کشمیر کے اندر حفاظتی دستوں کے ہاتھوں ۷ بے قصور شہریوں
کی موت اور ۵۶ لوگوں کے زخمی ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کشمیر کے موقر اخبار
کشمیر عظمیٰ نے اپنے اداریہ میں لکھا ’’فضائوں میںماتم اور مایوسیوں کے
بادل جس شدت کےساتھ گہراتے جارہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے کہیں سے اُمید کی
کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ پلوامہ میں جس انداز سے شہریوں کا خون بہایا
گیا، وہ حالات سے نمٹنے کےلئے حکومت کا ایک پالیسی انداز دکھائی دے رہا ہے۔
وگرنہ پتھرائو کے واقعات ملک کی کس ریاست میں پیش نہیں آتے اور کہاں ہجوم
پر اس انداز سے گولیاں برسائی جا تی ہیں کہ بدن کا کوئی حصہ ہی محفوظ نہ
رہے۔ حکام کی جانب سے ہمیشہ معیاری ضابطہ کار SOPکی باتیں کی جاتی ہیں لیکن
حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کشمیر میں امن وقانون کے اداروں کے لئے اس
ضابطۂ کار کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اس طرح فورسز ادارے نہ صرف آئین و
قانون کے ضوابط کی دھجیاں بکھرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ اس طریقہ ٔ کار
کواپنی ضروریات کا حصہ جتلاء کر جمہوریت کے اُن بنیادی تقاضوں سے منکر ہو
رہے ہیں، جو عام لوگوں کو آئینی اور جمہوری حقوق فراہم کرنے کے پابند ہیں‘‘۔
اس خونریزی کی ایک کشمیری پنڈت اورسپریم کورٹ کےسابق چیف جسٹس مارکانڈے
کاٹجونے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ معروف قانون داں ودانشورنےپلوامہ
میں فورسزکی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت
کوجلیانوالاباغ قتل عام سے تعبیرکرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل بپن رائوت
کاموازنہ بدنام زمانہ انگریزجنرل ڈائراورویتنام میں خون کی ہولی کھیلنے
والے لیفٹنٹ کیلی سے کردیا۔کشمیرنیوزسروس کے مطابق پریس کونسل آف انڈیاکے
سابق سربراہ کاٹجو نے سماجی رابطہ گاہ ٹوئیٹر پر لکھا کہ ’ ’انڈین آرمی
کیلئے تین تالیاں،جس نے اب کشمیرمیں عام شہریوں کوقتل کرناشروع
کردیا‘‘۔انہوں نے آگے لکھا’’جیسے جنرل ڈائرنے جلیانوالاباغ اورلیفٹنٹ کیلی
نے مائے لائے ویتنام میں کیاتھا،ویساہی انڈین آرمی نے کشمیرکے پلوامہ
علاقہ میں کیا‘‘۔طنزیہ اندازمیں کاٹجو لکھتے ہیں’’پلوامہ جیسی ہلاکتوں
پرفوج کے تمام افسروں اورسپاہیوں کوبھارت رتن ایوارڈسے
نوازاجاناچاہئے۔پلوامہ کشمیرمیں جلیانوالاباغ اور مائے لائے ویتنام
طرزپر۷عام شہریوں کوموت کی نیندسلادینے پرجنرل رائوت کومبارکباد‘‘۔
ایک طرف سابق جج کی حق گوئی وبیباکی کے برخلاف عآپ کی رکن اسمبلی الکا
لامبا ایک کا چونکا دینے والا بیان سامنے آگیا۔ لامبا نے اپنے ٹوئیٹر
پیغام میں لکھا ’’ کیا جوانوں نے گھر میں گھس کر نہتے بے قصور مقامی لوگوں
کو نشانہ بنایا؟ نہیں۔ جب تشدد ہورہا ہوتا ہے(عسکری) ہمارے جوانوں پر
گولیاں برسا رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں بچانے کے لیے ہاتھوں میں پتھر لے کر
نکلنا سڑکوں کہاں تک جائز ہے؟ ایسے میں اگر کوئی شکار ہوتا ہے تو قصور اسی
