ٹیکنالوجی میں پے در پے تبدیلیوں نے ویڈیو گیمز کے ایسے
درکھولے ہیں جہاں ایک طرف بہت سارے فوائد نظر آرہے ہیں وہیں بہت سارے
نقصانات نے بھی سر ابھارا ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے نو جوان
اور بچوں کے لئے ویڈیو گیمز کو انتہائی سستا اور آسان کر دیا ہے۔ایسے ہی
لاکھوں گیم میں پب جی گیم سے ہر کس وناکس متاثر ہو رہا ہے۔ بچے کیا نو جوان
طبقہ بھی دن رات بیشتر وقت اسی گیم کھیلنے میں صرف کر رہے ہیں،یہ گیم
کھیلنے والوں کی صحت کیلئے مضر رساں ہے۔ گیم بنانے والے کمپنی فن لینڈکی
فرم سُپر سیل اور ساوتھ کوریا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اِس پب جی ویڈیو
گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے
والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کر دیتی ہیں اور یہ بھی خبر دار کیا ہے کہ یہ
اور اِس جیسے ویڈیو گیم بہت زیادہ کھیلنے سے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو جاتا
ہے۔یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے
ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں موبائیل پرانگلیوں
کی مسلسل حرکت کی وجہ سے ابہام والی انگلی کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے
ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے آنکھوں کی حرکت تیز ہو جانے کی وجہ سے آنکھوں پربھی
برا اثر پڑتا ہے۔ مقناطیسی لہریں موبائیل اسکرین سے نکلتی رہتی ہیں جسکی
وجہ سے آنکھ سرخ او ر خشک ہو جاتی ہیں۔حتیٰ کہ یہ گیم کھیلنے والوں میں خود
اعتمادی کی کمی کے ساتھ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں ۔پب جی گیم میں
ایساہے جس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل کر کے انکی املاک تباہ کر کے
ناحق انہیں زدوکوب کر کے لطف اٹھایا جاتا ہے۔مکمل گیم اختتام تک کھیلنے
والوں کو ایک فرضی چِکن ڈِنر انعام ملتا ہے۔ بچے اور خاص طور پرنوجوان نسل
اس قسم کے ویڈیو گیمزکثرت سے کھیل کر جرائم کے نت نئے طریقے اور ترکیبیں
سیکھ لیتے ہیں، یہ گیمزانکے ذہنوں میں تشدد، مار دھاڑ اور لڑنے جھگڑنے کے
ایسے ہنر پیدا کر دیتے ہیں جن سے وہ ویڈیو گیمز کے کھیلنے سے پہلے خالی
الذہن ہوتے ہیں۔یقینا یہ ایسا گیم ہے جِس سے خونریزی اور جرائم کو
بڑھاوادیا جا رہا ہے۔گیم کھیلنے والوں کو ایک ایک ہتھیار ،بندوق ،گن کا نام
ازبر ہوجاتا ہے ۔ساتھ ساتھ اِس گیم میں منشیات کا استعمال، تشدد،ماردھاڑ،
چھُپ چھپا کر قتل کرنا، گروہوں کے درمیان لڑائی، نا زیبا اور عامیانہ الفاظ
کا استعمال عام بات ہے۔ ۔ عام فرد کے لیے وہ تصورات اور الفاظ جن کو پہلے
کبھی سوچنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ ان گیمز کے ذریعے زندگی میں
رچتے بستے جا رہے ہیں، اور معاشرہ ان کے کثیر استعمال کے باعث انہیں قبول
کر کے اپنے اندر ضم بھی کر رہا ہے۔تشدد،ماردھاڑ اور جنگ کے مناظر عام افراد
خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب کریں گے اس سے
موبائیل اور گیم کمپنیوں کو کوئی سرو کار نہیں۔ لیکن یہ سوال معاشرے کے لیے
بے حد اہم ہے کہ پُرتشدد اور اخلاق باختہ ویڈیو گیمز کے پھیلاؤ کے بعد اس
قوم کا اخلاقی مستقبل کیا ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان چیلنجز اور
مسائل کو نمٹنے کے لیے اور اپنے بچوں کو ان چیزوں کے معاشرتی منفی اثرات سے
بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تا کہ ہمارا یہ مستقبل محفوظ پروان
چڑھ سکے۔ورنہ ایسے موبائیل گیم اور انٹرنیٹ کے سائے میں پروان چڑھنے والی
نسل کے لیے ادب، اخلاقیات، انکساری، تحمل،صبر، حیا اور دردمندی جیسے الفاظ
عجوبہ بن جائیں گے۔ اور آنے والی نسلیں ان الفاظ کے استعمال پر حیرت سے منہ
تکیں گی۔
|