قابل اعتماد ذرائع کیمطابق اسوقت آزادکشمیر محکمہ برقیات
کے مظفرآباد،میرپور دفاتر کے ذمہ12کروڑ روپے بقایا جات ہیں۔بقایا جات میں
مظفرآباد ڈویژن کے محکمہ برقیات دفاترکے ذمہ چھ کروڑ پچاس لاکھ روپے واجب
الاادا ہیں۔اس حوالے سے متعلقہ ذمہ داران نے حکام کو تفصیلات سے آگاہ کیا ۔جسکے
بعد دونوں ریجنزکے چیف انجیئنرزکو واضع طور پر ہدایت بھی کی گئی ۔کہ وہ
فوری بلات ادائیگی کریں ۔لیکن دسمبر کا نصف دورانیہ بھی گزر چکا ۔تاحال
برقیات کے دفاتر کے ذمہ بارہ کروڑ سے زائد رقم خزانہ میں جمع نہیں کی گئی ۔جبکہ
عام صارف پر بھاری بلات کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔۔جبکہ برقیات افسران
کھاتے برابر کرنے کیلئے ملازمین کا چینل استعمال کرتے ہوئے ریاست کے عام
لوگوں کی معیشت پر تلوار بن کر لٹکنے لگے ہیں۔ محکمہ برقیات نے بجلی چوری
روکنے لائن لاسز میں کمی کیلئے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔پرانی
بوسیدہ تاریں اب بھی ویسے ہی کام چلارہی ہیں ۔جو عشروں پہلے لگائی گئیں ۔لائن
لاسز کے حوالے سے دو جہت باور کی جاتی ہیں ۔ایک یہ کہ بجلی کے نظام میں گڑ
بڑ اور بوسیدہ تاروں کی وجہ سے ضائع ہونیوالی بجلی کو لائن لاسز کا نام دیا
جاتا ہے ۔جبکہ یہ چوری ہونیوالی بجلی بھی انھی لائن لاسز میں شمار کی جاتی
ہے۔ دوسری جہت یہ کہ محکمہ برقیات کے بعض بااثر ملازمین خود بھی بجلی چوری
کرتے ہیں ۔اور دوسروں کو بھی مستفید کرتے ہیں ۔اور ساتھ بلات بھی ادا نہیں
کرتے ۔ گھروں میں فری کوکنگ کے علاوہ پالتو جانوروں کو ٹھنڈ سے بچانے کیلئے
’’کوہالوں‘‘میں فری ہیٹنگ کا بندوبست بھی ہورہا ہے۔حسب ضرورت میڑز جام
رکھنے کیلئے زمین میں ارتھ لگانے کانسخہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس کی بدولت
بجلی تو چلتی ہے ۔میڑ نہیں چلتا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے
کیلئے لائن لاسز اور چوری کیوجہ سے ضائع ہونیوالی بجلی کا بِل بھی اُن
صارفین سے وصولی پر کوئی خوف خدا نہیں کیا جاتا ۔صارفین کا موقف ہے کہ
50یونٹ بجلی استعمال کرنے والے پر اگر ایک یونٹ اضافی ڈال دیا جائے تو ٹیرف
میں اضافہ ہوجاتا ہے۔بجلی چوری کے رحجان کے حوالے سے صارفین نے یہ اعتراض
بھی اُٹھایا ہے کہ کیا محکمہ برقیات کے ملازمین کیلئے فری بجلی استعمال
کرنے کا کوئی ضابطہ موجود ہے؟اگر ہے تو اُسکی تفصیل سے عام صارف کو باخبر
ہونا چاہیے ۔جبکہ ایسا نہیں ہورہا ۔گھروں دفاتر کاروباری مراکز میں نصب
بجلی کے میڑزکیساتھ کسی کارڈ کی موجود گی کو سرے سے اہمیت نہیں دی گئی ۔یہاں
یہ امر قابل ذکر ہے محکمہ برقیات کے ذمہ داران و اہلکاران میں اکثریت بجلی
سے ’’کچھ ‘‘زیادہ ہی استفادہ کررہی ہے۔موسم کی شدت کی دونوں صورتوں میں
بجلی کا فراخدلانہ استعمال جتنا حق سمجھا جاتا ہے ۔اِسی قدر بجلی کی
شریفانہ چوری کاحساب بھی عام صارف کے حصے ڈال دیا جاتا ہے۔جوکہ اُس شریفانہ
چوری کے علاوہ ہے جو ’’غیر برقیاتی‘‘لوگ ’’برقیاتیوں ‘‘سے گٹھ جوڑ سے کرتے
ہیں چنانچہ موقع پر موجود ریڈنگ اور بِل میں ڈالے گئے یونٹس میں بہت زیادہ
فرق ہوتا ہے۔جس سے صارف کی جیب پر بوجھ پڑتا ہے۔صارفین کا یہ بھی کہنا ہے
