16دسمبر 2014 تاریخ کا سیاہ ترین دن

اُم ایمن جماعت نہم کی طالبہ ہے، جس نے16دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاورپردہشت گردحملے کے حوالہ سے لکھی گئی اپنی تحریر مجھے بھیجی،جس کا ایک ایک لفظ قوم کے احساسات ،امنگوں اورآرزوٗں کا ترجمان ہے کہ یہ قوم اوراس کے بچے ،آرمی پبلک سکول پشاورپردہشت گردحملے میں شہیدہونے والے معصوم طلباء و طالبات،پرنسپل طاہرہ قاضی، اساتذہ ودیگرسٹاف کی قربانی کوہمیشہ یادرکھیں گے اوران بہادرشہداکی یادہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔کیونکہ یہ سانحہ پوری قوم کے لئے ایسا المیہ تھا جس کی کسک کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔

"ہمارے پیارے وطن پاکستان کو1947میں انگریزوں سے آزادی ملی۔اس قوم نے اپنے قائد کی راہنمائی میں متحد ہوکرمحنت کی توپاکستان نہ صرف ابتدائی مشکلات کوشکست دینے میں کامیاب ہوابلکہ دُنیامیں اس قوم کی کامیابی اورترقی کی مثالیں دی جانے لگیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان آج ایک بارپھرمشکلات اور مسائل میں گھرچکاہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مایوسی اور ناامیدی ان مشکلات اور مسائل سے بڑھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔میں سمجھتی ہوں یہ سب مایوسی،نااُمیدی اورجہالت کا کیا دھراہے۔مایوسی سب سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے ،جس میں انسان ہمت ، حوصلہ ہار جاتا ہے اور حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں ،ہمارا مذہب ہمیں اُمید،محنت ،کوشش اور اﷲ پربھروسہ سے ہرمشکل اورآزمائش میں کامیابی کے یقین کا درس دیتاہے۔ دن رات ٹی وی ،اخبارات میں جن مسائل کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے،میں سمجھتی ہوں دراصل یہ ایک سازش کے تحت آنے والی نسلوں کو کمزوراورحالات سے مایوس کرنے کے لئے ڈرایا جا رہاہے۔دُشمن کی یہ سازش کسی قوم کوایٹمی جنگ کے ذریعے سے تباہ کردینے سے زیادہ خطرناک ہے۔

ٖبچے کتابوں سے ڈرتے ہیں،استادوں کے خوف سے لرزتے ہیں،صبح صبح اُٹھنا اورتیارہوناایک الگ سے مشکل،پھر ہرٹسٹ کی علیحدہ پریشانی، مگروالدین کی دعا،محبت ، حوصلہ افزائی اوراساتذہ کرام کی توجہ ،محنت ،شفقت اورراہنمائی کی بدولت سارا سال امتحان کی تیاری کے بعد ایک وقت آتا ہے ،یہی معصوم ڈرے،سہمے بچے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں، پوزیشنز لیتے ہیں اوریہاں تک کہ بورڈکی سطح پرٹاپ کرتے ہوئے اپنے آپ کومنواتے ہیں۔ اگرانہی بچوں کوشروع دن سے ڈرا دیا جائے، انہیں کہہ دیا جائے نہیں تم بہت چھوٹے ہو،پڑھائی بہت زیادہ مشکل کام ہے،یہ تمھارے بس کا کام نہیں۔توکیاہوگا،یہ ڈرے سہمے بچے اورزیادہ خوفزدہ ہوجائیں گے،یہ خوف ہمیشہ کے لئے انہیں مایوس کردے گااوروہ ہمیشہ کے لئے نااُمیدہوجائیں گے،پھریہ نااُمیدی زندگی بھراُنہیں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے مسائل اورپریشانیاں خطرناک حدتک بڑھتی چلی جارہی ہیں اورختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہیں۔اس کی وجہ صرف اورصرف ایک ہے کہ ہم نے انہیں حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ علامہ اقبال رحمتہ علیہ کایہ شعر ہمارے حالات کی خوب عکاسی کرتاہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا !

ہم نے حالات سنوارنے اورمسائل کاحل نکالنے کی بجائے اتنا شورکیاکہ پورے معاشرے کومایوسی کا شکارکردیاگیا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مایوسی کی حالت میں اندھیرے کوپیٹنے کی بجائے ہم میں سے ہرکوئی اپنے حصے کی شمع جلائے۔تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک سے مایوسی ،ناامیدی کا خوف اوراندھیرے خود بخودبھاگ جائیں گے۔

ہم نے پاکستان بنانے کے مقصد کونظرانداز کردیا،جس کا مقصد تھا اسلام،نبی ﷺ کے طریقوں کے مطابق اﷲ کے ہرحکم پرعمل،قرآن کی تعلیم کوعام کرنا تاکہ ہم قرآن کوسمجھ کراس سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے ایک ایسی قوم بنتے جہاں محبت،ایثار،اخوت،اتفاق سے رہتے،ایک دوسرے کا سہارا بنتے،دوسروں کے دکھ اورتکلیف کواپنا دکھ اورتکلیف سمجھتے،دوسروں کی پریشانی اورمشکل میں مدد کرتے۔ جیسا کہ پاکستان بننے کے وقت خون کی ندیاں پارکرکے آنے والے مہاجرین کی مدداُس وقت کے مقامی لوگوں نے کی۔ان کے دکھوں اورپریشانیوں کوکم کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کیا، متحدہوکرمشکلات کو شکست دی اورپوری دنیا کوایک قوم بن کردکھایا۔

پھرکیاہوا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت واخوت کا جذبہ کم ہوتا گیا،ہم نے اپنے مقصدکوبھول کراپنی ضرورت اورخواہشات کوپوراکرنے کے لئے دوسروں کا حق مارنے اورہرطریقہ سے مال ودولت اکھٹا کرنے کو اپنا مقصد اورکامیابی کامعیار بنالیا۔اتفاق کی جگہ بے اتفاقی،اسلام کی جگہ فرقہ بندی،محبت کی جگہ نفرت اوردشمنی نے لے لی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پیارا پاکستان مشکلات ،مسائل اورپریشانوں میں گھر گیا۔یہ نفرت وبے اتفاقی دشمنی اور دہشت گردی میں بدل گئی ،مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائی کومارنے لگے،یہ نفرت اس حدتک پھیلی کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں درسگاہیں بھی محفوظ نہ رہیں،پورے پاکستان میں سکول وکالجزکودہشت گردی کا نشانہ بنایا جانے لگا،16دسمبر 2014 تاریخ کاوہ سیا ہ ترین دن،جس روزپشاور میں آرمی پبلک سکول پردہشت گرد حملے میں132 معصوم بچوں سمیت 149بے گناہ اوربے قصورلوگوں کو جس درندگی اوربے رحمی سے شہیدکردیا گیا،اس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔اتنا عرصہ گزرنے کے باوجودمیں اس صدمے کونہیں بھول سکی۔ہرسال جب یہ دن آتا ہے،میں خود پرضبط نہیں کرپاتی اوران معصوم شہدوں کویاد کرکے میری آنکھوں سے بے اختیارآنسوں جاری ہوجاتے ہیں۔

مگرمیراایمان ہے کہ دُشمن کی بزدلانہ کارروائیاں ہمیں کمزور،بزدل اورمایوس نہیں کرسکتیں۔ہمیں چاہیے، ہم سچے دل سے عہد کرلیں ا ور مضبوط ارادہ کرلیں،اپنی نیت کوہرقسم کے کھوٹ سے پاک کرکے اﷲ کے ا حکامات پرعمل کریں،قرآن پڑھیں ،سمجھیں اورنبیﷺ کے پیارے اخلاق کواپنے پرلازم کرلیں توہم پھرسے ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں اورپاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ آخرمیں دعا ہے اﷲ ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے،اﷲ مستقبل میں ہمیں ایسے حادثوں سے محفوظ رکھے۔ 16دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور پردہشت گرد حملے میں شہیدہونے والی پرنسپل طاہرہ قاضی، اساتذہ ودیگرسٹاف سمیت تمام معصوم بچوں کی لحدپراﷲ کی رحمت کانزول ہمیشہ رہے اوران معصوموں کے والدین کوصبرجمیل اوراس صبرپراجر ِعظیم عطاء فرمائے، آمین ثم آمینـ"(اُم ایمن )
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.