زوال اُمت کے اسباب اندرونی ہیں بیرونی نہیں!

جارح صیہونی افواج نے بیت المقدس میں ایک فلسطینی لڑکی کو گولیاں مار کر شہید کر دیا ۔اس فلسطینی لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے دو صیہونی فوجیوں پر حملہ کرکے انہیں زخمی کر دیا تھا۔اس الزام پر اس کے خلاف نہ مقدمہ درج ہوا ، نہ عدالت میں کوئی کیس چلا ، نہ کوئی گواہ ، نہ ثبوت ، کچھ نہیں دیکھا گیا ۔ بس سیدھے گولیاں ماریں اور موت کے گھاٹ اُتارد یا ۔اسی طرح کشمیر سے جو خبریں کسی نہ کسی ذریعے سے بمشکل دنیا تک پہنچتی ہیں ان میں بھی اسی سفاکی اور جارحیت کی نئی نئی مثالیں روز قائم ہوتی ملتی ہیں ۔ایک 2ماہ کی معصوم کشمیری بچی کو اس کی ماں ہسپتال کے بیڈ پر گود میں لیے بیٹھی ہے ، بچی کی ایک آنکھ پر سفید پٹی بندھی ہے اور اس کی ماں کرب اور اضطراب کی کیفیت میں کبھی اس معصوم بچی کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی آس پاس کھڑے لوگوں کو بے بسی کی حالت میں دیکھتی ہے ،۔ اس کے چہرے پر تفکرات اور حیرانی کے آثار اس کی زبان پر نہ آنے والے کئی سوالات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ جیسے وہ پوچھ رہی ہو کہ اس ننھی سی معصوم جان کا کیا قصور تھا ؟ کیوں پیلٹ گن سے اس کی بینائی چھین لی گئی ؟ کیا صرف مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونا ہی اس کا جرم ہے ؟

آج دنیا میں 58مسلم ممالک ہیں جن میں اُمت کا درد رکھنے والے طیب اردگان کا ترکی اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا پاکستان بھی شامل ہے ۔لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح زبح کیا جارہاہے ،چیونٹیوں کی طرح کچلا جارہاہے اور گھاس پھوس کی طرح روندا جارہاہے ۔ کسی غیر مسلم کا چاہے کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ ہو اُسے بچانے کے لیے تمام غیر مسلم قوتیں متحریک ہو جاتی ہیں ۔ جیسے آسیہ جیسی گستاخ رسول کو بچانے کے لیے تمام عالمی طاقتیں یکسو ہو گئیں ۔جبکہ دوسری طرف بے قصور عافیہ صدیقی اغیار کی قید میں سلاخوں کے پیچھے موت کی منتظرہے لیکن کسی مسلم ملک ، بڑے سے بڑے مسلم لیڈر کی غیرت و حمیت نہیں جاگی ۔غزہ کے محصور مسلمان اُمت مسلمہ کی اسی بے حسی اور بے حمیتی کو دیکھتے ہوئے تنگ آکر اب دیواروں سے سر پھوڑنے کے مترادف ہر جمعہ کو واپسی مارچ کے نام سے اپنے آبائی علاقے کا رخ کرتے ہیں جہاں پران کا سامنا قابض صیہونی افواج کی گولیوں ، شیلوں اور بموں سے ہوتاہے ۔ مارچ 2018ء کے بعد سے اب تک واپسی مارچ میں 300کے لگ بھگ فلسطینی شہید اور کئی ہزار زخمی ہو چکے ہیں ۔ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی زمینوں اور جائیدادوں پر صیہونی ناجائز قبضہ کے خلاف احتجاج کر تے ہیں ۔جارح اسرائیلی افواج تلاشی کے نام پر جس گھر میں چاہیں زبردستی گھس جائیں اور مسلم عورتوں کے پردے ، تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان کے بال نوچیں، چھوٹی چھوٹی مسلمان بچیاں جن کے گڈیوں سے کھیلنے کے دن تھے جارح اسرائیلی فوجیوں سے اُلجھتی ، تکرار کرتی نظر آتی ہیں ، فلسطینی عورتیں اپنے سہاگ بچانے کی کوشش میں اپنے مردوں کے ساتھ گھسٹتی چلی جاتی ہیں مگر کسی بھی اخلاقی حس سے محروم صیہونی فوجی بغیر کسی ثبوت اور قانونی پراسس کے فلسطینیوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلوں میں پہنچا رہے ہیں جہاں ان کے ساتھ اس قدر گھناؤنااور غیر انسانی سلوک کیا جارہاہے جس کو بیان کرنا بھی اخلاقی تقاضوں کے منافی لگتا ہے ۔یہاں تک کہ نوجوان فلسطینی لڑکیوں کو بے پردہ کرکے تفتیش کے نام پر ٹارچر کیا جاتا ہے ۔اس قدر وحشت اور درندگی کا بازار گرم ہے کہ انسانیت شرمسار ہوگئی ۔ ہالینڈ جیسے غیر مسلم ملک نے اس اسرائیلی وحشت کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی جیسے غیر مسلم اکثریت نے پاس بھی کیا ۔ لیکن کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بے گناہ مسلمانوں پر اس قدر ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھائے ۔ بلکہ اس کے برعکس تمام عرب ممالک فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ بعض تو آئندہ ایک صدی کے صیہونی منصوبے کی مکمل حمایت بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ـ’’ صدی کی سب سے بڑی ڈیل ‘‘ کے عنوان سے یہ منصوبہ ٹرمپ کے یہودی داماد اور مشرق وسطیٰ میں امریکی ایلچی جیسن گرین بلاٹ (جو کہ آرتھوڈاکس یہودی ہے)کے عزائم کا مظہر ہے جس کے مطابق یوروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کیا جائے گا ، علاقے میں اسرائیلی کی عسکری بالادستی کو تسلیم کیا جائے گا جبکہ اسرائیل مخالف مزاحمتی گرو ہوں کو ہر قسم کے اسلحہ سے خالی کیا جائے گا ۔دنیا کے وہ تمام ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے انہیں اسرائیل کو ایک قانونی ملک کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا ۔ یوروشلم میں مقدس مقامات کی زیارت یا عبادت کی اجازت اسرائیل کی طرف سے جاری کی جائے گی ۔