کا ہے‘‘۔ الکا لامبا کا تعلق نہ تو بی جے پی سے ہے اور نہ ان کی تربیت سنگھ
پریوار میں ہوئی ہے۔ الکا نے سیاست کی ابتداء کانگریس پارٹی کی طلباء تنظیم
این ایس یو آئی سے کی اور دہلی یونیورسٹی طلباء یونین کی صدر منتخب
ہوگئیں۔ این ایس یو آئی کی صدارت کے بعد انہیں دہلی کانگریس کمیٹی کا جنرل
سکریٹری اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا سکریٹری بنایا گیا ۔ کانونٹ اسکول
میں تعلیم حاصل کرنے والی الکا لامبا ۲۰۱۳ تا ۲۰۱۵ کے درمیان چاندنی چوک
سے عآپ کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئیں ۔ اس کے باوجود ان کا یہ
موقف فوجی سربراہ جنرل رائوت سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے کہا تھا فوجی
کارروائی کے دوران سامنے آنے والے ہر فرد کو عسکریت پسندوں کا حامی سمجھا
جائے گا ۔
الکا لامبا کے پیغام میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ’فوج گھر کے اندر نہیں گھسی
تھی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر کارروائی کے دوران لوگوں کو محفوظ و مامون رہنے
کے لیے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جانا چاہیے بصورت دیگر حفاظتی دستوں کو
انہیں گولیوں سے بھون دینے کا حق حاصل ہوجائے گا اور اپنی موت کے لیے وہ
خود قصوروار ہوں گے۔ یہ کس جنگل کا قانون ہے۔ ایسا تو درندے بھی نہیں کرتے
کہ غیر متعلق جانور کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں ۔ الکا لامبا اگر بیان لکھنے سے
قبل فائرنگ کی تفصیلات اور فوجی کارروائی کی معلومات حاصل کرلیتیں تو یہ
حماقت سرزد نہ ہوتی۔ فوجی کارروائی صبح تڑکے ہوئی جس میں تین عسکریت پسند
ہلاک اور تین فوجی اہلکار زخمی ہوئے ان میں سے ایک بعد میں ہلاک ہوگیا ۔
گولی باری دوپہر ۱۱ بجے اس جگہ ہوئی جہاں کوئی فوجی کارروائی نہیں چل رہی
تھی۔ فوجی جیپ ایک تنگ سڑک پر پھنس گئی نوجوانوں نے پتھر بازی کی فوج نے
گولی چلا دی ۔ اس میں کسی فوجی کا بال بیکا نہیں ہوا لیکن جملہ ۷ شہری موت
کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۲۳ کو گولی لگی اور ۵۶ زخمی ہوئے۔ کیا فوج کا ایسا
کرنا حق بہ جانب ہے؟ کیا دہلی پولس کو الکا لامبا عآپ کے خلاف اس طرح کے
سلوک کی اجازت دیں گی؟
کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے کا نعرہ لگانے والے وادی میں ہونے والے
مظالم پر خاموشی اختیار کرکے خود اپنے دعویٰ کی تردید کردیتے ہیں ۔ بلند
شہر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ یہاں کے
رہنے والے ہمارے ملک کے شہری ہیں اس لیے اگر وہ احتجاج کریں ۔ تشدد پر
آمادہ ہوجائیں ۔ پتھر پھینکنے لگیں بلکہ گولی چلا کر پولس تھانیدار کو
ہلاک کردیں تو اس کے جواب میں بھی گولی نہیں چلائی جاتی ۔ اس لیے کہ وہ
اپنے ملک کے باشندے ہیں لیکن کشمیر کے اندر نوجوان گولی تو دور پتھر بھی
پھینک دیں تو ان کے خلاف بندوق کا دہانہ کھول دیا جاتا ہے ۔ بلند شہر اور
پلوامہ کے مظاہرین کے بیچ ہونے والا تفریق و امتیاز سارے دعووں کی قلعی
کھول دیتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی سخت کارروائی سے مسئلہ حل