کہ میڑکیساتھ ایک کارڈ ہونا چاہیے ۔تاکہ میڑ ریڈر وہاں بھی صرف شُدہ یونٹس
درج کیا کرے ۔صارف کا یہ حق ہے کہ وہ نصب شُدہ میڑ پر موجود ریڈنگ کے تحت
بِل ادا کرے ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دارالحکومت مظفرآباد سمیت تمام
اضلاع میں بجلی چوری کو لائن لاسز کا نام دیا جاتا ہے ۔جبکہ ریونیو کا ہدف
حاصل کرنے کیلئے صارفین کیساتھ دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔پچاس
یونٹس صرف کرنیوالے پر ایک اضافی یونٹ ڈال کر ٹیرف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہی
ترکیب سو دو سو تین سو چار سو یونٹس تک اور وہاں سے بھی اُوپر تک استعمال
کی جاتی ہے۔رپورٹ کیمطابق صارفین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ بجلی تقسیم
کرنیوالے محکمہ برقیات کے ایک عام ملازم سے لیکر اُوپر تک کام کرنیوالے
تمام ملازمین و افسران کے اثاثہ جات معلوم کئے جائیں۔تاکہ پتہ چلے ایک
ملازم چالیس پچاس لاکھ کا مکان ،پندرہ بیس لاکھ مالیتی گاڑی کیسے رکھ سکتا
ہے۔آمدن و خرچ کا حساب کیا جائے ۔تاکہ پیسہ کہاں سے بنایا ۔معلوم
ہوسکے۔رپورٹ کیمطابق ایک صارف کے میڑ پر ریڈنگ چار ہزار تھی ۔جبکہ بمطابق
بِل وہ باون سو پچپن روپے ادا کرچکا تھا۔اسی طرح ایک اور میڑ پر دوہزار
یونٹس صرف ہوئے جبکہ صارف پینسٹھ سو سات یونٹس کا بِل ادا کرچکا تھا۔بتایا
جاتا ہے کہ آزادکشمیر میں لائن لاسز شو کرکے کرپشن اور بددیانتی کو رحجان
مل رہا ہے ۔اِسکی ایک اہم وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اکثر ملازمین ایک
پوسٹ پر بیس بیس سال تک براجمان رہتے ہیں ۔جو وہاں بیٹھ کر بددیانتی کوفروغ
دے رہے ہیں ۔ برقیات ہی نہیں ،بلکہ ہر سرکاری محکمہ میں ہر سطع پر آمدن و
اخراجات اور اثاثہ جات کے سلسلے میں تفصیلات لی جانی چاہیں ۔اور پھر
تحقیقات کرکے کرپشن و بدعنوانی کا راستہ بند کیا جائے ۔نیز بجلی کی فورس
لوڈ شیڈنگ کا تاثر ،اوور بلنگ اور چوری کے حوالے سے معاملات کو سختی سے
دیکھا جائے ۔تو عام صارف کا اعتماد بحال ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ناصرف
بجلی کے استعمال کو صاف و شفاف بنایا جائے ۔بلکہ لائن لاسز کی اصل تکنیکی
وجہ دُور کرنے پر توجہ دی جائے ۔نیز اوور بلنگ ،چوری اور برقیات اہلکاروں
کی ملی بھگت سے چوری (ماہانہ ٹھیکہ )کا سراغ لگایا جائے ۔عام ملازم سے لیکر
اُوپر تک کام کرنیوالے تمام ملازمین و افسران کے اثاثہ جات معلوم کئے
جائیں۔تاکہ پتہ چلے ایک ملازم چالیس پچاس لاکھ کا مکان ،پندرہ بیس لاکھ
مالیتی گاڑی کیسے رکھ سکتا ہے۔آمدن و خرچ کا حساب کیا جائے ۔تاکہ پیسہ کہاں
سے بنایا ۔معلوم ہوسکے۔آخر میں ریاستی انتظامیہ /حکومت کیلئے مفت مشورہ ہے
کہ دارالحکومت کے لاکھوں شہریوں میں موجود اضطراب ،بے چینی کا ادراک کیا
جائے ۔اور درپیش مسائل کا تدارک کیا جائے ۔کیونکہ مسائل تب ہی پیدا ہوتے
ہیں ۔جب متعلقہ ذمہ داران و اہلکاران ِ سرکار نے اپنے فرائض کیساتھ
بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہو ۔اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جب عوام کے
مسائل حل نہ ہوں تو ایک ردعمل ضرور پیدا ہوتا ہے ۔جسے کسی لبادے ،کسی جال
کی ضرورت نہیں ہوتی۔
|