس دن پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ماؤں نے غم واندوہ کے بے
شمار آنسو بہائے۔ سول سے فوج تک اور دانشور سے عام شہری تک نے وحشت اور
بربریت کے انتہائی سفاک منظر کو افسردہ دل اور اشکبار آنکھوں سے دیکھا۔
لگتا ہے کہ معصوم بچوں پرگولیاں چلانے والے انسان نما درندوں کے دل پتھر
ہوچکے تھے ۔سوال یہ کہ آخر ان نونہالوں نے کسی کا بگاڑا کیا تھا؟ شہدا کے
والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس
ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے، دہشت گردوں نے اسکول پرحملہ کرکے علم کی
شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔پاکستانی قوم اور عسکری
قوتوں نے اس المیہ کے بعد نئے عزم کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کا
پختہ تہیہ کیا۔ دہشت گردوں نے مستقبل کے معماروں کونشانہ بنا کرملک
اورسیکیورٹی اداروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی لیکن ملک بھرمیں جاری تعلیمی
سرگرمیاں ملک دشمنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ قوم کےعزم میں کوئی تبدیلی
نہیں آئی، شہداکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یوم حساب بہت قریب ہے۔۔
اے ظالموں! تمہیں ظلم و ستم کے اس سانحہ کے ایک ایک نشان کا جواب دینا ہوگا۔۔ |