ہوجائے گا ان کی غلط فہمی دور ہوچکی ہے۔ اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف تین
روزہ احتجاجی بند میں پورا کشمیر ٹھہر گیا۔
وادی میں تیسرے روز بھی ہمہ گیر ہڑتال کے دوران انٹرنیٹ اور ریل سروس معطل
رہی اورکئی رہنما و کارکن خانہ و تھانہ نظر بند رہے۔ سرینگر اور وسطی کشمیر
کے تمام ضلع و تحاصیل صدر مقامات پرکاروباری سرگرمیاں ٹھپ
رہیں،دکان،کاروباری وتجارتی مراکز، کالج، کوچنک مراکز، یونیورسٹیاں اور
پیٹرول پمپ بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل مکمل طور پرمسدود ہوکر
رہ گئی۔سرینگر کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہو کا عالم رہا۔پلوامہ کی شہری
ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بادامی باغ فوجی ہیڈکوارٹر چلو کا نعرہ
بلند کیا گیا۔ اس کے پیش نظر ہیڈ کوارٹرکے نواحی علاقوں کو مکمل طور پر سیل
کرنا پڑا،جبکہ پائین شہر ۳ پولیس تھانوں میں کرفیو جیسی بندشیں اور پلوامہ
میں اعلانیہ کرفیو نافذکیا گیا ۔کئی رہنماوں کو حراست میں لیاڑ پڑا نیز
تاجروں نے بھی احتجاج کیا۔ پلوامہ قتل عام جیسے واقعات کو ناقابل قبول قرار
دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے گورنر انتظامیہ کیساتھ ساتھ مرکزی سرکار پر زور
دیا ہے کہ کشمیر میں بے گناہوں کے خون ناحق کو روکنے کیلئے ٹھوس اور کارگر
اقدامات کے ساتھ ساتھ اس سانحہ میں ملوث اہلکاروں کو نشاندہی کرکے قانون کے
مطابق سزا دی جائے۔ اس جارحانہ اقدام سے عوام کا حوصلہ تو نہیں ٹوٹا لیکن
عالمی پیمانے پرحکومت کی بدنامی خوب ہوئی ۔ او آئی سی اور ایمنسٹی انٹر
نیشنل نے بھی اس کی پرزور مذمت کی ۔
ایوانِ بالہ میں حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ جموں کشمیر غلام
نبی آزاد نے مطالبہ کیا ہے کہ پلوامہ میں جو ۷شہری ہلاکتیں ہوئیں انکی
تحقیقات کی جائے، نیز سرکای فورسز کو ہدایت دی جائے کہ وہ شہریوں پر فائرنگ
نہ کریں۔ نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا کہ تصادم کے
مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہونا کوئی نئی بات نہیں اور اس طرح سے لوگوں پر
اندھا دھند گولیوں کی برسات اور طاقت کے بے جا استعمال کی بڑے پیمانے پر
تحقیقات ہونی چاہئے۔ این سی کے صوبائی صدر ناصر وانی نے مرکزی قیادت پر زور
دیا کہ خدارا یہ پیلٹ، شلنگ، مارپیٹ، توڑ پھوڑ اور گنی گرج بند کرکے بات
چیت کی راہ اختیار کی جائے۔ اس معاملے میں پہلے گورنر نے گولی باری کی مذمت
کی ، اس کے بعد صوبائی انسانی حقوق کے کمیشن نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
یہاں تک مرکزی وزارت داخلہ اور شمالی ہند کے فوجی کماندار رنبیر سنگھ کو
بھی حفاظتی دستوں سےنہایت محتاط رہنے کی تلقین کرنی پڑی۔ انڈین ایکسپریس نے
اپنے داریہ میں اس مہم جوئی کو پل کا ٹوٹ جانا قرار دیتے ہوئے تشویش کا
اظہار کیا ہے اور مرکزی سرکار کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ
دیا ہے ۔ کاش کے حکومت اور حفاظتی دستےعقل کے ناخون لیں اور ایک قتل وخون
کی آگ بجھائیں ورنہ خود بھی اس میں بھسم ہوجائیں گے۔ |