وقت کا فلسفہ

(انٹرنیٹ سے لیا گیا ایک اسکیچ ہر شے کے فلسفے کے بارے میں)
یہ سچ ہے کہ :-
وقت سے دن اور رات وقت سے کل اور آج وقت کی ہر شے غلام وقت کا ہر شے پہ راج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
لیکن معاملہ کچھ اور ہے:-وقت ایک ایسا غیر مرئی گھوڑا ہے جس کو نہ کوئی پکڑ کر روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کی اپنی مرضی کی چال سے زیادہ تیز چلا سکتا ہے البتّیٰ آنکھ بند کرتے ہی یہ سرپٹ دوڑنے لگتا ہے، پھر اس کی رفتار کم نہیں کی جاسکتی۔ وقت کا فلسفہ پوچھتا ہے کہ آیا یہ حقیقی ہے، اس کا تبدیلی، وجہ، اور شعور سے تعلق کیا ہے؟ کیا وقت ہم نے واقعات کو ترتیب دینے کے لیے خود بنایا ہے یا وہم ہے؟کیا ماضی، حال اور مستقبل موجود ہیں یا صرف موجودہ لمحہ ہی حقیقی ہے۔ وقت کیوں آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہےاور کیا وقت کے لیے تبدیلی ضروری ہے؟ وقت مخلوق کے لیے حقیقی ہے لیکن خالق کے لیے نہیں جو اس سے باہر موجود ہے۔آخر کاروقت کا فلسفہ اس بات کی جدوجہدکرتا ہے کہ کس طرح حرکت پذیر حال کا ہمارا تجربہ ایک طبعی کائنات میں فٹ بیٹھتا ہے جو تمام لمحات کے ساتھ یکساں سلوک کر سکتا ہے۔"آئیے ہم تمام خلفشار کو ختم کریں اور اس خوف سے تنہا کام کریں کہ بصورت دیگر ہم پیچھے رہ جائیں گے اور آخر کار ایک دن اس قلیل رجحان، وقت کے گزرنے کی تیز رفتاری کا احساس کریں گے، جسے روکنے کے لیے ہم بے بس ہیں۔ ہر دن جو آئے گا اس کا خیرمقدم کیا جائے اور اسے فوراً اپنے قبضے میں لے لیا جائے جیسے کہ یہ ماضی کا بہترین دن تھا۔ہر چیز ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ یہ ان سچائیوں میں سے ایک ہے جو مکمل طور پر خوفناک اور مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے — خوفناک کیونکہ تمام اچھی چیزیں ختم ہو جاتی ہیں (چاہے وہ ہمارے اپنے اسباب سے ہوں یا فطری ہوں)، اور آزاد اس لیے کہ کوئی واحد صورت حال (یا آپ کا نقطہ نظر) ایک جیسا نہیں رہے گا۔ تبدیلی واحد مستقل ہے، اور وقت کائنات کا معروضی حکمران ہے۔ وقت ہر چیز کا آغاز اور انجام ہے، ایک گھڑی جس کی ٹکر صرف آگے بڑھتی ہے۔
اپنے اندر کی خوشی کو ہم اچھا وقت اور اندر کی پریشانی کو برا وقت کہتے ہیں حالانکہ خوشی کا یا پریشانی کا دورانیہ نامعلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم دیوار پر لگی گھڑی کے اوقات "ایک، دو ، تین سے بارہ تک" کی مانند وقت کے صیغے سے ہی پکارتے ہیں یا پھر بچپن کا وقت کہنا، جوانی اور بڑھاپے کے نامعلوم دورانیئے کو بھی ہم وقت کے زمرے میں ہی شمار کرتے ہیں۔ سب سے دلچسپ زاویہ یہ ہے کہ وقت کی جمع اوقات کو ہم ایک دوسر ے کی قوتِ خرید، امارت، مفلسی اور معاشرے میں حیثیت کے عنوان سے بھی لیبل کرتے ہیں، اس لئے شاعر نے بھی گھبرا کر کہہ ڈالا " آدمی کو چاہئیے وقت سے ڈر کر رہے" کیونکہ اس نے سترہ سالہ سکندراعظم اور چالیس سالہ چنگیز خان کا عالمگیر حکمرانی کا زمانہ نہیں دیکھا، وقت کا اندازہ لگانا تو دور کی بات۔آدھی زمین پر حکمرانی پیدل یا گھوڑے پر سفر کرتے ہوئے ایک دو تین سے بارہ والی گھڑی ہاتھ کی کلائی میں پہنے بغیر ۔ کیونکہ انھوں نے سوچا ہی نہیں کہ ماضی میں جو وقت نکل گیا وہ کیسا نکلا، حال میں کیا وقت ہؤا ہے اور آنے والے دن ، گھنٹے اور منٹ کتنے رہ گئے ہیں۔
محمدﷺ جو ایک عرب مذہبی، فوجی اور سیاسی رہنما اور اسلام کے بانی تھے۔ اسلام کے مطابق، وہ ایک نبی تھے جو الہٰی طور پر آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی توحیدی تعلیمات کی تبلیغ اور تصدیق کے لیے الہام ہوئے تھے۔انھوں نے غارِ حرا میں کُل کتنے گھنٹے گذارے جب خالقِ کائنات نے اپنا تعارف اپنے ایک فرشتے کے ذریعے کرایا۔ نہ ہی ان کے گھر والوں یا قبیلے والوں نے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں ان تین میں سے کسی ایک کے دورانئیے کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کی بلکہ آپ ﷺ نے دنیا کو بتا دیا کہ وقت کا فلسفہ بس یہ ہے کہ اس کی قدر کرو تاکہ اپنے آپ کو پہچاننے کے ذریعے سے اپنے خالق کے مزاج کو جان سکو کہ وہ چاہتا کیا ہے ، اسی میں کامیابی ہے اس زندگی میں اور سرخروئی ہے اگلی زندگی میں۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 335 Articles with 252424 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More