ہم کہتے ہیں یہودو نصاریٰ ہمارے دشمن ہیں لیکن چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے ۔ لیکن عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق چائنہ میں مسلم آبادی والا صوبہ سنکیانگ مسلمانوں کے لیے اوپن ایئر جیل بن چکا ہے جہاں ہر مسلمان کی زندگی قیدی کی زندگی سے بھی بدتر ہو چکی ہے ۔سنکیانگ میں جگہ جگہ لگے پبلک سائن بورڈ خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ صوبے کے نئے قوانین کے مطابق کوئی بھی شہری 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل داڑھی نہیں رکھ سکتا اور مسلمان سرکاری ملازمین کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا بھی قانوناًمنع ہے۔یہاں تک کہ حلال خوراک بیچنے والے ریستوران بھی بند کیے جارہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلم طلبہ و طالبات کا ایک دوسرے کو السلام علیکم یا وعلیکم السلام کہنابھی بُرا خیال کیا جارہا ہے کیونکہ چینی حکومت کے خیال میں یہ اسلامی الفاظ بھی اسلامی بنیادی پرستی کی علامت ہیں ۔بات ان پابندیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چینی سکیورٹی فورسز جب چاہیں کسی بھی مسلمان مرد یا عورت کو اُٹھا کر لے جائیں ۔خود اقوام متحدہ کے اعداد شمار کے مطابق سنکیانگ کے 10لاکھ سے زائد مسلمان اس وقت چینی ٹارچر سیلوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں اور ان کے عزیز رشتہ دار بھی کسی کم عذاب میں مبتلا نہیں ہیں ۔ان ٹارچر سیلوں میں تشدد کے ذریعے مسلمانوں کی مذہبی اور معاشرتی اقدار کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ اسے گنجا کرکے بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ سماعت سے محروم ہو گئی ۔ اس نے بتایا کہ ان ٹارچر سیلوں میں کئی خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں یا پھر وہ ساری زندگی کے لیے اولاد کی نعمت سے محروم ہو جاتی ہیں ۔یہاں تک کہ اس خاتون نے بتایا کہ ان ٹارچر سیلوں میں چینی سکیورٹی فورسز اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔

آج اُمت کی ایسی حالت کیوں ہے؟ہمارے دانشور جتنی بھی دور تک اپنی دانش کے گھوڑے دوڑا لیں مگر آخر میں تان مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر ٹوٹتی ہے یا زیادہ سے زیادہ مسلم حکومتوں کی مجبوریاں گنوا کر خاموش ہو جاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بے حسی ہے اور نہ کوئی مجبوری کا شاخسانہ بلکہ اصل میں ہماری وفاداریاں بدل چکی ہیں ۔ آج ہم عرب ہیں ، ایرانی ہیں ، پاکستانی ہیں ، عراقی ہیں ، مصری ہیں ، لبنانی ہیں، افغانی ہیں لیکن مسلم اُمت نہیں ہیں ۔ اسی طرح ہم شیعہ ہیں ، سنی ہیں ، وہابی ہیں ، دیوبندی ہیں ، بریلوی ہیں ، ہماری سب وفاداریاں اپنے اپنے مسلک کے ساتھ ہیں لیکن اسلام کے ساتھ نہیں ہیں ۔ہم جسے اپنا ملکی مفاد کہتے ہیں وہ اُمت کی بربادی کا سامان بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی ہم ملکی مفاد کے نا م پر اُمت کا نقصان کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اسی ملکی مفاد کے نام پر ہم نے دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر پڑوسی مسلمان ملک میں اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اپنے پڑوسی مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ میں شریک ہوگئے ۔اسی طرح عرب کا جو مفاد ہے اُسے ایران اپنا نقصان سمجھتا ہے اور جو ایران کا مفاد ہے وہ عربوں کے نزدیک ان کا نقصان ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہم اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی مسلم بھائیوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کر رہے ۔ یہ خون چاہے یمن میں بہہ رہا ہو ، شام میں یا عراق میں اُمت کا ہی خون ہے لیکن اپنے ہی یہ خون بہا رہے ہیں ۔جب ہم آپس میں ہی ایک دوسرے کے خون کے اتنے پیاسے ہیں تو پھر دشمن قوتوں سے کیا گلہ ؟

ایک صدی قبل اُمت کو اگرچہ دشمنوں نے ہی ٹکڑے ٹکڑے کیا مگریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوا جب تک کہ ہمارے اپنے ہی لوگ اس تقسیم و تخریب کے عمل میں ہنسی خوشی شریک نہیں ہوئے اور انہوں نے دشمن قوتوں کے ساتھ مل اس تقسیم کی جنگ نہیں لڑی ۔آج ہم دشمنوں کو کوستے ہیں کہ اُمت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اوراُمت کی اسی توڑ پھوڑ کی وجہ سے آج اُمت کی یہ حالت ہے اور اسی وجہ سے برما، فلسطین ، کشمیر ، سنکیانگ ، بہار ، آسام میں مسلمانوں کی زندگی عذاب ہو چکی ہے ۔مگراس کے باوجود ہم اس تقسیم پر اتنے خوش ہیں کہ ہر سال اس کی یاد میں جشن مناتے ہیں ۔گویا ہم اُمت کی اس بربادی پر اتنے خوش ہیں تو پھر کیسی اُمت اور کیسا اُمت کا درد ؟

سچ بات تو یہ ہے کہ جب ہم خود ہی اپنے ساتھ مخلص نہیں ہیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے میں اپنا مفاد سمجھتے ہیں ، مسلم ریاستیں قومی مفاد کے نام پر دوسری مسلم ریاستوں کی جڑیں کاٹ رہی ہیں ، حکمران ذاتی مفاد میں قومی مفادات کا سودا کر رہے ہیں ۔علماء مسلکی مفادات میں اُلجھ کر اجتماعی دینی مفاد کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ تمام دینی تحریکیں خود اپنے ہی مسلم ممالک میں مزاحمت کا شکار ہیں ۔اس سے بھی آگے بڑھ کر دین پسندوں پر مسلم ممالک میں ہی شکنجے سخت سے سخت تر ہوتے جارہے ہیں، یہاں تک کہ اسلامی تعلیمات کو نصاب سے بھی نکالا جارہاہے تو ان حالات میں ہمیں دشمنوں کی سازشوں اور ان کے ہاتھوں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا گلہ کرنے کی بجائے سخت سے سخت تر عذاب کا منتظر رہنا چاہیے جب تک کہ ہم دوبارہ اسلام سے مخلص ہو کر ایک اُمت بننے کی ضرورت محسوس نہ کرنے لگیں ۔
 

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.