چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثا رنے درست کہا ہے کہ وہ
رہیں نہ رہیں ان کا ادارہ رہے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگ آتے جاتے
رہتے ہیں ادارے ان آنے جانے والوں کے رنگ میں تو رنگے رہتے ہیں مگر ان کی
طرح عارضی نہیں ہوتے قائم رہتے ہیں۔اچھے لوگ اداروں میں نکھا ر کا سبب بنتے
ہیں او ر برے بندے کسی نہ کیسی بگاڑ کو جنم دے دیتے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب
نثارآ ج عدلیہ کو ایک نیا رنگ دے رہے ہیں۔یہ رنگ اچھا ہے یا بر ااس کا
فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔آج کچھ مصلحتیں کچھ مجبوریاں اس فیصلے کی راہ
میں رکاوٹ ہیں کچھ دنوں بعد چیف جسٹس ریٹائرہونے والے ہیں۔یہ مصلحتیں اور
مجبوریاں ان کی نوکری کے ساتھ ہی ہٹ جائیں گی۔پھر ان کی نوکری کا درست
تقابل سامنے آئے گا۔اچھے اور برے لوگوں میں فرق صرف اور صر ف ادارے سے
وفادار ی کا ہوتاہے۔دیکھا جاتاہے کہ لوگوں سے ادارے کو کتنا فائدہ ہوا۔کتنا
مضبوط ہوا۔کتنا معتبر ہوا۔جو لوگ ان چیزوں کے حق میں نکلتے ہیں انہیں اچھا
مانا جاتاہے۔کچھ لوگ اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے ادارے کا نام خراب کرتے
ہیں۔ادارے کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔غیر معتبر ہوجاتاہے۔ان کی اچھل کود ان کی
نااہلی کے سبب ہوتی ہے ۔وہ اس قابل نہ تھے کہ اس عہدے پر بٹھائے جائیں۔شارٹ
کٹ سے آنے کے سب انہیں یہ اچھل کود کرنا پڑتی ہے۔
چیف جسٹس صاحب کو بلوچستان کے عوام کے حقوق دلانے فکرقابل تحسین
ہے۔بلوچستان ملک کا سب سے پس ماندہ او رغریب صوبہ ہے۔یہاں کے لوگوں کی حالت
واقعی قابل رحم ہے۔چیف جسٹس یہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کے
متمنی ہیں۔یہاں کا مسئلہ خالی صاف پانی نہیں۔بے شمار دیگر مسائل بھی منہ
کھولے ہوئے ہیں۔روزگارنہیں ۔تعلیم اور صحت کے جتنے انتظامات دوسرے صوبوں
میں ہیں یہاں موجود نہیں۔یہاں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہاں ہمیشہ
ڈرامے بازیاں کی گئیں۔ چیف جسٹس یہاں کے عوام کو ان کے حقوق دلوانے میں
کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ یہاں کے عوام کے لیے بہت بڑ ااحسان ہوگا۔یہاں کے
لوگ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں مگر یہاں مسائل حل کرنے کے لیے کوئی
فارمولہ نہیں سامنے آیا۔یہاں کے عوام کے حقوق غصب کرنے میں کوئی ایک بندہ
یا گروہ نہیں کئی ہیں۔کچھ سرحد پار کے گروہ ان کا جینا محال کیے ہوئے
ہیں۔کچھ سکون آئے دن سیکیورٹی ادار وں کی طر ف سے امن و امان بحالی اپریشن
کے نام پر چھینا جاتاہے۔جہاں تک یہاں کی لوکل قیادت کی بات ہے وہ محض
تماشائی کا کردار ادارکرتی رہی ہے۔نہ وہ سرحدپار کے لوگوں سے یہاں کے عوام
کوکچھ تحفظ دلاپائی ہے نہ ہی یہاں کوئی ایسا فارمولہ دے پائی کہ سیکورٹی
اداروں کے اپریشن سے عوام کی جان چھوٹ پائے۔
چیف جسٹس صاحب کے لیے یہاں کے عوام کو حقوق دلوانا آسان نہ ہوگا۔ان حقوق
غصب کرنے والے بہت طاقت ور ہیں۔زیادہ تر حقوق غصب کرنے کے لیے بھی عوام کے
حقوق کی بحالی کا نعرہ لگایا گیا۔سیاسی اور غیر سیاسی قیادت پر مبنی غاصبین
کسی طور کمزور نہیں۔یہاں کی عوام صحیح معنوں میں شکنچے میں آئی ہوئی ہے۔اس
کی فلاح کے نام پر اس کا جینا دوبھر کیا جارہاہے۔اس کا بھلا سب سے مقدم
ہونا چاہیے مگر یہاں سب سے موخر ہے۔پہلے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی جان
مال اور عزت مقدم ہے۔اس فریضے سے وسائل بچیں تو غریب عوام کی باری آئے۔چیف
جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ وہ یہاں کے عوام کو حقوق دلاکررہیں گے۔خدا انہیں
کامیاب کرے۔ یہاں کی لوکل قیادت خوش ہے۔سرداریاں قائم ہیں۔سرحد پار والے
لوگ بھی مطمئن جب چاہیں جہاں چاہے دھماکہ کرلیا ۔جب چاہا گھس گئے جب چاہے
نکل گئے۔سیکورٹی ادارے بھی اپریشنوں پر صد فی صد مطمئن ۔ایسے میں بھلا کچھ
تبدیلی آئے بھی تو کیسے۔چیف جسٹس تو دوبارہ بلوچستان میں جانے کب آئیں
گے۔ان کے دورے اور احکامات کا اثر بھی زیادہ دن تک رہتانظر نہیں آتا۔جو لوگ
پنجاب کی بدحالی ختم کرنے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے متمنی
ہیں۔جانے انہیں بلوچستان کی بدحالی ختم کرنے کے لیے تین حصوں میں تقسیم
کرنے کا خیال کب آئے گا۔اگر دوسرے صوبوں میں تقسیم کا عمل نہیں کیا جاتاصرف
پنجاب کی تقسیم پر زور دیا جاتاہے تو اس سے بدنیتی کا تاثر ملے گا۔کچھ لوگ
پنجاب کی خوشحالی کے دشمن ہیں۔اوریہاں بھی الو راج لاکر بدحالیاں پیداکرنا
چاہتے ہیں۔ |